بھارت، سکون صرف قبر میں ہے


ابوزید عبد الرحمن بن محمد بن محمد بن خلدون کے نام سے کون واقف نہیں۔ دنیا انہیں ابن خلدون کے نام سے جانتی ہے۔ ابن خلدون نہ صرف عالم اسلام کی نابغہ روزگار شخصیت ہیں بلکہ مغربی دنیا بھی انہیں مؤرخ، فلسفی اور سیاستدان ماننے کے ساتھ جدید عمرانیات اورعلم تاریخ کا بانی بھی تصور کرتی ہے۔ اپنی ہمہ جہت پرسنالٹی کی وجہ سے وہ تیونس کے سلطان ابوعنان کا وزیربھی مقرر ہوئے لیکن علم اور وزارت کا شاید اس وقت بھی میل جول نہیں تھا لہذا وہ درباری سازشوں سے تنگ آکر حاکم غرناطہ کے پاس چلے گئے۔

وہاں کی سر زمین بھی راس نہ آئی تو مصر آگئے اور جامعہ الازہر میں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس کی ذمہ داریاں بھی نبھانے لگے جن کا اختتام ان کی موت پر ہوا۔ یعنی انہوں نے بھی اس وقت تک آرام نہ پایا جب تک پاکستانی دانشوروں کے اس فارمولے پر عمل نہ کر لیا ”مولوی کا سیاست سے کیا کام؟ “۔ لیکن ایک لحاظ سے یہ بہتر ہی ہوا تھا ورنہ اگر وہ بھی سیاست کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتے توایک تو دنیا ان معلومات سے محروم ہوتی جو ان کی مایہ ناز کتب کی بدولت آج بہم میسر ہیں اوردوسرا اس وقت معاشرے میں جتنا بھی زوال، بگاڑ اور فساد وقوع پذیر ہوا تھا اس کی ذمہ داری بھی یہ کہہ کر ان پر ڈال دی جاتی کہ ”اس کا اصل ذمہ دار مولوی ابن خلدون ہے“ کیونکہ آج کی طرح لنڈے کے دانشورں کی اس وقت بھی کمی نہ تھی۔

آج بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والا ظلم و ستم دیکھا تو مجھے ابن خلدون کی ایک بات یاد آگئی۔ وہ لکھتا ہے کہ انسان جس جانور کا گوشت کھاتا ہے اس کی خصوصیات اس میں پیدا ہو جاتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قدیم معاشروں میں بھی اس بات کا اہتمام کیا جاتا تھا کہ بچوں کو بھینس کے دودھ کی بجائے گائے اور بکری کا دودھ پلایا جائے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ بھینس ایک سست جانور ہے اور اگر بچے نے اس کا دودھ پیا تو یہی خصوصیات اس میں بھی پیدا ہو جائیں گی۔

دیہاتوں میں توآج بھی اس کا التزام کیا جاتا ہے۔ فلسطین، کشمیر، یمن، شام، لیبیا، عراق، برما اور بھارت میں مسلمانوں پرہونے والے ظلم و ستم پر مسلم دنیا کی بے حسی دیکھ کر میں تو ابن خلدون کی اس بات سے متفق ہوں اور اس بے حسی کی تمام تر ذمہ داری برائلر مرغی پر ڈالتا ہوں جس کا گوشت کھا کھا کر ہم میں بھی بے حسی اور خود غرضی پیدا ہو چکی ہے۔

برائلر کی مثال میں نے اس لیے دی کیونکہ سب سے زیادہ خود غرضی اور بے حسی انہی میں پائی جاتی ہے۔ آپ ایک کوے کو مار گرائیں تو کچھ ہی دیربہت سے کوے جمع ہو جائیں گے جن کے احتجاج سے پورا علاقہ گونج اٹھے گا۔ آپ کسی دن چیونٹیوں کے بل پر پاؤں دھر کر تو دیکھیں آپ کو ملی حمیت کا اندازہ ہو جائے گا۔ چڑیوں اور کتوں سمیت اپنی برادری کا یہ احساس ہرمخلوق میں پایا جاتا ہے لیکن برائلر مرغیاں احساس کی اس عظیم دولت سے محروم ہیں۔

میں جب بھی چکن لینے بازار گیا میں نے ان کی اعلیٰ درجے کی بے حسی اور خود غرضی کا مشاہدہ کیا۔ پنجرے میں بہت سی مرغیاں تھیں۔ میں نے کہا : مجھے دو کلو گوشت چاہیے۔ مالک نے مرغیوں کا جائزہ لیا اور پھر اس کی نگاہیں ایک موٹی تازی مرغی پرجم گئیں۔ اس نے پنجرے کا دروازہ کھولا، دانہ چگتی مرغیاں ایک لمحے کے لیے ٹھٹک کر ایک ذرا سائیڈ پر ہوئیں، مالک نے مطلوبہ مرغی پکڑی اور اس کے گلے پر چھری پھیر دی۔ ذبح شدہ مرغی پھڑاپھڑا رہی تھی اور اس کاخون اردگرد کو رنگین کیے جا رہا تھا لیکن پنجرے والی مرغیاں اطمینان سے پھر دانہ دنکا چگنے میں مصروف اس بات پر خوش تھیں کہ ہماری جان تو بچ گئی۔ان کی برادری کا ایک فرد جان ہار گیا تھا لیکن کسی کے حلق سے صدائے احتجاج بلند نہ ہوئی۔

اس قدر بے حسی اور خود غرضی یا تو ان برائلر مرغیوں میں پائی جاتی ہے یا پھر مسلم حکمرانوں میں۔ شکاری نے فلسطین کا شکار کیا، ہم ایک لمحے کے لیے ٹھٹکے اور پھر یہ سوچ اپنے کاموں میں جت گئے کہ چلو ہم تومحفوظ ہیں۔ اس کے بعدافغانستان کی باری آئی اورپھر بات عراق سے ہوتی ہوئی لیبیا، شام اوریمن تک آپہنچی۔ پھر اس سلسلے کوبرما، کشمیر اور اب انڈیا میں داخلی سطح پر آزمایا جارہا ہے۔

شکاری مسلمانوں کو ایک ملت سمجھ رہا ہے اور مسلمان خود کو انڈین، پاکستانی، ایرانی اور ترکی مسلمانوں میں تقسیم کیے بیٹھے ہیں۔ ہم پنجرے کی مرغی بنے بیٹھے ہیں، جب بھی شکاری کا ہاتھ پنجرے کی طرف بڑھتا ہے ہم ایک طرف ہو جاتے ہیں، وہ ہمارے کسی ایک فرد کا شکار کرتا ہے اور ہم بدستور خوشی کے اس حصار میں قید رہتے ہیں کہ چلو ہم تو محفوظ ہیں لیکن ان مرغیوں کی طرح کیا ہم بھی اس بات سے بے خبر ہیں کہ کچھ ہی دیر میں ہماری بھی لائن کٹنے والی ہے؟

مجھے ڈر ہے کہ کہیں مجھے زمینی حقائق سے بے خبر قرار دے کر احمق، متشدد اور غدار قرارنہ دیا جائے لہذا میں پاکستان کے خان اعظم، عرب کے بادشاہوں اور او آئی سی کی مقدس کرسی صدارت پر براجمان عظیم ہستیوں کی بجائے اس بے حسی اور خود غرضی کی تمام تر ذمہ داری برائلر مرغیوں پر ڈالتا ہوں۔ نہ ہم ان کا گوشت کھاتے اور نہ ہی ہم میں یہ خود غرضی اور بے حسی پیدا ہوتی۔ انڈیا میں مسلمانوں پر ننگا کر کے سڑکوں پر گھسیٹا جارہا ہے، اگر کوئی جان بچانے کے لیے کہتا ہے کہ میں ہندو ہوں تو اس سے کہا جاتا ہے کہ شلوار اتار کر سند فراہم کرو، لوگوں کو مار مار کر ادھ موا کر کے انہیں کہا جاتا ہے کہ بندے ماترم گاؤ، بیچ چوراہے کے عورتوں کی عزتیں نیلام کی جا رہی ہیں، زندہ انسانوں کے اعضا کاٹے جا رہے ہیں اورہم خاموش ہیں۔ ترکی کے علاوہ کس نے صدائے احتجاج بلند کی ہے؟ اخبارات کا جائزہ لیاآج تو ملک کے تمام نامور کالم نگاروں کو نوازی اور عمرانی دھڑے بندیوں کا شکار پایا۔

کشمیر، فلسطین اورانڈیا کی چیختی ہوئی مسلمان بہنو! چیخنا بند کرو، اپنے شور سے ہمارا سکون حرام نہ کرو، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ محمد بن قاسم مر چکا، سلطان صلاح الدین ایوبی کب کا گزر چکا، او آئی سی  کے اور بھی بہت سے کام ہیں، اقوام متحدہ تو ابھی تک آسٹریلیا میں جلنے والے جانوروں کے غم میں نڈھال ہے اور ”انسانی حقوق“ کے ٹھیکیداروں کے پاس اتنا وقت کہاں کہ ”مسلمانی حقوق“ کی طرف توجہ کریں۔ شورمچاتی میری بہنو! برائلر مرغیوں پر لعن طعن کرویا پھرخاموش رہو، تم مسلمان ہو، تمہیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ دنیا مسلمان کے لیے قید خانہ ہے، شور کرنے کی بجائے قید خانے سے رہائی کی خوشی مناؤ اور یہ بات یاد رکھو کہ سکون صرف قبر میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments