رنگ بدلتے گلاب


دونوں میں بے انتہا محبت تھی ان دونوں کے جسم تو الگ الگ تھے لیکن روح ایک ہی تھی۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر جیتے تھے۔ لڑتے ’جھگڑتے تھے لیکن ایک دوسرے کے بنا رہ نہ پاتے تھے۔

حرا کو گلاب کے پھول بہت پسند تھے۔ وہ بڑے مان سے کہتی عمیر لال گلاب کے پھولوں کا گجرا لانا نہ بھولنا۔ اس کی خواہش ہو اور عمیر پوری نہ کرے یہ تو ہو نہیں سکتا تھا۔ پھر وہ گجرا ہاتھوں میں لے کر بچوں کی طرح خوش ہوتی کبھی بالوں کے جوڑا میں سجاتی ’کبھی اپنی نازک کلائیوں میں سجاتی۔ خوشی سے اڑتی پھرتی اور پھر آ کر پاس بیٹھ جاتی اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھتی عمیر بتاؤ تو میں کیسی لگ رہی ہوں۔ وہ بھی پیار میں نہال جواب دیتا بالکل گلاب کے پھول کی طرح۔

ایک دن وہ بہت اداس تھی نہ جانے اس کے دل پر کیسا بوجھ تھا دھیرے سے اس کا ہاتھ پکڑ کر ڈبڈبائی آنکھوں سے بولی۔ ۔ ۔ سنو عمیر میں مر جاؤں تو میری قبر پر گلاب کے پھول ڈالنے ضرور آنا۔ اس کی آواز جیسے بہت دور سے آ رہی تھی ’ہاتھ ٹھنڈے برف جیسے ہو رہے تھے۔ تم مجھ سے محبت کرتے ہو نا۔ ۔ ۔ تمھیں پتہ ہے نہ کہ مجھے گلاب بہت پسند ہیں جس دن تم نہ آئے‘ میں سمجھ جاؤں گی کہ تم مجھے بھول گئے ہو۔ اس لمحے اس کی آنکھوں نہ جانے ایسا کیا تھا کہ وہ ڈر گیا۔

ایک دم اس کے ہاتھ جھٹکے اور غصے سے کھڑا ہو گیا کانپتے ہاتھوں سے اس کا گلاب سا چہرہ جو زرد پڑ رہا تھا اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے ’لرزتے ہونٹوں سے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور بولا۔ ۔ ۔ پگلی ایسی باتیں نہ کیا کر‘ تمھارے بغیر یہ زندگی کسی عذاب سے کم نہ ہو گی۔ تم سے پہلے موت مجھے آجائے اور میری زندگی بھی تمھیں لگ جائے۔ اور اس کو سینے سے لگا لیا۔

یونہی دن رات گزرتے رہے لیکن ان کا پیار تھا کہ کم نہ ہوا۔ نہ جانے وہ کیسا دن تھا صبح سے ہی کافی بے چین تھی کئی دفعہ اس کا نمبر ملا چکی تھی لیکن اس کی کوئی خبر نہ تھی صبح سے شام ہو گئی آخر خبر آئی تو اس کی موت کی۔ اس پر سکتہ چھا گیا اپنی سماعت پر یقین نہیں آرہا تھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے وہ اس کو ایسے تنہا چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہے۔ اس نے تو کہا تھا کہ وہ زندگی بھر ساتھ نبھائے گا آخری سانس تک محبت کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

ہاں اپنی آخری سانس تک۔ ۔ ۔ اور وہ اپنا وعدہ نبھا گیا تھا۔ اپنی آخری سانس تک وہ اسی کا تھا۔ اس دن بھی وہ حرا ’اپنی محبت کے لیے گلاب کے خوبصورت گجرے لے کر آ رہا تھا جب موت کے فرشتے نے اس کا راستہ روک لیا۔ اس کا بولا ایک ایک لفظ سچ ثابت ہوا تھا۔

اس کا دماغ پھٹ رہا تھا اور ایک ہی بات گونج رہی تھی ”تم سے پہلے مجھے موت آ جائے ’میری زندگی بھی تمھیں لگ جائے۔ ۔ ۔

انھی گلاب کے پھولوں کو آج وہ اس کی قبر پر ڈال رہی تھی آنسوؤں کی نہ تھمنے والی لڑی اس کی قبر کی مٹی کو گیلا کر رہی تھی۔ اور وہ بولے جا رہی تھی عمیر ایسی زندگی کا کیا فائدہ جس میں تم نہ ہو۔ ایسی زندگی کا میں کیا کروں جس میں تمھارا ساتھ نہ ہو۔ نہ جانے زندگی کے کتنے دن ہیں لیکن ایک بات بہت اچھی طرح جانتی ہوں کہ تم بن یہ زندگی کسی عذاب سے کم نہ ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments