بھکاری: انتون چیخوف کی ایک کہانی


مجھے اپنی یاد داشت پر زور دینے کی بالکل ضرورت نہیں۔ برسات کی وہ دوپہر مجھے ابھی تک ایسے یاد ہے جیسے کل کا واقعہ ہو۔ میں آٹھ سال کا تھا اور اپنے باپ کی انگلی تھامے ماسکو کی ایک مصروف سڑک پر کھڑا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا جیسے کوئی انجانی سی بیماری آہستہ آہستہ میرے جسم میں سرایت کر رہی ہے۔ حالانکہ درد بالکل نہیں ہو رہا تھا مگر میری ٹانگوں میں جان نہیں تھی۔ گھٹنے جیسے ربڑ کے بن گئے تھے۔ میرا گلا بالکل خشک تھا۔ سر ایک طرف کو ڈھلک گیا تھا۔ لگتا تھا کہ ابھی بے ہوش ہو کر گر جاؤں گا۔ خدا جانے یہ کیسی بیماری تھی۔ اگر مجھے اس وقت ہسپتال لے جاتے تو شاید میرے بستر پر لگے چارٹ پر لکھا ہوتا کہ یہ بچہ ایسی بیماری میں مبتلا ہے جس کا ابھی تک نام نہیں رکھا گیا۔

میں نے اپنے باپ سے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا لیکن الفاظ نے ساتھ نہ دیا۔ میرے باپ نے ایک پھٹا ہوا لمبا کوٹ پہنا ہوا تھا۔ پاؤں کی انگلیاں بغیر موزوں کے دونوں جوتوں سے جھانک رہی تھیں۔ مجھے اپنے باپ سے بے انتہا پیار تھا۔ اسے میری وجہ سے قصبہ چھوڑ کر نوکری کی تلاش میں ماسکو آئے ہوئے پانچ مہینے گزر چکے تھے۔ اس نے ہر قسم کی نوکری کی کوشش کی۔ حتی کہ مزدوری تک ڈھونڈی، لیکن نہ ملی۔ اب فاقوں کی نوبت آ گئی تھی۔

ہمیں دو دن سے روٹی کا ایک ٹکڑا تک نصیب نہیں ہوا تھا۔ شاید میری بیماری کا نام بھوک تھا۔ آج مجبور ہو کر میرے خود دار باپ نے شکست قبول کر لی تھی۔ بھیک مانگ کر پیٹ کی آگ بجھانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

فٹ پاتھ کے سامنے والی بلڈنگ پر ایک نیلے رنگ کا بورڈ لگا ہوا تھا جس پر بڑے بڑے لفظوں میں ریسٹورانٹ لکھا ہوا تھا۔ روشن کھڑکیوں سے اندر بیٹھے ہوئے لوگ پلیٹوں میں رکھے کھانوں کو چھریوں کانٹوں سے کھاتے نظر آ رہے تھے۔

بیچ والی کھڑکی سے ایک سفید رنگ کا چوکرر بورڈ لگا ہو ا دکھائی دے رہا تھا۔ اس پر کچھ لکھا ہوا تھا مگر صاف نظر نہیں آ رہا تھا۔ آدھے گھنٹے تک میری نظریں اسی بورڈ پر جمی رہیں۔

بھوک اور نقاہت نے میری نگاہ، میرے دماغ اور میری ہر حس پر غلبہ پا لیا تھا۔ ریسٹورانٹ سے آتی ہوئی کھانوں کی خوشبوؤں نے میرے دماغ کو جیسے اس بورڈ پر مرتکز کر دیا تھا۔ آخر کار میں ا س پر لکھے ہوئے لفظ کو پڑھنے میں کامیاب ہو گیا۔

وہ لفظ تھا سیپ۔ لیکن یہ سیپ کس بلا کا نام ہے مجھے بالکل اندازہ نہ تھا۔ حالانکہ اب میں آٹھ سال اور تین مہینے کا ہو گیا تھا۔ اور تھوڑا تھوڑا لکھنا پڑھنا بھی سیکھ گیا تھا، لیکن یہ لفظ میں نے پہلی مرتبہ لکھا دیکھا تھا۔ یہ ریسٹورانٹ کا نام تو نہیں ہو سکتا۔ اگر ہوتا تو بورڈ باہر لگا ہوتا، اندر نہیں۔

پاپا، سیپ کا مطلب کیا ہے؟ میں نے کمزور سی آواز میں پوچھا۔ میری آواز اس تک نہیں پہنچی۔ وہ بہت غور سے آنے جانے والے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ یہ اس کے بھیک مانگنے کے نئے پیشے کا پہلا دن تھا۔ اس کی نظریں ہر گزرنے والے کا تعاقب کرتیں، وہ ہر ایک سے کچھ کہنے کی کوشش کرتا، مگر عین وقت پر اس کی ہمت جواب دے جاتی۔ لفظ بھاری پتھروں کی طرح اس کے ہونٹوں پر بیٹھے ہی رہ جاتے اور وہ کچھ کہہ نہ پاتا۔ ایک راہ گزر کی طرف تو اس نے قدم بھی بڑھایا اور ہلکے سے اس کے کوٹ کی آستین کو چھوا۔ لیکن جیسے ہی وہ راہ گزر اس کی طرف مڑا، میرے باپ پر جیسے لرزہ سا طاری ہو گیا۔

معاف کیجئے گا بھائی صاحب۔ اس نے سر جھکا کر کہا اور شرمندہ ہو کر میری طرف دیکھا۔

پاپا، سیپ کس کو کہتے ہیں؟ میں نے پھر پوچھا۔

یہ ایک سمندری جانور ہے۔ اس نے اکتائے ہوئے انداز میں جواب دیا۔

مچھلی؟ میں نے اصرار کیا

نہیں

کیکڑا؟

نہیں

میرے فاقہ زدہ ذہن میں ایک تصویر بن رہی تھی۔ میں دیکھا کہ ریسٹورانٹ کے باورچی خانے میں مچھلی اور کیکڑے کے درمیان کی اس مخلوق کا گرما گرم سوپ بن رہا ہے۔ باورچی اس میں سدا بہار پودوں کی پتیاں، میٹھی مرچیں، یخنی، اور بھنے گوشت کے ٹکڑے ڈال رہا ہے۔ اس بھوک بھڑکانے والی خوشبو اور دائقے کے تصور اتنا شدید تھا کہ میرا منہ خود بخود ایسے چلنا شروع ہو گیا جیسے واقعی میں بوٹیاں چبا رہا ہوں۔ میں اس ذائقے سا اس قدر لطف اندوز ہو رہا تھا کہ مجھ احساس ہوا کہ میں خوشی سے بے ہوش ہو جاؤں گا۔ میں نے باپ کا ہاتھ سہارے کے لئے مضبوطی سے تھاما۔ اس کا کوٹ گیلا تھا اور میرے باپ پر کپکپی طاری تھی۔ لیکن وہ میرا سوال نہیں بھولا تھا۔

”سیپ کچھوے کی طرح سخت چھلکے کے خول میں رہتا ہے، لیکن اس کے ایک کی بجائے دو خول ہوتے ہیں۔ ایک اوپر، ایک نیچے۔ اس کو امیرلوگ کچا کھاتے ہیں“۔

چھی چھی۔ میں نے کراہت سے کہا۔

اب مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ سیپ کی شکل مینڈک سے ملتی جلتی ہو گی۔ بڑی بڑی چمکدار آنکھیں، لمبے تیز پنجے، منہ سے باہر نکلے نوکیلے دانت۔ میرے تصور میں باورچی اس کو پکڑ کر پلیٹوں میں ڈال رہے تھے اور ڈائننگ روم میں گاہکوں کو پیش کررہے تھے۔ ریسٹورانٹ کے گاہک چھریوں کانٹوں کے بغیر سالم ان کو منہ میں ڈال رہے تھے۔ یہ کریہہ مینڈک ان کے ہونٹوں کو کاٹ رہے تھے لیکن گاہک ان کو چبائے جا رہے تھے۔

میں نے برا سا منہ بنایا۔ لیکن یہ کیا؟ میرے دا نت کیوں ہل رہے تھے؟ جیسے خیال میں نہیں بلکہ سچ مچ میں ایک کے بعد دوسرے بد صورت سیپ کو کھا رہا ہوں۔ اب ہوس نے مجھ پر غلبہ پا لیا تھا۔ میں جوں جوں کھاتا گیا میری بھوک اور بڑھتی گئی۔ مجھے معلوم تھا کہ میری بیماری کا علاج صرف کھانے سے ہی ہو گا۔ اگر میری بھوک نہ مٹی تو میں مر جاؤں گا۔ میں اتنا کھانا چاہتا تھا کہ میری بھوک ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے۔

”سیپ، سیپ، اور سیپیاں لاؤ۔ میں اور سیپیاں کھاؤں گا“ میں دونوں ہاتھ بڑھا کر چیخ رہا تھا۔

”خدا کے واسطے میری مدد کریں۔ میرا بچہ دو دن سے بھوکا ہے۔ اس کا دماغ چل گیا ہے۔ میں اسے بھوک سے مرتے نہیں دیکھ سکتا۔ “ میرا باپ آنے جانے والوں سے کہنے کی کوشش کر رہا تھا۔

”سیپ، سیپ، اور سیپیاں لاؤ۔ میں اور سیپیاں کھاؤں گا“ میری آوز اور بھی بلند ہو گئی تھی۔

”ہیں، یہ کیا؟ ک اس کا کیا مطلب؟ یہ چھوٹا سا بچہ سیپیاں کھائے گا؟ “ کچھ لوگ سوال کر رہے تھے۔

ارد گرد کھڑے لوگوں کے قہقہوں کی آوازیں مجھے جیسے بہت دور سے آتی سنائی دے رہی تھیں۔

”ارے بیٹا کیا تم واقعی سیپیاں کھا لیتے ہو؟ کتنی عجیب بات ہے؟ تم کو معلوم ہے سیپ کیسے کھاتے ہیں؟ “

ایک موٹا سا آدمی جو خاصہ امیر لگ رہا تھا اور فر کا کوٹ اور ٹوپی پہنے ہوئے تھا مجھ سے مخاطب تھا۔

اس بات کو کتنا لمبا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ اس آدمی نے مضبوطی سے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے روشنیوں سے چمکتے ہوئے ریسٹورانٹ کے اندر لے گیا۔ مجھے کرسی پر بٹھایا اور بیرے کو سیپ کی پلیٹ لانے کے لئے کہا۔ میری میز کے گرد تماشائیوں کا ایک ہجوم جمع ہو گیا تھا۔ لوگ مجھے ایسے تجسس سے دیکھ رہے تھے جیسے مجھے کسی عجائب گھر، بلکہ کسی چڑیا گھر سے پکڑ کر لائے ہوں۔ میرے سامنے جو رکھا گیا میں نے کھانا شروع کر دیا۔ کوئی سیلی سی، تیز نمک والی چیز۔ جس کو میں نے منہ میں رکھا تو پتھر کی طرح سخت لگی لیکن میں اسے بھی چبا گیا۔ یوں لگا جیسے شیشے کی کرچیاں چبا رہا ہوں۔ میں آنکھیں بند کر کے کھا رہا تھا۔ مجھے ڈر تھا اگر میں نے آنکھیں کھولیں تو مجھے نوکیلے دانتوں اور تیز پنجوں والے مینڈک نظر آئیں گے۔

قہقہوں اور ٹھٹھوں کی آوازیں بڑھتی جا رہی تھیں۔

”ارے یہ تو چھلکے سمیت کھا گیا۔ “

قہقہے اور بلند ہو گئے تھے۔ لیکن مجے پرواہ نہیں تھی۔ میں ایک کے بعد دوسری پلیٹ صاف کر رہا تھا۔ بھوک کو ہمیشہ کے لئے ختم کر نے کی کوشش کررہا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ میں بستر میں لیٹا تھا۔ پیاس سے میرے گلے میں کانٹے پڑے ہوئے تھے۔ لگ رہا تھا جیسے پیٹ میں آگ لگی ہو۔ منہ کا ذائقہ زہر کی طرح کڑوا تھا۔ میں سونے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ کمرے میں باپ تیز تیز ادھر سے ادھر چلتے ہوئے بڑبڑا رہا تھا۔

”یہ مجھے کیا ہو گیا ہے؟ مجھے اتنی سردی کیوں لگ رہی ہے۔ یقینا جاڑا لگ گیا ہے۔ میرا سر اتنا بھاری کیوں ہے؟ جیسے کسی نے من بھر اینٹیں اوپر رکھ دی ہیں۔ نہیں، وجہ کچھ اور ہے۔ میں نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا۔ میں بھی کتنا پاگل ہوں۔ میں نے ا س امیر آدمی کو سیپ کی پلیٹوں کے دس روبل دیتے دیکھا۔ میں اس کے پاس کیوں نہیں گیا؟ میں نے اس سے کھانے کے لئے پیسے کیوں نہیں مانگ لئے؟ میں اس سے بھیک نہیں تو ادھار ہی مانگ لیتا۔ وہ یقینا میر ی مدد کرتا۔ میں نے اس سے کیوں سوال نہیں کیا۔ میں کتنا پاگل ہوں۔ پاگل ہی نہیں بزدل بھی ہوں“

میں ساری رات جاگتا رہا، صبح ہونے کو آئی تو میری آنکھ لگی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک مینڈک پتھر کی کشتی میں بیٹھا موٹی موٹی آنکھوں سے مجھے گھور رہا ہے۔ دو پہر کو پیاس کی شدت سے میری آنکھ کھلی۔ میں نے دیکھا میرا باپ ابھی بھی اسی طرح بڑبڑاتا ہو ا کمرے کے چکر پر چکر لگا رہا تھا۔ اور آسمان کی طرف اشارے کرتے ہوئے جیسے خدا سے باتیں کر رہا تھا۔ ”تو تو سب کچھ جانتا ہے۔ میں بھی کتنا پاگل ہوں۔ میں نے بھیک کیوں نہ مانگ لی۔ وہ امیر لوگ میری مدد ضرور کرتے۔ میں نے اتنی ہمت کیوں نہ دکھائی؟ شاید میں بھی اپنی بھوک مٹا سکتا۔ میں پاگل ہی نہیں بزدل بھی ہوں۔ تو تو جانتا ہے نا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments