عورت کو اپنے حقوق کے لیے مارچ کرنے کی ضرورت کیوں؟


اب جبکہ مارچ کا مہینہ قریب ہے۔ تو ملک میں ایک طوفان مچا نظر آ رہا ہے۔ یوں تو مارچ کا مہینہ ہمیشہ سے ہی اپنی باری پہ آ کے چلا جاتا تھا۔ مگر گزشتہ دو سال سے مارچ کی آٹھ تاریخ ملک میں ایک دم سے افراتفری مچا دیتی ہے۔ ویسے تو آٹھ کے ہندسے میں ایسا کچھ نہیں۔ مگر مارچ کی آٹھ تاریخ ہمارے پدرسری سماج کے تن بدن میں آگ بھر دیتی ہے۔ آگ بھی ایسی کہ جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے۔ وجہ صاف ہے۔ عورتوں کے عالمی دن پہ ہمارے ملک کی چند عورتوں نے معاشرے کے وہ گھناونے و سیاہ چہرے لا کے سامنے رکھ دیے جنہوں  نے پدرسری معاشرے کے مرد تو مرد اسی سوچ کی حامل خواتین کو بھی بوکھلا دیا۔ جبھی تو وہ بھی برقعوں میں اپنی ہی صنف کی عورتوں کو کتیا کہنے گھر سے نکل آئیں۔ مزے کی بات یہ کہ یہ لکھ کے دکھانے کے لیے انہیں بھی سڑک پہ ہی نکلنا پڑا۔ حد ہے اور بے حد ہے۔

بوکھلانے کو تو یہ بھی کافی ہے کہ عورت گھر سے باہر سڑک پہ یہ کہنے کو کھڑی ہو جائے۔ کہ میں عورت ہوں مجھے انسان تسلیم کیا جائے۔ مردوں سے زیادہ نہیں مگر کم سے کم مردوں کے برابر حقوق تو دیے جائیں۔ سوچا جائے تو اس میں کیا برائی ہے کہ اگر مرد اپنا کھانا خود گرم کر لے۔ ہو سکتا ہے جس خاتون نے بینر پہ یہ مطالبہ لکھا ہو۔ وہ بھی نوکری پیشہ ہو۔ وہ بھی کام سے آ کے تھک جاتی ہو۔ ساری ذمہ داریاں پوری کرنے کے بعد اگر وہ شوہر سے یہ خواہش یا مطالبہ کر بھی لے تو کیا برا ہے۔ جہاں مرد کے مالی حالات خراب ہوں تو عورت کو کہا جاتا ہے کہ میاں بیوی گاڑی کے دو پہئیے ہیں۔ مل جل کے گھر چلائیں۔ تو بھئی جب کمائی کرنے پہ عورت مرد کی تخصیص نہیں کرتے۔ تو کھانا گرم کرنے پہ ایسی کیا آفت آ جاتی ہے۔

لڑکیوں کو کہا جاتا ہے ایسے مت بیٹھو۔ ایسے مت سوو۔ سینے کو ڈھک کے رہو۔ ٹانگیں پھیلا کے مت بیٹھو۔ سوال یہ ہے کہ آپ بیٹے کی تربیت کیوں نہیں ایسی کرتے کہ لڑکی کو کسی مرد سے کوئی خوف محسوس ہی نہ ہو۔ ہماری مائیں جو کہ خود بھی عورتیں ہیں۔ بیٹی اور بیٹے کی تربیت میں واضع فرق رکھتی ہیں۔ وہ بیٹے کو تو مرد بنانے پہ زور دیتی ہیں۔ مگر بیٹی کو کمزور بنا دیتی ہیں۔ بیٹے کو تو یہ سکھاتی ہیں کہ مضبوط بنو۔ روو نہیں۔ لیکن کبھی یہ نہیں سکھاتیں کہ بہن پہ ہاتھ مت اٹھاؤ۔ بہن کو مت رلاؤ۔ اس کا خیال رکھو۔ عزت کرو۔

اس کے بجائے بیٹے کو ہمیشہ عزت کا رکھوالا بنا کے پیش کر دیا جاتا ہے۔ پھر وہی عزت کا رکھوالا پورن دیکھنے کے بعد گلی محلے میں دوسروں کی بہنوں کی عزت سے کھیلتا ہے۔ مگر اس کی بہن کسی کو پسند کر لے تو فورا غیرت کے نام پہ اسے مار ڈالتا ہے۔ غیرت کی بھی خوب کہی۔ غیرت جو صرف اور صرف لڑکی کے اپنی پسند سے شادی کرنے پہ جاگتی ہے۔ اور جو لڑکی کی دو ٹانگوں کے بیچ کی جگہ کی حفاظت پہ مامور کرتی ہے۔ جس طرح فلموں میں ناگ، ناگ منی کی حفاظت کرتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ہمارے مرد اپنی بہن بیٹی بیوی اور ماں کی شلوار کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہ جیسے چاہیں اتاریں ہاں مگر عورت اپنی مرضی سے نہ اتارے۔

اس میں کیا غلط ہے کہ اگر لڑکی یہ کہے کہ مجھے ریپ مت کرو۔ مجھے میرے کپڑوں سے مت جانچو۔ اگر میں نے جینز پہنی ہے تو تم اپنے جسم میں پیدا ہونے والی تھرتھلی کو کنٹرول کرو۔ کیونکہ تمہاری ہوس تو عورت کے جسم کی عمر کو درخو اعتناء ہی نہیں سمجھتی۔ تین ماہ سے لے کر ساٹھ سال تک کی عورت ریپ ہو جاتی ہے۔ حتی کہ مردہ عورت بھی۔ تو وہ بے چاریاں کیا کہیں کہ آو اپنی مرضی سے ہمارے جسم نوچو۔ نہیں وہ یہ نہیں کہیں گی۔ وہ کیوں کہیں کہ جب جسم ان کا ہے تو اس پہ کس کو دسترس دینی ہے یہ خالصتا ان کی اپنی مرضی ہے۔ وہ نہ چاہیں تو نہ سہی۔ زبردستی کاہے کی صاحب۔

ہمارا مطالبہ تو بہت سادہ ہے۔ ہمیں مردوں کی برابری کرنے کا کوئی شوق نہیں۔ کہ مرد ہی ہے جو عورت کے انکار کو انا کا مسئلہ بنا کے کبھی اسے اٹھا کے ریپ کر دیتا ہے۔ کبھی چاقووں سے وار کرتا ہے۔ اور کبھی تیزاب سے چہرہ ہی جھلسا دیتا ہے۔

عورت ایسا نہیں کرتی۔ تو پھر کس بات پہ مرد کی برابری کرنے کا حق مانگے۔ بیٹا پیدا نہ ہونے پہ بیوی کی زندگی حرام کرنے والے مرد کی برابری کیوں کی جائے۔ گول روٹی نہ پکا کے دینے پہ باپ بیٹی کو مار ڈالے۔ ایسے مرد کی برابری پہ ویسے ہی تف ہے۔ بچے بچیوں کا ریپ کرتے مرد کی برابری کی خواہش کسے ہو گی۔ کیا کبھی یہ سنا کہ کسی چھوٹے بچے بچی کا عورت نے ریپ کر کے مار ڈالا۔ نہیں ایسا مرد کرتے ہیں عورتیں نہیں۔

عورتوں سے بھی لڑکے ہراس ہوتے ہوں گے۔مگر ان کی تعداد کتنی ہے۔ عورتیں کبھی سڑکوں پہ مردوں کو دیکھ کے اپنی جانگھیں کجھانا شروع نہیں کرتیں۔ مرد کا پیچھا نہیں کرتیں۔ کسی کی زندگی حرام نہیں کرتیں۔ بس کی سیٹوں سے مردوں کو انگلیاں نہیں چبھوتیں۔ مرد کو رات کو اکیلا جاتے ہوئے کبھی اس کو ساتھ چلنے کی آفر نہیں کرتیں۔ اور کیا کیا لکھوں کہ لکھتے لکھتے صفحے بھر جائیں گے۔ مگر مرد کے کارنامے ختم نہیں ہوں گے۔ اچھے مرد بھی ہیں اس معاشرے میں۔ لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک جتنی ہے۔

تو پھر ہم کیوں ناں اپنے دکھڑے سڑکوں پہ آ کے روئیں۔ آپ ہمارے دکھڑے سن سمجھ کے ان کو حل کر دیں۔ ہم سڑکوں پہ نکل کے رونا نہیں روئیں گے۔ ہمیں مردوں کی برابری نہیں چاہیے۔ آپ بس ہمیں انسان تسلیم کر لیں۔ بہ حیثیت انسان ہمیں ہمارے حقوق دے دیں۔ وہ حقوق جو آپ نے ہم سے چھینے ہیں۔ اور یہ پدرسری سماج کھڑا کیا ہے۔ ہم بس جینا چاہتے ہیں۔ خدارا ہمیں جینے دیں۔ یقین کریں اگر آپ صرف ہمیں جینے ہی دیں تو آپ کو آٹھ مارچ پہ واویلے نہیں کرنے پڑیں گے۔ عورت مارچ بین کروانے کورٹ نہیں بھاگنا پڑے گا۔ دھمکیاں نہیں لگانی پڑیں گی۔ قبر سے پہلے والا سکون مل جائے گا۔ بس عورت کو انسان تسلیم کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments