عورت مارچ اور سانڈ معاشرہ


آٹھ مارچ کی آمد آمد ہے۔ ہر طرف لال لال پوسٹر چسپاں کیے جا رہے ہیں جس پر میرا جسم میری مرضی، اپنی روٹی خود پکاؤ، میری شادی نہیں آزادی کی فکر کرو، اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو اپنی آنکھوں پہ باندھ لو، اپنا کھانا خود گرم کرو وغیرہ درج ہیں۔ سننے میں آ رہا کہ اس آٹھ مارچ کو اور زیادہ بیباکی دیکھنے کو ملے گی۔ تحریک کو زوروشور سے آگے بڑھانے کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔

دوسری طرف اس ملک کے خود کو شرفاء سمجھنے والے باسی بھی اس مارچ کو ناکام بنانے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ خوب گالم گلوچ، ذاتیات پر کیچڑ کا کام بخوبی نبھایا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے کی کردار کشی کر کے مزید اس معاملے کو الجھایا جا رہا ہے۔ مگر کیا پاکستان کا مسئلہ یہ مارچ یا اس کو روکنا ہے۔ سستی شہرت کے حامل افراد اس معاملے پر پرنٹ و سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر کھل کر ایک دوسرے کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے نظر آتے ہیں۔

جہاں تک عورت مارچ کی بات کی جائے تو کون سی آزادی کی بات کرتے ہیں یہ موم بتی مافیا؟ اسپتال ہوں یا بنک، دفاتر ہوں یا سکول کالجز، ایئرپورٹ ہو یا لاری اڈا ہر جگہ عورتوں کو خصوصی طور پر عزت کے ساتھ سروسز مہیا کی جاتی ہیں۔ بعض جگہ پر خواتین اسی دیے جانے والے مقام کا غلط استعمال کرتے ہوئے مردوں کے اس معاشرے میں مردوں کو ہی ہراساں کرتی نظر آتی ہیں۔ اس مارچ کو سپورٹ کرنے والے بتائیں کہ ماہواری کے پیڈ دیواروں پر چسپاں کرنے سے خواتین کو کون سی آزادی حاصل ہوگی؟ یا مرد کے گلے میں پٹہ ڈال کے ساتھ گھمانے سے خواتین کیا ثابت کرنا چاہیں گی؟

رہی بات نام نہاد شرفاء کی تو جتنا ظلم ان لوگوں نے عورتوں کو وراثت نا دے کر، زندہ دفنا کر، جنسی پامال کر کے، کم سن بچیوں کو نوچ کر، عورتوں کی عزت نفس مجروح کر کے کیا ہے اس کا ازالہ کرنے کے لیے ہمیں ناجانے اور کتنے مارچ سہنے پڑیں۔ مردوں کے اس معاشرے میں ہر مرد نے عورت کو دبانے میں ہی اپنی مردانگی جانی ہے۔ ہر مرد کھلے سانڈ کی طرح وحشی درندہ بن کر جب چاہے عورت کا استحصال کرنے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ بقول سعادت حسن منٹو کے اس معاشرے میں رنڈی کا کوٹھا ایک نعمت ہے جہاں ان کی وحشت نکلتی ہے ورنہ جن اعضاء کو یہ گھورتے ہیں وہ اعضاء ان کے محرم رشتوں کا بھی حصہ ہیں۔

ہم انا کے پابند لوگ اس قدر عدم برداشت کے عادی ہیں کہ ایک دوسرے کی جائز ڈیمانڈ ماننا بھی اپنی توہین سممجھتے ہیں۔

اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں اگر اسلامی حقوق ہی عورتوں کو ملے ہوتے تو آج یہ نوبت نا آتی۔ اور نا اس کی آڑ میں بیرونی تنظیمیں گھٹیا پروپیگنڈے کرتی نظر آتی۔ مجموعی طور پر پاکستانی عورت تہذیب کے دائرے میں رہ کر بھی آزاد خود مختار اور بارعب ہے۔ ہمیں منافقت چھوڑ کر اختلاف رائے کو اپنانا ہو گا تاکہ کوئی طبقہ اپنی محرومی مٹانے کے غلط راستہ نا چنے۔ اور آنے والی نسلیں اس دو طبقاتی نظام سے نکل سکیں۔ اللہ تعالٰی سب کو عزت و آبرو کا حامی اور ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments