خوب سیرت کی تلاش


پرانے وقت کی بات ہے ایک ”بادشاہ“ تھا۔ اس کا بیٹا جو کہ اس وقت تخت نشین تھا۔ 18 سال کا ہونے والا تھا اور بادشاہ کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بیٹے کی شادی دنیا کی حسین ترین لڑکی سے کرائے۔ وہ چاہے شاہی گھرانے کی ہو یا غریب گھرانے کی۔ اس حوالے سے بادشاہ اپنے بیٹے کو بھی آزادی دیتا ہے کہ وہ پیاری لڑکی خود بھی تلاش کر سکتا ہے۔ بادشاہ کی خواہش کی وجہ یہ تھی کہ ان کے خاندان میں عورتیں خوبصورت نہ تھیں۔ آئے دن بادشاہ کے محل میں خوبصورت لڑکیاں تیار ہونے آتی ہیں۔ پھر بھی کوئی پسند نہیں آتی۔ لیکن بادشاہ کے بیٹے کی خواہش ہوتی ہے کہ ساتھ نبھانے والی ایماندار بھی ہوں اور اس لیے بادشاہ کا بیٹا فقیر کا روپ دھار کر نکل جاتا ہے۔ اس طرح اسے کئی دن گزر جاتے ہیں۔ آخرکار ایک دن تھک ہار کر جب وہ گھر جا رہا ہوتا ہے تو ایک خوبصورت 15 سال کی لڑکی بکریاں چرا رہی ہوتی ہے دیکھتے ہی دیکھتے شہزادے کو پسند آ جاتی ہے۔ خوبصورت آنکھیں، مورنی جیسی چال، بھورے لمبے بال، سفید رنگت دنیا سے بیزار بکری کے بچے کے ساتھ کھیلنے میں مشغول ہوتی ہے۔

شہزادہ گھر لوٹتا ہے اس کی نظروں کے سامنے سے لڑکی کی صورت ہٹتی ہی نہیں۔ ساری رات حسینہ کے خیالوں میں رہتا ہے۔ صبح پھر فقیر والا بھیس بدل کر نکل جاتا ہے اسی جگہ لڑکی روز کی طرح بکری کے بچوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ شہزادہ اسے کہتا ہے بھوک پیاس سے برا حال ہے اور میں مسافر ہوں۔ ہوسکے تو مجھے کھانا کھلا دیں۔ لڑکی اس طرح اس کو اپنے ساتھ میں گھر لے جاتی ہے بیمار ماں چارپائی پر سوئی ہوتی ہے۔ ماں کو مسافر کا بتاتی ہے۔

۔ اس طرح شہزادہ روز آجاتا ہے۔ آخر کار اس کی ماں سے رشتہ مانگتا ہے اور بتاتا ہے کہ فقیر ہیں پر شادی کرکے دو وقت کی روٹی دے سکتا ہے۔ بات بن جاتی ہے۔ اب مہ جبیں خوش ہوتی ہے۔ اب شہزادہ لڑکی کا امتحان لینے کے لیے بادشاہ کا بیٹا بن کر بھی شادی کا پیغام دیتا ہے۔ عیش و آرام، عزت، نوکر چاکر اور شہزادیوں والی زندگی کے خواب دکھاتا ہے۔ لیکن لڑکی کے صاف انکار کر دیتی ہے کہ وہ کسی فقیر کو پسند کرتی ہے اور اس سے شادی کرنے والی ہے۔

بات نہ ماننے پر لڑکی اور اس کی ماں کو بادشاہ قید کروا دیتا ہے اور ایک ہفتے کا وقت دیتا ہے کہ مان جائیں لیکن مہ جبین ایک ایماندار اور ثابت قدم لڑکی تھی۔ وہ اس فقیر کو دل وجان سے قبول کر بیٹھی تھی۔ اس کے لیے کسی بھی آزمائش سے گزر جانے کے لئے تیار ہوتی ہے۔ اس فقیر کے لیے پیغام بھیجتی ہے۔ اس طرح قید میں ہے اس کی مدد کو آئے۔ وہ اس کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کر سکتی ہے۔ کوئی جواب نہیں آتا۔ مہ جبیں بے چین رہتی ہے۔

دعائیں کرتی ہے کہ اسے بادشاہ کو جواب دینا ہوتا ہے صبح بادشاہ بلواتا ہے اور مہ جبین کو بادشاہت کا عہدہ دینے کا کہتا ہے کہ اس کے بیٹے سے شادی کرکے پوری سلطنت کی مالک اور ملکہ بن جائے گی۔ مہ جبین انکار میں جواب دیتی ہے اور درخواست کرتی ہے کہ ایک بار کسی طرح فقیر کو بلوا دیں۔ شہزادہ فقیر بن کر ملنے آ جاتا ہے۔ مہ جبین اسے سارا واقعہ بتاتی ہے۔ اور یہ کہ اسے صرف وہی چاہیے نہ کہ دھن و دولت۔ لیکن جوکہ فقیر ہوتا ہے کہتا ہے کہ اگر تم نے بادشاہ کے بیٹے سے شادی نہ کی تو مجھے جان سے مار دیں گے۔

اگر چاہتی ہو کہ میں زندہ رہوں تو شادی لو۔ یہ سن کر مہ جبین چونک سی جاتی ہے۔ پھر فقیر سے کہتی ہے کہ میں زہر پی لوں گی پھر تو تمہیں نہیں ماریں گے۔ فقیر ہاتھ باندھ کر التجاکرتا ہے کہ کچھ نہ کریں کیونکہ بادشاہ فقیر کے خاندان اور فقیر کو مروا دے گا۔ مہ جبین بے بس ہوجاتی ہے اور قربانی کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔ صرف اس لیے کہ اس کا پیار زندہ رہے گا۔ اگلے دن بادشاہ کو جیسے ہی ہاں کا پیغام بھیجواتی ہے۔ فوراً شادی کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ اور مہ جبیں کی شہزادے سے شادی ہو جاتی ہے۔ وہ بہت افسردہ اور زندہ لاش بن جاتی ہے۔

لیکن جب اس اجنبی فقیر کو اپنے شوہر اور شہزادے کے روپ میں دیکھتی ہے تو بے ہوش ہو جاتی ہے۔ جب ہوش آتا ہے تو شہزادہ اسے سارا حال بیان کرتا ہے کہ کیسے امتحان لیا کیونکہ خوبصورت لڑکیاں تو آئے دن محل میں قطار میں لگی کھڑی ہوتی تھیں کہ شہزادہ انہیں پسند کرلے۔ انہیں شہزادہ نہیں رتبہ و دولت عزیز تھا۔ وہ کسی بھی وقت دھوکہ دے سکتی تھیں۔ مہ جبیں تم نے ایک بار جب ایک فقیر کا انتخاب کیا تو اس کی خاطر دنیا کی ہر عیش و عشرت سے انکار کر دیا۔ مجھے تم جیسی ہی باوفا اور ایماندار لڑکی کی تلاش تھی۔ جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ خوب سیرت بھی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments