موہنجودڑو میں بنی ڈاکٹر ادیب رضوی لائبریری


”ہم صرف اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں ہم انہیں اسی مقصد کے تحت باہر بھجواتے ہیں تاکہ وہ پڑھ لکھ کر بڑا بنیں۔ باہر رہ کر وہ بچے واپس نہیں آتے ان کے صرف تحائف آتے ہیں۔ ہم اگر سب بچوں کو اپنا بچہ سمجھ کر انہیں تعلیم دینا شروع کریں تو معاشرے کا حلیہ ہی بدل جائے“۔ یہ الفاظ تھے محسنِ انسانیت ڈاکٹر ادیب رضوی صاحب کے، جب وہ ایک لائبریری کا افتتاح کرنے لاڑکانہ کے ایک چھوٹے سے قصبے عیسیٰ ہلیو میں تشریف لے آئے۔

ویسے ڈاکٹر صاحب نمود و نمائش سے پرے رہتے ہیں۔ اور مصروفیات اتنی ہیں کہ بڑی مشکل سے اپنے آپ کو وقت دے پاتے ہیں۔ اور عمر کے اس حد تک پہنچ چکے ہیں جہاں آدمی سفر کرنے سے کتراتا ہے۔ لیکن وہ چند نوجوانوں کا پاگل پن اور ان کا کام دیکھ کر ”نا“ نہ کر سکے نوجوانوں نے لائبریری کو ڈاکٹر ادیب رضوی کا نام دے کر اسے تاریخی طور پر امر کر دیا۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنی تاریخی خطاب تاریخی اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ان کے الفاظ میں انسان، انسانیت اور سچائی جھلک رہی تھی۔ جو کچھ وہ بیان کر رہے تھے ایسے گمان ہو رہا تھا کہ زمین زادوں کے دل کی باتیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موہنجو دڑو اپنے آپ میں ایک بہت بڑی لائبریری ہے جس میں تاریخ ہے تہذیب ہے تمام عنوانات موجود ہیں۔ اور ان کا مطالعہ کریں تو تعلیم اور صحت ان میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے مذکورہ لائبریری کو موہنجودڑو کی تاریخ کا حصہ قرار دیا۔

سندھ کے مختلف علاقوں میں بسنے والے احباب کی مشترکہ کاوشیں ہیں۔ یہ پرعزم ہیں سماج کو بدلنے میں، رویوں کو بدلنے میں، لفظ نا کو ہاں میں بدلنے میں۔ دوستوں سے چندہ لیتے ہیں ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر پیسے اکٹھی کرتے ہیں۔ وہ پیسہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور لائبریریوں پہ لگا لیتے ہیں۔ یہ پاگلوں کی ایک اکٹھ ہے ان پاگلوں میں ہمارے دوست آغا شکیل کا نام سرفہرست آتا ہے نہ دن دیکھتا ہے اور نہ ہی رات، بس لگا ہوا ہے

ایک دن باتوں باتوں میں کہہ گئے ”شبیر بھائی! بس دعا کرنا میرا جسم اور دماغ ان کاموں کے لیے میرا ساتھ دے ”۔ ان سب کو پاگل اس لیے کہتا ہوں کہ صحت مند دماغ ایسا کام کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے اور سوچنے کے بعدپھر کہتا ہے چل چھوڑ یار۔ ایک درد سر کیوں پال لیں۔ انسان دوستوں کا ایک ٹولہ ہے۔ یہ آگے چل کر پاکستان کے مختلف حصوں میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سندھ میں واقع ایک غیرفعال سکول کو فعال کرکے اسے ڈاکٹر رتھ فاؤ سکول کا نام دے دیا ہے اور اس کی مکمل ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ اس کی مرمت کا کام کیا۔ ٹیچر بھرتی کیے۔ جہاں اب 50 کے آس پاس بچے زیر تعلیم ہیں۔ یہ دوست مل کر 100 لائبریری بنانے جا رہے ہیں ڈاکٹر ادیب رضوی لائبریری اس کی پہلی کڑی ہے۔ بچوں کو اسکالرشپ فراہم کرنے کے لیے جتن کر رہے ہیں۔

اب یقیناً آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا ہوگا کہ اتنے بڑے مقصد کے لیے ایک بڑے سرمائے کی ضرورت ہے اتنا بڑا سرمایہ ان کے پاس آتا کہاں سے ہے۔ تو اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ سب سے بڑا سرمایہ تو ان کا جذبہ ہے جسے دیکھ کر آدمی فخر ہی کر کر سکتا ہے۔ پیسے کے لیے 200 کے آس پاس دوست ہیں جو ماہانہ چندہ اکٹھی کر رہے ہیں آڈٹ کا باقاعدہ نظام موجود ہے ہر شخص انفرادی طور پر اپنے ضمیر کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔ ان کے رولز انتہائی سخت ہیں۔

کوئی دوست ایسا کام نہیں کرے گا جو تحریک کے لیے نقصاندہ ثابت ہو۔ اور کسی بھی قومی یا بین الاقومی این جی او یا ڈونر ایجنسی سے پیسے نہیں لینے ہیں۔ ایک ایک روپے کا حساب رکھتے ہیں۔ مقصد کے لیے جمع ہونے والی رقم کا ایک فیصد بھی آپریشنل اخراجات کے لیے نہیں لگانا ہے جو پیسے اسکالرشپ یا لائبریریز کی مد میں آ رہی ہے وہ مکمل طور پر اسی پر لگانا ہے۔ اس تحریک کو انہوں نے ”کوائن دا ایجوکیشن مومنٹ“ کا نام دے دیا ہے۔

ڈاکٹر ادیب رضوی صاحب قطعاً راضی نہیں ہوتے۔ لیکن جس جذبے کے ساتھ یہ نوجوان کام کر رہے ہیں اور ان ایریاز میں کام کر رہے ہیں جہاں ریاستی مشینری خواب غفلت کا شکار ہے ان کا جذبہ تھا جس نے نہ صرف ڈاکٹر صاحب کو لائبریری کو اپنا نام دینے کے لیے راضی کیا بلکہ انہیں طویل سفر طے کرکے لاڑکانہ آنے پر مجبور کیا۔ دل کو دل تک راہ ہے ڈاکٹر صاحب آئے اور چاہنے والوں کو اپنا خوبصورت سا پیغام دے دیا۔ چاہنے والوں میں ایک راقم بھی وہاں موجود تھا۔ دور بیٹھ کر دل ہی دل میں سوچتا رہا کہ انسان کا انسان سے تعلق کتنا عظیم رشتہ ہے جو بسا اوقات جھمیلوں میں کھو جاتا ہے پھر ایسے مقام پر پہنچ کر دوبارہ اسی کو پالیتا ہے۔ یہی رشتہ نہ جانے کتنوں کو کہاں کہاں سے اٹھا کر گاؤں عیسیٰ ہلیو لاڑکانہ میں مجتمع کرنے پر مجبور کر گیا۔

مذکورہ لائبریری کو جدتوں سے آراستہ کیا جا چکا ہے اس میں کتابیں ہیں کمپیوٹر ہے بچوں کا پورشن بھی ہے۔ اور اسے سولر سسٹم سے آراستہ کیا گیا ہے یہ لائبریری پرائمری سکول کے احاطے کے اندر قائم کیا گیا ہے لائبریری کی نگہداشت کے لیے تین ملازم بھی رکھے گئے ہیں جن کی تنخواہیں اور لائبریری کی مینٹیننس تحریک کے ساتھی ہی کرتے ہیں۔ 100 لائبریریوں کا مشن اور اسکالرشپ کی فراہمی ایک عظیم مقصد ہے اس عظیم کے لیے یہ قافلہ دن بدن بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اس قافلے میں ایک عظیم آدمی ڈاکٹر ادیب کا اضافہ بھی ہو چکا ہے۔ تو کیوں نہ ایسی تحریکوں کا آغاز ہم گاؤں گاؤں میں نہ کریں۔ سب بچوں کو اپنا بچہ سمجھ کر انہیں تعلیم دینا شروع کریں۔ سب کی بھلا سب کی خیر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments