سائیں سرکار کی شاعری، میلوں کی کامن ویلتھ اور مادری میلے کے نوادرات


صوبہ سندھ اپنے میلوں ٹھیلوں کے اعتبار سے کافی مشہور و معروف ہے۔ کچھ میلے، تھیٹر، مٹھائی، سرکس، اور سندھ کے روایتی کھیل ملھ عوام میں کافی مقبول ہیں۔ عرس کے مواقع پر منعقد کردہ میلے روحانیت کے مرکز مانے جاتے ہیں۔ شاہ لطیف، سچل اور لال شہباز قلندر سمیت کئی بزرگ ہستیوں کے عرس پر لگنے والے میلے خوب جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں جس میں ملک بھر سے عقیدت مند شامل ہو کر ساز و سوز میں مگن دھمال ڈالتے اور روحانی سکون حاصل کرتے نظر آتے ہیں۔

وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ادبی میلوں کا رواج اپنے عروج پر دیکھنے میں آیا ہے۔ کئی این جی اوز اور نامی گرامی شخصیات ادب اور کلچر کی خدمت کے میدان میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے وزیر ثقافت سندھ سید سردار شاہ کا کسی کو بھی اپنے در سے خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے۔ موہن جو داڑو کی بین الاقوامی کانفرنس سے لے کر ادبی و ثقافتی میلوں کے لیے اپنی وزارت کے خزانوں کے منھ کھول رکھے ہیں۔

شاہ صاحب نے فنکاروں کو کہہ دیا ہے کہ بغیر فائلر بنے کسی بھی فنکار کو ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملے گی مگر کروڑوں کی فنڈنگ لینے والی این جی اوز رجسٹرڈ ہوں یا نہ ہوں، اپنا آڈٹ کرواتی ہوں یا نہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کیوں کہ وزارت ثقافت اور ثقافت و ادب کی خدمت کرنے والوں نے اپنی کامن ویلتھ جوڑ رکھی ہے۔ یاد رہے کہ سندھ حکومت کے مالی تعاون سے ہونے والے ثقافتی اور ادبی میلوں کے اندر کیا ہوتا ہے یہ سب جانتے ہیں ماہر کم دوست یار زیادہ ہوتے ہیں۔ کو نسی نشست کس موضوع پر رکھی جائے اس سے سندھ حکومت کا کوئی سروکار نہیں بس میلے کی افتتاحی تقریب میں سندھ کے وزیر ثقافت سردار شاہ بس اپنی شاعری پڑھنے کا شوق پورا کریں بس پھر میلہ مال و مال ہوگا۔

بھلے پھر لسانیت کے ماہر کے بجائے آپ پرندوں کی زبانوں کے ماہر کو بلالیں سائیں سرکار کو کوئی فرق نہیں پڑتا نہ ہی ان میلوں والوں کو کوئی فرق پڑتا ہے کہ میلے میں کتنے لوگ آئے ہیں یا پھر میلے میں لوگوں سے زیادہ میزبان موجود ہیں۔ نصیر آباد، خیرپور اور گھوٹکی جیسے چھوٹے شہروں میں ہونے والے لٹریچر فیسٹیولز سائیں کی دعا سے محروم رہتے ہیں کیوں کہ وہ سائیں کی کامن ویلتھ میں شامل نہیں ہیں۔ سندھ حکومت کے تعاون سے ہونے والے یہ میلے کراچی، حیدر آباد، ایاز، لاہوتی کے نام سے ضرور ہونے چاہیے بلکہ کشن چند بیوس جیسے سندھی شاعری کو جدت دینے والے سینکڑوں غیر مسلم شخصیات کے ساتھ ساتھ خواتین کے نام پر بھی ہونے چاہیے۔

سچل کا کلام بھی مائی نماں و نے اکٹھا کیا تھا اور بھٹائی کے بیتوں کو یاد کر کے ہم تک پہنچانے والوں میں بھی ایک عورت شامل تھی۔ بھلے ہی ہمارے معاشرے کی تنگ نظری کی وجہ سے کئی خاتون قرة العین حیدر اور امرتا پریتم بن کر سامنے نہ آ سکیں مگر پھر بھی سینکڑوں ایسے نام ہیں جن کے نام پر میلے لگائے جا سکتے ہیں۔ لاہوتی میلہ نشے پنگوں اور خواتین طالبات کے ساتھ بدسلوکی کی وجہ سے سوشل میڈیا پر خاصی تنقید کی زد میں رہا۔

لاہوتی میلے کا نعرہ تھا کہ ماحولیاتی آلودگی کو ختم کریں گے مگر حیرت کی بات یہ کہ وزیر ثقافت سندھ سردار شاہ کی شاعری سے شروع ہونے اس میلے کے اختتام تک ماحولیاتی آلودگی پر ایک شعر تک نہ پڑھا گیا بلکہ فضا کو مزید دھواں دار کر کے آلودگی کو بڑھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ اسلام آباد میں وزارت ثقافت سندھ اور دیگر کے تعاون سے منعقد کردہ مادری زبانوں کے ادبی میلے میں جھوٹی خبر سے کیسے نمٹا جائے، صحافت سے صحافت تک، موسیقی، کلیات انور شعور، جوش ملیح آبادی، حمایت علی شاعر کو خراج تحسین، آئین پاکستان میں مادری زبانوں کا تحفظ فخرو بھائی کے نام، مادری زبانوں کے نئے ناول، افسانے، شاعری، تھیٹر، بین الاقوامی ادب، متراجم، اکیسویں صدی کے چیلینجز، شہروں کے بارے میں معلوماتی کتب، مادری زبانوں کی دستاویزی شکل سے لے کر اسٹیج ڈرامہ، قیام و طعام کی اعلیٰ سہولیات کے ساتھ ساتھ سائنس کے کرشمے نمایاں نظر آئے۔ مگر اس مادری زبانوں کے ادبی میلے میں سچل کی شاعری پر کیلی گرافی کے ساتھ ساتھ نوادرات کی حالت زار خود اپنی آب بیتی دیکھنے والے کو سنا رہے تھے کہ خدارا اپنی مادری زبانوں کو بچاؤ ورنہ اگلی نمائش تک ہمارا زندہ رہنا بہت مشکل ہے۔

ماں بولیوں کو بچانے لیے سائنسی بنیادوں پر تحقیق اور تجاویز کم مگر گفت و شنید زیادہ دیکھنے میں آئی۔ میلے میں لسانیت کے ماہر کم شاعر، ادیب، صحافی زیادہ نظر آئے حالانکہ یہ مادری زبانوں کا ادبی میلہ تھا۔ ویسے تو تمام مادری زبانوں کے ماہرین کو خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے تھا مگر اگر صرف سندھی زبان کی ہی بات کرلی جائے تو سندھی رسم الخط بنانے والوں سے لے کر سندھی زبان پر کام کرنے والے سینکڑوں ماہرین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان پر بھی سیشن ہونے چاہیے تھے جن میں سر فہرست آئیوٹویا کمیٹی کے اراکین رائے بہادر نارائن، جگن ناتھ، خان بہادر مرزا صادق علی بیگ، میاں محمد، قاضی غلام علی ٹھٹوی سمیت ڈاکٹر ارنسٹ ٹرمپ، سر بارٹل فیئر، بھیرو مل آڈوانی، مخدوم ابوالحسن، مرزا قلیچ بیگ، جی دولت رام، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، سائیں جی ایم سید، ایم ایچ پھنور، علی نواز حاجن جتوئی، ڈاکٹر محبت برڑو جیسے اہم نام شامل ہیں۔ ویسے بھی مادری زبانوں پر تحقیق و بچاؤ کا کام حکومتی اداروں کا ہے۔ میلے چونکہ لوک ادب، موسیقی، میل جول اور تفریح کا نام ہیں مگر لوگ اگر سیشن میں کم اور میلے میں ملنے والے مفلروں اور تھیلوں اور کھانے پینے کے چیزوں کے پیچھے زیادہ نظر آئیں تو اس میں میلے والوں کا کیا قصور۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments