جنگ جراثیم


خوف کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوا کرتا، اس کی بے جا کثرت شخصیت کو پارہ پارہ کر دیتی ہے، چنانچہ اس کے وجود میں اعتدال ہوناضروری ہے۔ ایک جذبہ احساس ذمہ داری ہے جس کی اساس اشرف المخلوقات کے ضمیر سے اٹھائی گئی ہے اس کی فروانی کسی بھی شخصیت کے نکھرنے کے لئے ضروری ہے۔ ڈاکٹر ابرار عمر کا یہ قلم توڑ شعردیکھئے۔

صحن تک آگئی تھی بربادی

اور وہ سو رہا تھا کمرے میں

الفاظ سے سرشار تقریریں ہوں یا لہراتی ہوئی ننگی تلواریں، ان دونوں کا یہ دور نہیں ہے۔ ان کی ایجاد اور ان کے استعمال کو یاد کرنے کے لئے کئی دہائیاں، کئی صدیاں تاریخ میں جھانکنا پڑتا ہے۔ جب افرادی قوت کے بغیرہی ٹیکنالوجی کی مدد سے گھر بیٹھے بٹھائے یا کسی ”سیوہیون“ میں ڈیرے جمائے ہوئے مطلوبہ اہداف حاصل ہو جائیں تو پھر خون پسینہ ایک کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ایف 17۔ یا تھنڈرطیارے وغیرہ ایسے ہی ہیں جیسے ہاتھ کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور۔

ابھی حال ہی میں امریکی صدر نے اپنے دورۂ بھارت کے دوران نریند مودی سے اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدے کیے ہیں۔ بھارت میں ایک طرف شہریت کا مسئلہ سراٹھائے کھڑا ہے اور دوسری طرف اقلیتی برادریاں اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف سڑکوں پر موجود ہیں۔ یہ سب کچھ اس مقام کے بالکل نزدیک ہو رہا ہے جہاں امریکی صدر تقریب سے خطاب کے لئے موجود ہیں۔ سچ کو چھپانے کے لئے لاکھ کوشش ہی کیوں نہ کر ڈالی جائے اس غیر ضروری محنت کو بلاشبہ ضائع ہی ہونا ہوتا ہے۔ امریکہ ان اقدامات کے ذریعے اس خطے میں طاقت کا مرکزبھارت میں قائم کرنا چاہتا ہے، جو کسی حد تک چین کی قوت مدافعت کو ہدف نگاہ بنانے سے جڑا ہوا ہے۔ مزید برآں ان اقدامات کا مقصد پاکستان کے اندرونی معاملات پر نظر رکھنا بھی ہوسکتا ہے۔

کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کس ٹھکانے سے کیا جا رہا ہے اور کون کر رہا ہے یہ آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے مگر جراثیموں کے لشکر، جسے ”بائیو ٹیراریزم“ کہا جاتا ہے کہاں سے کمربستہ ہو رہے ہیں، اس کو سمجھنا اور اس کا فوری طور پر حل نکالنا ایک انتہائی مشکل امر ہے، دہشتگردی کے اس طریقے کا استعمال گوکہ تاریخ کی کتابوں میں بیسویں صدی عیسوی سے کہیں پہلے کا ہے۔ مگر موجودہ اور آہنے والے دور میں اس کا پہلے سے کہیں زیادہ استعمال دیکھنے میں مل سکتا ہے۔ ڈارون کاServival of fittest والا فارمولہ دنیا کی نگاہوں کے سامنے ہے، امریکہ اور روس سمیت کئی ممالک اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے واقف ہیں اور بادی النظر میں جراثیموں کے حملوں سے بچاؤ کے لئے ”اقدامات“ بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

توجہ طلب یہ بھی ہے کہ یہ ممالک اس ٹیکنالوجی کو استعمال میں لانے کے وسائل بھی رکھتے ہیں، تجربہ گاہوں سے کر سائنسدانوں تک کی سہولت بھی ان کے پاس ہے، بوقت ضرورت اس کا تدارک بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ نسبتاً ایک سستا اور خفیہ طریقہ ہے جسمیں وسائل بھی کم درکار ہیں اور انفرادی قوت بھی اور محاورے والا رنگ بھی چوکھا ملتا ہے۔ صحت کا عالمی ادارہ کرونا وائس کی سراغ رسانی میں مشغول ہے کہ یہ پہلے پہل کہا ں سے نمودار ہواجس نے نہ صرف عالمی سطح کی معیشت کو تہہ بالا کر دیا ہے بلکہ ایک وسیع و عریض قسم کا ہیجان بھی برپاکر دیا ہے۔ مطلوبہ اقدامات کے طور پر چین نے ووہان شہر میں تین دنوں میں ایک ہزار بستروں پر مشتمل ہسپتال تیار کیا ہے۔ کیا ایسی حکمت عملی اور تیزی ترقی پذیر ممالک بھی دکھا سکتے ہیں جن کا پہلے ہی مشکل حالات میں گزر بسر ہو، جن کے پہلے ہی شب و روز کسی شاعر والے دو آرزو میں اور دو انتظار میں کٹ رہے ہوں۔

اس وقت پاکستان میں بھی یہ وائرس قدم رنجہ فرما چکا ہے۔ اور ظفر اقبال والا ”رہے وہ ایک طرف اور لگے چاروں طر ف“ والا معاملہ نہیں ہے۔ یہ وائرس ایک طرف نہیں گویا بنفس نفیس چاروں طرف پہنچ چکا ہے۔ رپورٹ ہونے والے متاثرین میں سے اکثریت کا تعلق دوسرے ممالک میں آنے جانے سے رہا ہے جو کاروبار یا تعلیم کی غرض سے بیرون ملک میں مقیم تھے۔ ووہان شہر میں بھی پاکستانی طلبہ کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ جو علم کی تشنگی بجھانے کے لئے وہاں رہائش پذیر ہیں۔

بنگلہ دیش ہو یا نیپال، ان ممالک نے وائرس سے متعلق ابتدائی معلومات ملتے ہی اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کا عمل شروع کر دیا تھاچاہے وہ اپنے شہریو ں کی اپنے ملک میں واپسی کی شکل میں ہو یا غیر معینہ مدت کے لئے فضائی سفر کی بندش کی صورت میں۔ ہماری صحت سے متعلقہ وزارت نے یہ منطق پیش کی کہ اگر وہاں مقیم پاکستانیوں کو اب یہاں بلایا گیا توکہیں وائرس یہاں بھی نہ پہنچ آئے ہم اس آفت ناگہانی سے درست سمت میں نبردآزما نہیں ہو سکتے۔

حکومت کی اس بات کو درست مانا جاناچاہیے کہ ہمارے پاس مطلوبہ وسائل اور اقدامات کی چنداں کمی ہے، پولیوکے روز بروز رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد کو ہی لے لیجیے جو ایک توجہ طلب مسئلہ ہے۔ ساری دنیا ایک ہمسایہ ملک کو چھوڑ کر پولیو فری کا درجہ رکھتی ہے۔ اور ہم ابھی تک اس کے مکمل خاتمہ کے لئے درست اقدامات نہیں کر سکے۔ ڈینگی کا پھیلاؤ ابھی کل کی بات ہے جس پر قابو پانے کے لئے ماہرین کو سری لنکا سے بلانا پڑا تھا۔

حسب توفیق جو کچھ اس وقت کی پنجاب حکومت نے ڈینگی کے خاتمہ کے لئے کیا اس کی روک تھام کو ایک بروقت اقدام کہاجا سکتا ہے۔ یہ بھی سچ کہ اس وائرس سے متاثرین کی اموات کی شرح بہت کم ہے لیکن اس کو یوں کھلے عام نہیں چھوڑا جا سکتا۔ مطلوبہ اقدامات کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دلوں سے خوف دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر رپورٹ ہونے والے کیسز کا تعلق کسی بیرون ملک کے فضائی سفر سے ہے تو عوام کو بھی اس معاملہ میں احتیاط برتنی چاہیے۔ زندہ معاشروں میں ہر کام کو حکومت سے منسوب کرنے سے مشروط نہیں کیا جاسکتا۔

توجہ طلب یہ بھی ہے کہ اب دوہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان جہاں سے اگر بارڈر ایریا کو غیر معینہ مدد کے لئے تالا بھی لگا دیا جائے تو آمد و رفت کے لئے زیر استعمال دوسری ”سیوہیونز“ کا کیا ہوگا۔ انسانی بقاء کے لئے ڈارون ٹھیک کہتا ہے کہ زندہ وہی رہے گا جو ہر محاذ پر اپنے زندہ رہنے کا جواز فراہم کرے گا، کوئی بتلائے کہ ہم بتلائے کیا۔

ڈاکٹر عثمان غنی، میرپور
Latest posts by ڈاکٹر عثمان غنی، میرپور (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments