ٹرمپ دورہ بھارت کے خطے پر اثرات!


امریکی صدر ٹرمپ اپنا دورہ ٔبھارت مکمل کر کے وطن واپس چلے گئے ہیں، صدر ٹرمپ کا حالیہ دورہ بھارت کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل تھا، اس لیے پوری دنیا کی نظریں بالعموم اور پاکستان کی نظریں خاص طور پر مرکوز تھیں۔ یہ دورہ صدر ٹرمپ نے اپنے اقتدار کے آخری سال میں کیا، اس لیے اس سے نہ تو امریکا کو کوئی خاطر خواہ فائدہ ہوگا اور نہ ہی بھارت کو اس دورے سے کوئی بڑی امید رکھنی چاہیے، کیونکہ کسی بھی امریکی صدر کے لیے انتخابی سال کے دوران کسی ملک کو کوئی خاص فائدہ پہنچانا اتنا آسان نہیں ہوتا، جتنا کہ نریندر مودی سرکار سمجھ ر ہے ہیں۔

امریکی صدر کے حالیہ دورہ امریکا کے نتائج کے بارے میں فی الوقت حتمی طور پر تو کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، تاہم یہ دورہ ایسے موقع پر کیا گیا کہ جب امریکی صدر کو ایک بار پھر صدارتی انتخابات کے میدان میں اترنا ہے اور انہیں اس پل صراط کو عبور کرنے کے لیے تنکا تنکا جوڑنا ہوگا، کیونکہ امریکی ووٹرز تیسری دنیا کی نام نہاد جمہوریتوں کی طرح بلا سوچے سمجھے ووٹ دینے کی عادت نہیں، بلکہ ووٹ دیتے ہوئے کارکردگی اور ملکی مفاد کومقدم رکھتے ہیں، اس لیے صدر ٹر مپ جو اپنے گزشتہ دعوؤں اور انتخابی نعروں کو اپنے عرصہ اقتدار میں اس طرح عملی جامہ نہیں پہنا سکے جس کی توقع کی جا رہی تھی، اس لیے انہیں اپنی انتخابی کامیابی کے لیے دیگر داؤ پیچ بھی آزمانا ہو ں گے۔

یہ امر واضح ہے کہ امریکا میں بھارتی نژاد شہریوں کی مجموعی تعداد چالیس لاکھ سے زائد ہے جو امریکا کے کل ووٹرز کا چار فی صد بنتے ہیں، صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ وہ مودی کو خوش کرکے چالیس لاکھ ووٹ کھرے کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب مودی اپنی شاطرانہ چالوں اور انتہا پسندانہ سوچ کے ساتھ امریکی صدر کی مجبوری سے پورا فائدہ اٹھانے کے چکر میں نظر آتے ہیں۔ مودی اپنی مکارانہ سوچ کا اظہار پچھلے سال ہیوسٹن میں ہندو کمیونٹی کے ایک بڑے اجتماع سے صدر ٹرمپ کے ہمراہ اپنے متعصبانہ خطاب کے ذریعے کر چکے ہیں۔

ایک بار پھر نریندرمودی نے کشمیر کی سنگین صورتحال اور متنازع شہریت بل کے خلاف ہونے والے ملک گیر احتجاج کا اندرونی اور بیرونی دباؤ کم کرنے لیے صدر ٹرمپ کو اپنے آبائی شہر احمد آباد میں دنیا کے سب سے بڑے کر کٹ اسٹیڈیم میں ایک لاکھ مجمع سے خطاب کا موقع دے کر شیشے میں اتارنے کا ناکام مظاہرہ کیا جس سے ان کا سیاہ چہرہ کھل کر دنیا کے سامنے آ گیا ہے۔ نریندر مودی کا خیال ہے کہ وہ ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے صدر ٹرمپ اور امریکا کو نہ صرف بھارت کے حق میں مرعوب کر سکیں گے، بلکہ یہ سطحی اقدامات اپنانے کا مقصد دنیا بالخصوص چین اور پاکستان کو باور کرانا ہے کہ آزمائش کی سخت گھڑیوں میں امریکا بھارت کے ساتھ کھڑا ہوگا، حالانکہ امریکا کی توتا چشمی پر مبنی دوستی سے پاکستان سے زیادہ کون واقف ہو سکتا ہے۔

نریندر مودی کا فاشسٹ چہرہ کشمیراور دہلی سمیت ملک کے کونے کونے میں پھیلائے جانے والے تعصب پر مبنی گھناؤنے عزائم کی صورت میں ساری دنیا پر آشکارا ہو چکا ہے، اسی وجہ سے صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت میں بار بار پاکستان کے خلاف زبان کھلوالنے کی تمام تر بھارتی سازشوں کے باوجود وہ پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف کوئی ایک بھی ایسا لفظ ان کے منہ سے نکلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکا جس کو جواز بنا کر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کی جاسکتی، بلکہ الٹا صدر ٹرمپ نے پاکستان کے متعلق مثبت لب ولہجہ اختیار کر کے ان تمام سازشوں پر مٹی ڈال کر نریندر مودی کی خواہشات پر پانی پھیر دیا ہے، لیکن یہ سب کچھ پا کستان کی محبت میں نہیں، امریکہ کے اپنے مفادات کے زیر اثر ہو رہا ہے، امریکہ ایک طرف بھارت سے تجراتی و دفاعی معاہدے کررہا ہے تو دوسری جانب افغانستان معاہدے کو کا میاب بنانے کے لئے پا کستان کو استعمال کررہا ہے۔ ٹرمپ سے یہ امید لگالینا کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرائیں گے ’بھارت میں مسلمانوں پر ہونیوالے تشدد اور غلط قوانین کو ختم کرائیں گے ’ایسی سوچ سراسر حماقت ہی تصور کی جاسکتی ہے۔ امریکہ دنیا بھر میں دہشت گردی کی سب سے بڑی وجہ ہے اور یہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے مختلف علاقوں میں مختلف پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ امریکی مفاد کا حصول کہیں بادشاہت‘ کہیں جمہوریت ’کہیں امن اور کہیں جنگ کی صورت میں حاصل کیا جاتا ہے اور امریکی مفاد کے حصول میں نہ تو انسانی حقوق آڑے آتے ہیں اور نہ ہی مذہبی آزادی کی کوئی اہمیت ہے۔

امریکی صدر سپر پاور کی حیثیت سے ایشیائی ممالک سے اپنے مفادات کو یقینی بنانے میں مصروف ہیں، صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت کے بعد خطے میں امن کے حوالے سے مثبت نتائج کی توقع کی جارہی ہے، امریکی صدر نے جہاں دونوں ایٹمی قوتوں کے درمیان ایک بار پھر ثالثی کی پیش کش کی ہے، وہاں دوسری جانب طالبان امن معاہدہ کوحتمی شکل دی جارہی ہے۔ امریکابظاہر افغانستان میں طالبان سے امن معاہدہ کرکے جنوبی ایشیا اور دنیا میں امن قائم نہیں کرسکتا، اس کے لیے جنوبی ایشیا سے ریاستی دہشت گردی کاخا تمہ بھی ضروری ہے۔

بھارت میں قائم مودی سرکار اس وقت جنوبی ایشیا کے لیے ایک خطرہ بنتی جا رہی ہے، اگراسے بروقت روکنے کے موثر اقدامات نہ کیے گئے تو دیگر خطے بھی اس کی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔ امریکازبانی کلامی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے عملی طور پرایشیا پیسفک میں بھارت کو چین کے مدمقابل کھڑا کرنے میں مصروف ہے، جبکہ بھارت کے اندر موجود آزادی کی تحریکیں بھارت کے وجود کو اندر ہی اندر سے کمزور سے کمزور کرتی جارہی ہیں، ایسی صورت میں امریکہ کے مفادات بھی زمین بوس ہو جائیں گے، لیکن ان مفادات سے بھی بڑا خطرہ انسانیت کو ہے، اگر بھارت کی جاریحانہ اور تعصبانہ روش جاری رہی تو بوکھلاہٹ میں اس کے انتہا پسند عناصر اپنے حکمرانوں کے ذریعے خطے میں بڑی تباہی لا سکتے ہیں۔ اس صورت حال میں امریکہ سمیت دنیا طالبان سے معاہدے کے بعد جس امن کا خواب دیکھ ر ہے ہیں، وہ اپنی تعبیر سے پہلے ہی ڈراؤنا خواب بن کر دنیا کے سامنے آ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments