پولیس اصلاحات ضرور مگر۔۔۔


پنجاب میں پولیس اصلاحات اچھا اقدام ہے، اس پر بالکل کام ہونا چاہئے۔ اب تک جتنی بھی تجاویز دی گئی ہیں، وہ مناسب ہیں مگر یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اس میں پولیس والوں کی فلاح و بہبود کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ پاکستان میں ہر ادارے میں بہتر سے بہتر سہولتیں دی جاتی ہیں مگر یہ ایک واحد ادارہ ہے جہاں پر بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ اگر بات کی جائے ملک کے صف اوّل کے اداروں کی تو ان میں پاک آرمی، عدلیہ، سوئی گیس، واپڈا، پی ٹی سی ایل سمیت دیگر اہم اداروں کے ورکرز کو تمام بنیادی سہولتیں دی جا رہی ہیں، مثال کے طور پر ان اداروں کے اپنے سکول اور کالج ہیں جہاں ان کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں، فیس بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ صحت کے حوالے سے بات کی جائے تو یہاں پر ایسے اسپتال بنائے گئے ہیں جہاں پر ان کو بنیادی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ لیکن محکمہ پولیس کا المیہ یہ ہے کہ یہاں 12 سے 16 گھنٹے تک ڈیوٹی لی جاتی ہے مگر پھر بھی کارکردگی پر سوال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ پولیس اصلاحات میں یہ بات مدنظر رکھی جانی چاہئے کہ پولیس والوں کے لیے بھی علیحدہ سے خصوصی اسپتال اور تعلیمی ادارے بنائے جائیں تاکہ پولیس اہلکار معاشی مسائل سے پریشان ہونے کے بجائے اپنی ذمہ داریاں بہترین طریقے سے سر انجام دیں۔

عموماً کمزور انویسٹی گیشن کی باتیں زبان زدعام رہتی ہیں مگر ایسا کیوں نہیں کیا جاتا کہ اس کے دیگر پہلوئوں پر بھی نظرثانی کی جائے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جب کوئی کیس انویسٹی گیشن آفیسر کو دیا جائے تو اسے ساتھ ہی Cost of Investigation بھی دی جائے تاکہ اس آفیسر کو انویسٹی گیشن کرنے میں دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کیونکہ ہمارے یہاں کمزور انویسٹی گیشن اس لئے بھی ہوتی ہے کہ متعلقہ آفیسر مبینہ طور پر مدعیوں سے ہی تفتیش پر اٹھنے والے اخراجات کا تقاضا کرتے ہیں جس پر تگڑے مدعی تو پیسہ پانی کی طرح بہا دیتے ہیں مگر کمزور یا کم پیسے والے افراد کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں۔ لہٰذا اصلاحات میں پولیس کے بجٹ کو بڑھایا جانا بہت ضروری امر ہے۔

پولیس اصلاحات میں اس بات کی بھی نشاندہی ہونی چاہئے کہ ایسی کیا وجوہ ہیں جن کی بنا پر پولیس کا مورال گرتا جا رہا ہے اور پولیس والے زیادہ تر اس ادارے سے بدظن ہوتے جا رہے ہیں۔ میرے نزدیک اس میں سب سے اہم نکتہ تو یہ ہے کہ آج کل ہر جگہ پولیس اور پولیس وردی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہر دوسرے ٹی وی شو میں پولیس افسران کا تمسخر اڑایا جاتا ہے، وردی کی تذلیل کی جاتی ہے۔ جبکہ پولیس کی وردی کی بھی اتنی ہی عزت ہے جتنی کسی اور وردی کی ہے۔ اگر ٹی وی شوز میں کسی فوج یا عدلیہ کا مذاق نہیں اڑایا جاتا تو پولیس کا مذاق بھی نہیں اڑانا چاہئے۔

مزید یہ کہ سسٹم میں موجود مسائل کے حل کے لئے محض17 ویں سکیل کے ایس ایچ او کی براہِ راست بھرتی سے کچھ نہیں ہوگا، اس سے پہلے بھی براہ راست بھرتیاں کی گئی تھیں لیکن اس کے باوجود معاملات جوں کے توں ہیں، کیونکہ بنیادی سسٹم ہی درست نہیں ہے۔ لہٰذا پہلے بنیادی سسٹم میں بہتری لانا لازم ہے۔

جہاں تک میرٹ کی بات ہے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ میرٹ سے بہتر کچھ نہیں لیکن میرٹ پر بھرتی کرکے بھی اگر اختیارات ہی نہ دیے جائیں، بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جائے تو میرٹ والے بھی آخرکار پرانی ڈگر پر ہی چل نکلتے ہیں۔ یہاں تو سب ہی مقدس گائے ہیں۔ کسی پر بھی انگلی اٹھائیں وہ جتھے بنا کر آ جاتے ہیں اور پریشر گروپس کی وجہ سے پولیس انویسٹی گیشن اثر انداز ہوتی ہے۔ یعنی اگر کسی وکیل کی بات کی جائے تو عدالت بلا کر معزز ججز سے پولیس کو ہی باتیں سنوائی جاتی ہیں۔ ڈاکٹروں کا ذکر کیا جائے تو وہ بھی پولیس کو کام نہیں کرنے دیتے اور صحافیوں کو کچھ کہیں تو وہ بھی پولیس کو ہدفِ تنقید بنا ڈالتے ہیں۔

مزید برآں تھانہ کلچر بھی اسی صورت تبدیل ہوگا جب تھانہ شریفوں کے لئے پناہ گاہ اور جرائم پیشہ افراد کے لئے مقامِ عبرت بنے گا۔ یہاں تھانوں میں بااثر افراد سپاہی سے لے کر اعلیٰ عہدیدار تک کی آئے روز تذلیل کرتے ہیں کیونکہ ان کو کئی پریشر گروپس کا اشیرباد حاصل ہوتا ہے، اب یہ سلسلہ بھی ختم ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے ایک بہترین تجویز یہ ہے کہ ایک افسر کو کم از کم 3 سال ایک ہی جگہ پر تعینات کیا جائے تاکہ وہ مکمل طور پر ہر مسئلے کو جانچ پڑتال کے بعد حل کر سکے۔

ناکے پر کھڑے پولیس اہلکار پر انگلی سب اٹھاتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ بیشتر اہلکار کم تنخواہوں اور بنیادی سہولیات کی کمی کو پورا کرنے کیلئے کسی حد تک رشوت بھی لیتے ہیں مگر انہی ناکوں پر کھڑے پولیس اہلکاروں نے اس ملک کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی دیا ہے جس کی مد میں ان کو رسک الاؤنس بھی نہیں دیا جاتا۔

پولیس اصلاحات میں ان سب عوامل کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہئے۔ ٹریفک وارڈن اور موٹروے پولیس کی طرح ان کو بھی پُرکشش مراعات دی جائیں، اسلام آباد پولیس کی طرز پر ان کو بھی کیمرے دیے جائیں، اس سے یہ تاثر بھی ختم ہو جائے گا کہ پولیس زیادتیاں کرتی ہے کیونکہ پھر جو بھی ہوگا کیمرے میں ریکارڈ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ ریٹائر ہونے والے پولیس اہلکار سے لے کر افسران تک کے لیے حکومت کی جانب سے اسکیمیں ہونی چاہئیں۔ بھلے دو کمرے کا فلیٹ ہی ہو لیکن یہ پولیس اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے کافی ہو گا۔ جو واپڈا میں کام کرے اسے بجلی، سوئی گیس والے کو گیس، واسا والے کو پانی، PTCL والوں کو فون جیسی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں، پولیس والوں کو کیا ملتا ہے؟ انہیں کیوں کوئی سہولت فراہم نہیں کی جاتی؟  DMGافسران کے لئے مراعات کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے جبکہ پولیس افسران کو یہاں پر بھی کم ہی میں گزارا کرنا پڑتا ہے۔

پولیس اصلاحات اس وقت ہی بار آور ثابت ہو سکتی ہیں جب مکمل طور پر ادارے کو بااختیار بنایا جائے گا۔ ایک منظم نظام ہونا ضروری ہے جہاں جوابدہی کا عمل بھی ہو۔ ذاتی پسند ناپسند پر افسران کی تعیناتی کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔

ہر عمل کا ایک ردِعمل ہوتا ہے، حکومت بنیادی سہولتیں دے کر عمل کرے، پولیس مکمل طور پر ٹھیک ہو کر اپنا ردعمل دکھائے گی۔ نیز یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جب تک پولیس کے معاملات میں پریشر گروپس اور بااثر افراد کا عمل دخل رہے گا، اصلاحات سے کچھ بھی نہیں ہو گا۔ حالات جوں کے توں رہیں گے اور ہر بار کمیٹیاں ہی بنتی رہیں گی جن سے خاطر خواہ نتائج نہیں مل سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments