میڈیا ورکرز ایک مافوق الفطرت طبقہ


برسوں پہلے قلم اور سیاہی صحافت کا ہتھیار سمجھے جاتے تھے۔ لیکن جہاں وقت کا دھارا ہر شہ بدلتی ہے وہاں خیالات، رجحان اور انداز میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ صحافت میں جب یہ تبدیلی وارد ہوئی تو قلم اور سیاہی کے ساتھ کیمرہ اور مائیک کا بھی بھر پور استعمال ہونا شروع ہو گیا۔ ان جدید ہتھیاروں کی بدولت جہاں دنیا کے صحافتی طورطریقوں میں تبدیلی آئی وہاں تھوڑی دیر سے ہی سہی پر ہمارے مملکت خدادا میں بھی الیکڑانک میڈیا کو ایک نئی دیوی کی صورت میں خوب پزیرائی ملی۔

اس دیوی کی چکا چوند اتنی پرکشش تھی کہ نا صرف اس نے قلم کے پرانے باسیوں کو مجبور کیا کہ وہ اس کی تقلید کریں بلکہ نئی نسل کو بھی ٹرک کی بتی کی طرح اپنے پیچھے لگا دیا۔ متاثرہ نئی پود میڈیکل اور انجئیرنگ کی بجائے الیکڑونک میڈیا کی چکا و چوند کو ترجیح دینے لگے۔ سرکاری اور پرائیوٹ یونیورسٹیز میں عام وخاص کو ایسے بے شمار کورسس میں دعوت دی جانے لگی کہ وہ آئیں اور سراب کی دیوی کے حسن سے لطف اندوز ہونے کے لئے ٹکٹ، ڈگریوں کی صورت میں لے جائیں۔

ایسا حسن نا صرف آنکھوں کو چندھا رہی تھی بلکہ دماغ کو بھی ماؤف کرنے کا باعث بننے لگی۔ ٹکٹ لینے والے یہ جانتے بوجھتے کہ ہاؤس فل ہونے کی وجہ سے پہلے ہی انڑی بند ہے وہ دل جمعی سے انتظار گاہ کی لمبی قطار میں لگ جاتے اور پھر ہوا وہی جس کا ڈر تھا عاشق زیادہ ہوگئے تو عشق کی قدر بھی نہیں رہی۔ دل تو جو ٹوٹے سو ٹوٹے دیوی کے ہاتھوں صحافت کے حقیقی عاشقوں کا مالی اور ذہنی استحصال بھی ہونا شروع ہو گیا۔

پرٹھہریے۔ دیوی اتنی بری نہیں ہے جو سب پر نا مہربان رہے اور جن پر نا مہربان نہیں رہی ان کے خوب مزے ہوئے۔ سیٹھ لوگوں کو یک وقتی سرمایے کے عوض کثیر منافع کمانے کے پھرپور مواقع ملنے شروع ہوئے، وہ اپنے سرمایے کو استعمال کر کے نا صرف پارسائی کا پیکر بننا شروع ہو گئے، بلکہ ان کے ہاتھ بھی طاقت کی ایسی گیڈرسنگھی لگ گئی جس کے سامنے بڑے بڑے ڈھیر ہو جاتے۔ دیوی کی بدولت من کی بنیاد پر کسی کو آسمان سے اٹھا کر زمین پر پٹخنا تو سیٹھوں کے لئے معمول کی بات بن گیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید مطلق العنان ہوئے تو ان کو اپنا وجود بھی فرعون ثانی لگنے لگا۔ جن کی نظروں میں صحافت کے یہ پجاری فقط غلاموں کی بے وقتی ٹولیاں تھیں۔ جن کو نا صرف دھتکارا جانے لگا بلکہ ان کا جینا بھی مجال کیا جانے لگا۔ طاقت کے نشے میں دھت سیٹھ یہ بھول گئے کہ فرعون بھی جتنا مرضی ظالم ہو اس کو بھی غلاموں سے اطاعت گزاری کروانے کے لئے ان کی سانسوں کی ڈوریں بحال رکھنی پڑتی ہیں۔ جس کے لئے کم از کم دو وقت کی روٹی تو درکار ہوتی ہے۔

وقت کا دھارا عمرانی دور میں داخل ہوا تو شاید پڑھاپے نے الیکڑانک میڈیا کی دیوی کے حسن پر سوالات بھی اٹھانا شروع کر دیے ہر جگہ دیوی کا مستقبل موضوع گفتگو بننے لگا۔ مستقبل کی آڑ میں دو وقت کی روٹی ڈالنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنے والوں کو اپنے اپنے سر سے مزید بوجھ اتارنے کا موقع مل گیا۔ دیکھنے والے تو ابھی بھی دیکھ سکتے تھے کہ دیوی کے شباب کے دور جن کی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اب پیروں کی انگلیاں بھی گھی سے تر نظر آتی ہیں۔ پر ناماننے والوں کو کون منا سکتا ہے۔

خرچہ بچانے کے لئے سیٹھوں نے گروہ در گروہ دیوی کے اطاعت گزاروں کے سر قلم کرانے شروع کر دیے۔ پھر بھی افاقہ نہیں ہوا تو بے چارے اطاعت گزار جو معولات زندگی کے اخراجات پہلے ہی کم کر چکے تھے اب ان سے توقع کی جانے لگی کہ وہ ان اخرجات کو بالکل ہی ختم کر دئیں۔

سیٹھ کم فرعونوں کے خیال میں میڈیا میں کام کرنے والوں کو نا ہی اپنی اور اپنے خاندان والوں کی سانسیں بحال رکھنے کے لئے روزمرہ خوراک کی ضروریات پیش آتیں ہیں، نا ہی ان کو گھروں کی چھتوں کے نیچے رہنے والے لوازمات کو پورا کرنے کی ضرورتیں پڑتیں ہیں۔ ان کے خیال میں میڈیا ورکرز کے گھروں میں نا ہی خوشی و غمی کے مواقع آتے ہیں اورنا ان کے پاس والدین یا اولادوں کو آسائشیں دینے کی خواہشات ہوتیں ہیں۔ کیونکہ میڈیا ورکرز تو مافوق الفطرت ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments