کرونا کی دستک


دستک آن پہنچی۔ کبوتر کی طرح آنکھیں موند رکھیں یا تدارک کا خیال کیجئے۔ زندہ قومیں بحران سے کیسے نبر د آزما ہو تی ہیں۔ ہمالیہ سے پرے صدا آتی ہے ادھر خیال کیجئے۔

کرونا وائرس ایک آفت ہے۔ شمال سے نکل کر مغرب میں جا پہنچا۔ ہمیں فکر نہ ہوئی۔ ہنوز دلی دور است۔ بائیس کڑور لوگ بحران جن کے سر پہ آ ن کھڑا ہوا۔ اگر قدرت مہربان نہ ہوئی تو وہ دن دور نہیں جب کروونا وائرس ہمارے شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ خاک بدہن۔ ۔ ہے کوئی جسے آہٹ سنائی دیتی ہو؟ مگر سامنے کی بات یہی معلوم پڑتی ہے کہ دیدہ وری سے ہمارا کاہے کو واسطہ۔

کچھ ان سے سیکھتے جن سے ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے بھی گہری بنتی ہے۔ جب بحران درپیش ہوا ڈیڑھ ارب لوگ یک مشت ٹھہرے۔ کہاں ڈیڑھ ارب اور کہاں بائیس کڑور۔ کچھ چارہ ہے کہ اگر ملتان، لاہور یا کراچی جیسا کوئی ارض پاک کا شہر زد میں آگیا تو لوگوں کو قرنطینہ میں کیسے رکھا جائے گا؟ کروڑوں کی تعداد میں ماسک کیسے دستیاب ہوں گے؟ چلیں این۔ 99 نہ سہی ایک عام ماسک ہی سہی۔ کیا وطن پاک میں ہمیشہ کی طرح طلب و رسد کا مصنوعی بحران تو جنم نہیں لے لے گا؟ کیا یونیورسٹیاں، کالجز، سکول اور دینی مدارس کے مدرس کو ابھی سے ٹریننگ دینا مقصود نہیں تا کہ وہ ہجوم کو خبر دار کریں اور باہم تیار رکھیں کہ زندہ قومیں کیسے سرخرو ہوتی ہیں؟

ڈیڑھ ارب کے آبادی ایک حکم کے آگے سر نگوں ہوئی اور گھروں میں مقید ہو کر رہ گئی۔ ہفتہ بھر میں دو ہسپتال بنا کر کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔ دنیا حیران۔ مبالغہ آمیزی اس وقت زمین بوس ٹھہری جب لاکھوں لوگوں کو کام میں جت پایا۔ نہ دن کو چین نہ رات کو سکوں یہاں تک کہ طلوع صبح روشن کے آثار واضح ہونے لگے۔

کیا ہمارے ہسپتال اس آفت کے سامنے بوسیدہ تو نہیں۔ کیا طبیب کروونا وائرس اور امراض دیگر میں مبتلا مریض کا فرق جانتا ہے؟ نہیں تو کس کی ذمہ داری ٹھہری۔ کون ہے جو اس ہنگام برووئے کار آئے گا؟ گزشتہ روز فارس سے مرگ آدم زاد کی خبر پہنچی۔ دل رنجیدہ ہوا۔ بلوچستان کا وزیر شب تاریک سے بیدار ہوا چاہتا ہے۔ کہ ظائرین جا نہ سکیں گے کیونکہ بارڈڑ بند کر دیا گیا۔ درست۔ مگر ہزاروں کی تعداد میں بشر آتے جاتے رہے۔

کسی کو خیال نہ آیا۔ قرنطینہ کی مدت تو چودہ ایام یا کچھ زائد ٹھہری۔ بیچ آیام جو حرکت میں رہے۔ وہ کہاں کہاں نہیں گئے ہوں گے۔ کیا کراچی، لاہور، اسلام آباد، ملتان کچھ بھی مصدقہ نہیں۔ چارہ نہ کیا گیا تو بحران ہی بحران۔ یہ بات صرف کچی بستی والے تک محدود رہے تو کیا غرض۔ مگر یہ منحوس جان کو آتا ہے بلا تفریق۔ بلا رنگ و نسل۔

کیا خاکی پوش نکلیں گے؟ نہیں۔ ملک اس چیز کا متحمل نہیں کیوں کہ اگر یہ بیرکوں میں جا پہنچا تو ہے کوئی دوسرا۔ نہیں نہیں ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔ مسجد کو، مدرسہ کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ صاحبان علم مرد و زن کو چارہ جوئی کرنا ہوگی۔ اہل ثروت کو ابھی سے تیار رہنا ہو گا۔ وزیر اعظم اور کابینہ کو اس ہنگام نکلنا ہو گا۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ کوئی ہے جو بتا دے۔ دستک آن پہنچی۔ کبوتر کی طرح آنکھیں موند رکھیں یا تدارک کا خیال کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments