بھارتی انتہا پسندی پر دنیا کی بے بسی!


بھارت میں مسلم کش فسادات جاری ہیں، مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے، املاک جلانے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، بھارتی غنڈے جہاں اور جس وقت بپھرتے ہیں، مسلمانوں کی جانوں اور املاک کو تہس نہس کر دیتے ہیں، چند دن میں ہندوؤں کے پرتشدد واقعات میں اب تک درجنوں مسلمان شہید ہو چکے ہیں، جو مہذب ہونے کی دعویدار دنیا کے منہ پر طمانچہ ہے۔ عالمی برادری سوائے مذمتوں اور زبانی ردعمل کے عملی طورپر کچھ کرنے کو تیار نہیں، اقوام متحدہ نے پھر عالم اسلام کے بارے میں اپنی پالیسی کے مطابق بیان دیا کہ بھارت مسلمانوں کے تحفظ کے لئے اقدامات کرے۔

حیرت ہے کہ بھارت اتنا منہ زور ہو چکا ہے کہ مودی امریکی صدر ٹرمپ کی کوئی بات ماننے کو تیار ہے نہ انتہاپسند ہندو حکومت اپنے ”ہندو توا“ ایجنڈے سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو راضی ہے۔ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی تنظیمیں اور ادارے بھارت کے متنازعہ قانون شہریت کو ایشیا میں امن دشمنی اور بنیادی حقوق کی تلفی کی بنیاد قرار دے رہے ہیں، لیکن بھارت اپنی ضد سے ہٹنے کو تیار نہیں تو پھر کیا اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، ایف اے ٹی ایف سمیت تمام عالمی اداروں کے قوانین صرف پاکستان اور دیگر اسلامی ملکوں کے لئے ہی ہیں؟

اسلامی دہشت گردی کا پوری دنیا میں کہیں نام و نشان نہیں، یہ صرف اسلام دشمن ذہنوں کی اختراع اور اسلام فوبیا ہے۔ بھارت میں جو ظلم کا بازار گرم ہے، اپنے ہی ملک کی زمین جس طرح اقلیتوں پر تنگ کیا جارہا ہے، اسے ہندو انتہا پسندی قرار دینا اعتراف حقیقت اور متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی نہیں؟ دنیا کو دوہرا معیار ترک اور منافقت کا لبادہ اتار پھینک کربھارت میں سسکتی اور دم توڑتی انسانیت کو بچانا ہو گا۔

اس میں شک نہیں کہ عالمی دنیا کے مفادات بھارت کے ساتھ جڑے ہیں، اس لیے بھارت کے جاریحانہ اقدمات پر بھی دنیا کی بے حسی نظر آتی ہے، لیکن اب کچھ ممالک بھارتی مسلمانوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم پرآواز بلند کرنے لگے ہیں۔ اگرچہ زیادہ تر بھارتی میڈیا مودی سر کار کے کنٹرول میں ہے، لیکن بھی کچھ بول پڑے ہیں کہ حالیہ فسادات 2002 ء گجرات فسادات سے بھی زیادہ منظم طور پر کیے جارہے ہیں۔ اس وقت مودی اور امیت شاہ صرف گجرات پر اختیارات رکھتے تھے، انہوں نے مسلمانوں کی املاک کو نذر آتش کیا اور بے دریغ نہتے مسلمانوں کا قتل عام کیا، جبکہ اب انہیں بے پناہ اختیارات حاصل ہیں، اس لئے مودی سرکار اور امیت شاہ نے باقاعدہ منظم منصوبہ بندی سے دہلی کے باہر سے فسادیوں، بلوائیوں اور ہندو دہشت گردوں کو بلا کر فسادات کرائے جسے بعدازاں تشدد کا نام دیا گیاہے۔

بھارتی میڈیا کو دیکھا جائے تو وہ بھی مودی کے زیر سایہ ہے، ہر کوئی مودی کے گیت گاتا ہے، لیکن میڈیا کے بعض حلقوں نے ان مظالم پر بھی آواز بلند کی ہے اور ہندو انتہا پسندوں کے مسلمانوں پر بہیمانہ حملوں کے طریقوں کو نازی جرمنی سے بھی جدید قرار دیا ہے۔ انہوں نے مودی اور بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں گیس چیمبروں کی ضرورت نہیں، ہم انسانوں کو سینکنے کے لئے گھروں کو تندوروں میں بدل دیتے ہیں۔ بھارتی میڈیا کی اکثریت یک طرفہ طور پر رپورٹنگ کر رہی ہے، لیکن سوشل میڈیا نے مودی سرکار کی چالوں سے عالمی برادری کو آگاہ کیا ہے کہ دہلی پولیس خود حملہ آوروں کی مدد کرتی نظر آئی ہے، کیونکہ اکثر بلوائی نئی دہلی کے راستوں سے بھی واقف نہ تھے، جبکہ دہلی پولیس انہیں راستوں سے آگاہ کرتی رہی ہے۔

دہلی پولیس کے پاس وسیع اختیارات تھے، اگر وہ چاہتے تو چند گھنٹوں میں حالات پر قابو پا سکتے تھے، لیکن گجرات فسادات کی طرح پولیس نے ہندو دہشت گردوں کو یہاں پر بھی فری ہینڈ دیا ہے۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ کیجروال بھی ہندوؤں کی طرف داری کرتے نظر آتے ہیں، حالانکہ دہلی کے مسلمانوں نے انہیں ووٹ دے کر تیسری مرتبہ وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز کیا، لیکن انہوں نے 24 فروری کے بعد سے ابھی تک متاثرہ علاقوں کا دورہ کر کے جانی اور مالی نقصان کی تلافی کے لئے کوئی بھی اعلان نہیں کیا، جو ان کی جانبداری کو ظاہر کرتا ہے۔

اقوام متحدہ شورش زدہ ملکوں میں امن فوج بھیج کر وہاں کے لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بناتی ہے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں دونوں ہی جگہوں پر بھارتی حکومت اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کیے ہوئے ہے۔ اس لئے اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے علاقوں میں امن فوج تعینات کر کے وہاں کے مظلوموں کی حفاظت بھی یقینی بنائے۔ دہلی فسادات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھارت میں موجودگی کے وقت شروع ہوئے، جبکہ امریکہ اس کی بارہا مذمت بھی کر چکا ہے، لیکن صرف مذمت کافی نہیں ہو گی، امریکہ نے جس طرح گجرات فسادات پر مودی کے امریکہ داخلے پر پابندی عائد کی تھی، اب بھی امیت شاہ اور اس کے آس پاس موجود بلوائیوں کے خلاف ایسی کارروائی کو یقینی بنائے، تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔

اگر عالمی برادری نے ایسے ہی چپ سادھے رکھی تو پھر مودی کے دور اقتدار میں اقلیتوں پر بدترین حالات آئیں گے، لہٰذا انسانی حقوق کی تنظیمیں، او آئی سی، عرب لیگ سمیت خطے کے دیگر ممالک کو اس کا نوٹس لینا ہو گا، تاکہ انسانیت کا قتل عام روکا جا سکے۔ مقبوضہ کشمیر کے حالات بھی دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں، بھارت نے فوج کے اضافی دستوں کو مزید وادی میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خصوصی حیثیت کے خاتمے سے قبل عارضی طور پر مقبوضہ وادی میں بھیجے جانے والے ہزاروں فوجیوں کو ابھی تک واپس نہیں بلایا جا رہا، جس کا مقصد کشمیریوں کی صدائے احتجاج کو دبا کر رکھنا ہے۔

بھارت میں انتہا پسندی سر چڑھ کر بولتے بولتے اب انسانیت کو برُی طرح روندرہی ہے، مقبوضہ وادی کے محاصرے کو 212 دن گزر چکے ہیں، صرف فروری 2020 ء میں 10 نوجوانوں کو شہید کیا گیا ہے، جبکہ اس سے قبل ہزاروں افراد کو شہید کیا جا چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر ایک الارمنگ صورتحال اختیار کر چکا ہے، بھارت کرفیو کے نفاذسے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبا نہیں سکتا، اس خطے میں ایک لاوا اُبل رہا ہے، یہ جس دن پھوٹ پڑا، سب کچھ اس میں بہہ جائے گا۔

کشمیری الحاق پاکستان کے مشن پر ڈٹے ہوئے ہیں اور خون کے آخری قطرہ تک جدوجہد آزادی جاری رکھنے کے عزم پر قائم ہیں۔ پاکستانی حکومت، جرأت و جوانمردی کا استعارہ پاک فوج اور پوری پاکستانی قوم بھی مہر و وفا کے تقاضوں کے عین مطابق کشمیریوں کے شانہ بشانہ ہیں۔ عالمی برادری یو رپی یونین، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ کو بھی اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے، تاکہ خطے میں مزید بدامنی کوپھیلنے سے روکا جا سکے، لیکن اگر عالمی برادری نے اس صورتحال کا نوٹس نہ لیا تو پھر خطے میں حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے کھڑی ہیں، اس وقت اقوام متحدہ کانوٹس نہ لینا حالات کو مزید خراب کرنے کا سبب بنے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments