ماروی سرمد اور خلیل الرحمٰن نے مباحثہ کیا؟


خواتین کے ساتھ بدتمیزی ہرگز بھی قابل قبول نہیں ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ کرنا کیا ہم چھوڑ چکے ہیں؟

بات شروع کرنے سے قبل انتہائی ادب کے ساتھ ایک شخص کہتا ہے کہ آپ کی بات میں نے مکمل تہذیب، اخلاق و خاموشی سے سنی ہے آپ سے بھی گذارش ہے کہ اپنا نقطہء نظر بیان کرنے کے بعد میرا نقطہء نظر بھی مکمل خاموشی سے سنیے گا۔ بات شروع ہوتی ہے اور کچھ لمحے بعد ایک لقمہء دیا جاتا ہے۔ ابتدائی چند جملوں کے تبادلے کے بعد مخصوص نعرہ بلند ہوتا ہے اور مرد مصنف آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ برداشت کس نے نہیں کیا؟ بیچ میں ٹوکا سب سے پہلے کس نے؟ مقصد ہی شاید یہ تھا کہ ٹوکا جائے اور جذبات کو ابھارا جائے۔ مخصوص نعرے ہمیشہ مخصوص سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کے پیچھے پوری ایک سوچ کارفرما ہوتی ہے۔ آپ ایک لمحہ سوچیے کہ عورت کے حقوق اگر اسلام میں نہیں تو پھر کسی اور مذہب میں نہیں۔ جس فعل کو اسلام میں سب سے زیادہ ناپسند کیا گیا عورت اس کو مخصوص نعرہ بنا لے تو ایک لمحہ سوچیے کہ ردعمل کیا ہوگا؟

خلیل الرحمٰن قمر ایک لکھاری ہیں۔ ایک لکھاری کو بہت کچھ سننا پڑتا ہے، بہت کچھ سہنا پڑتا ہے۔ اور یقینی طور پر ان کو جذباتی انداز نہیں اپنانا چاہیے تھا کہ ایک لکھاری جب غصے کو اپنا لے تو اس سے معاشرے کی فلاح کا عنصر لیے تحریروں کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے بعد ایک قدم آگے بڑھیے، سوچ کو ایک زینہ مزید اوپر لائیے۔ خیل الرحمٰن قمر ایک انسان ہیں، مرد ہیں اس کے بعد لکھاری ہیں۔ ہو سکتا ہے پہلے سے جاری مباحثے میں کئی ایسے لمحات آئے ہوں کہ ان کے دل نے اصرار کیا ہو بولنے پہ۔ ان کی سوچ نے کچوکے لگائے ہوں کہ چپ کیوں بیٹھے ہو۔ لیکن یہ انسان خاموشی کی تصویر بنا رہا۔ اور ایک مہذب مکالمے کی کوشش کرتے ہوئے دونوں شرکاء کو سنتا رہا۔

اور اس دوران دوسرے مردحضرت جو ایک سینیٹر بھی ہیں کم و بیش مہذب انداز ہی اپنائے ہوئے نظر آئے۔ ایک تو عمر کا تقاضا، دوسرے سینیٹر اور تیسرے مذہبی سوچ کے حامل، اس سب کے باوجود انہوں نے کوئی ایک جملہ ادا نہیں کیا جو اعتراض کی گرفت میں آتا ہو۔ لیکن تیسرا فریق مباحثے کا، جب اس کو موقع دیا گیا تو اس نے برداشت کی درخواست پہلے ہی کر دی۔ جس کے باوجود خاتون نے درمیان میں نہ صرف ٹوکا بلکہ وہ الفاظ ادا کیے جن پہ آج کل بہت زیادہ بحث پہلے ہی ہو رہی ہے۔ اور مسلسل تکرار پہ معاملات میزبان کے قابو سے مکمل باہر ہو گئے۔ توں توں میں میں ہوئی، الزامات لگے، ذاتیات پہ حملے ہوئے۔ یہ جو کچھ ہوا یہ نہ تو اخلاقیات کے دائرے میں آ سکتا ہے، نہ اس کی کوئی توجیہ پیش کی جا سکتی ہے، نہ ہی مباحثے کے لیے مثبت روش کہی جا سکتی ہے۔

مباحثہ ہمیشہ معاشرے کی اصلاح کے لیے ہوتا ہے نہ کہ ریخت کے لیے۔ نتیجتاً اس وقت پورے ملک میں ایک نئی بحث شروع ہو چکی ہے۔ خلیل الرحمٰن قمر نے غلط کیا۔ اس سے نہ کسی کو اختلاف ہے نہ ہی دلیل دی جا سکتی ہے۔ لیکن ہم ہمیشہ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ غلطی ان کی بڑی تھی لہذا خاتون کا بیچ میں ٹوکتے ہوئے جذبات کو ہوا دینا نظر انداز ہو گیا ہے۔ اور یقینی طور پر نظر انداز ہی رہے گا۔

ہم بطور قوم برداشت سے عاری ہو چکے ہیں۔ ہم اونچی آواز میں بولنا حق سمجھتے ہیں لیکن سننے کو اپنا فرض سمجھنے کے روادار نہیں ہیں۔ ہم بطور قوم ایک ایسا رویہ اپنا چکے ہیں کہ توقع رکھتے ہیں سننے والا بس خاموش، جامد، مجسم ساکت بس ہمیں سنتا رہے۔ ہمیں اپنا موقف ٹھونسنے کی عادت سی ہو چکی ہے۔ آپ ایک گھنٹہ بولیں اور دوسرا سنے لیکن دوسرا کوئی ایک لمحہ بھی بات کرئے تو فوراً بیچ میں ٹوک دیجیے کہ آپ سننا گوارا نہیں کر سکتے۔ اور ایسا ہی اس پروگرام میں ہوا جسے اب سارے مردوں سے منسوب کیا جا چکا ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی زحمت ہمیں نہ صرف بہت سے مسائل سے بچاتی ہے بلکہ حقیقت کے قریب بھی کر دیتی ہے۔ لیکن ہم ایسا کریں ہی کیوں کہ اس میں معاشرے کی روش، جو منفیت لیے ہوئے ہے، اس سے ہٹ جائیں گے۔ اور ہم اکثریت کے ساتھ ہوں گے چاہے وہ غلط ہو، اقلیت کا ساتھ نہیں دے سکتے چاہے وہ درست ہی ہو۔

ہم منفیت کا ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو بطور قوم ترقی میں دس قدم پیچھے چلے جاتے ہیں۔ مباحثہ ہے کیا؟ مباحثہ کیا صرف چیخ و پکار، گالم گلوچ، گریباں چاک کا ہی نام ہے؟ یا  مباحثہ کچھ اور ہے؟ مباحثے کے اصول ہم نے سیکھے نہیں اور ٹی وی چینلز پہ مچھلی بازار لگا دیے۔ برداشت کا مادہ ہمارے قلوب و اذہان سے مفقود ہو چکا ہے اور ہم چلے ہیں مباحثہ کرنے۔ برداشت سے عاری ہو کے ایسا ہی ہے کہ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ ارے صاحبانِ عقل! مباحثے کی تعمیری انتہا کا تقاضا ہے کہ اپنے اندر دوسرے کو سننے کا حوصلہ پیدا کیجیے۔ چینل کا کام تو ہے ہی ریٹنگ لینا وہ ریٹنگ لے جائے گا۔ لیکن آپ ایک ایسا دھبہ معاشرے پہ بن جائیں گے جسے مٹانے کے لیے نہ جانے کتنی نسلوں کو کام کرنا پڑئے گا۔

خلیل الرحمٰن قمر نے اپنے لہجے کی لگامیں جب کھول دیں تو ان کے الفاظ اڑیل گھوڑے کی طرح رفتار پکڑ گئے اور یقینی طور پر بطور معاشرہ ہم ایک منفی بحث میں اُلجھ گئے۔ لیکن ہم اس مباحثے کی بنیاد یعنی عدم برداشت اور دوسرے فریق کو سننے جیسی بڑی برائی پہ نہ بحث کریں گے نہ ہم بحث کرنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ ہم تعمیر تو معاشرے کی کرنا ہی نہیں چاہتے۔ ہم لائیکس، شیئر، کمینٹ کی دوڑ میں جا چکے ہیں۔

ہمیں کوئی غرض نہیں کہ ہم معاشرے میں مباحثے کے ضوابط سختی سے نافذ کریں۔ ہم تو مباحثے کا مطلب بس ہاہا ہو ہو کار لینے سے آگے بڑھنا ہی نہیں چاہتے۔ چند افراد جمع ہوں۔ وہ اپنی مرضی ایک دوسرے پہ مسلط کرتے نظرآئیں۔ گالم گلوچ ہو۔ ایک دوسرے کا موقف سنے بنا ٹوکنا جاری ہو۔ بس ہمارے نزدیک یہی مباحثہ ہے اور ہم اسی کو اپنی کل کائنات سمجھے بیٹھے ہیں۔ وہ دن گئے جب خلیل میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے کے مصداق اب وہ دن گئے کہ برائیاں نظر انداز ہو جایا کرتی تھیں۔ اب تو آپ کی چھوٹی سی غلطی بھی ایسے پھیلتی ہے کہ معاشرے کی بنیادوں کے ساتھ دیمک کی طرح چمٹ جاتی ہے۔ کیوں کہ آپ اس معاشرے کی ہی تو اکائی ہیں۔ اور معاشرے کی اکائیاں ہی جب باہم دست تو گریباں ہو جائیں تو پھر معاشرے کی فلاح کا خیال ہی عبث ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments