نغمانہ شیخ کا افسانوی مجموعہ: دھوپ میں جلتے خواب


نغمانہ صاحبہ حقوق نسواں کی عملی تصویر ہیں۔  نغمانہ شیخ کو پڑھنے سے پہلے کلام کرتے ہوئے دیکھا، وہ تقریبات کی نظامت خوبصورتی سے انجام دیتی ہیں۔

حلقہ ارباب ذوق میں مکمل تعارف ہوا، دل نشین انداز میں افسانے اور نظمیں سناتی ہیں، رواں اور سادہ انداز بیاں، لبوں پر تبسم، چمکتی آنکھیں، اور برجستہ جملے بازی، میں ان کی قربت میں سکون محسوس کرتی ہوں، شرارتی جملے بازی یا اختلافی مباحث پر ساتھ دینے کے لئے کوئی موجود ہے، یہ حقیتا دل خوش کن احساس ہوتا ہے، دو دہائیوں سے صحافت اور ادب سے وابستہ ہیں، ایک مقامی ٹی وی چینل پر بھی ذمہ داریاں سر انجام دیتی ہیں، ادبی جرائد میں ان کے افسانے شائع ہوتے رہتے ہیں، کتاب کے حوالے سے جب بھی گفتگو ہوتی ہنس کر ٹال دیتیں، لیکن اولاد اور احباب کے اصرار پر بالاآخر کتاب شائع ہو ہی گئی جو اس وقت میرے ہاتھوں میں ہے، افسانوی مجموعہ جس کا عنوان ہے ”دھوپ میں جلتے خواب“

حاصل مطالعہ یہ ہے کہ ایک باشعور ادیبہ نے بطور انسان کہانیوں کی بنت کاری انسان کے ازلی المیے

” تنہائ“ پر کی ہے، تنہائی اور اس سے پیدا ہونے والی نفسیاتی پیچیدگیاں افسانوں کا موضوع ہیں، اظہار کی کمال پختگی یہ ہے کہ ہر افسانہ نیا پن لئے ہوئے ہے، تخلیقی شان کے ساتھ ایسی شفاف نثر لکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، سترہ افسانوں میں کہانی کا عنصر بہت مستحکم ہے، اسلوب بہت سادہ ہے، ثقافت و ادب کا امتزاج ہے، قاری بہ آسانی افسانے کی جادوگری میں قید ہو جاتا ہے، حقوق نسواں کی علم برداری کے باوصف نغمانہ انسانی حقوق پر بھی گہری نظر رکھتی ہیں، مرد ہو یا عورت، دونوں اصناف کی نفسیاتی پیچیدگیوں پر ادیبہ کی گہری نگاہ ہے ”اختر سوختہ“ کا کردار امجد جس کی نفسیاتی کجی کو بہت درد مندی سے بیان کیا ہے ”جب آنکھیں نہیں روتیں تو سارے کا سارا بدن رونے لگتا ہے، میں وہی بدن بن گیا ہوں“

افسانوں میں خوبصورت جملوں کی ادائیگی دل سوز و دل گیر طرز پر کی گئی ہے جو ذہن کے پردے پر نقش ہو جاتی ہے،

جب زندہ رہنے کے لئے حرام کاری کرنی ہی پڑے تو کیوں نہ عزت کے ساتھ ”حرام زندگی“ گزاری جائے ( مطلقہ)

” فاصلے آہستہ آہستہ مٹنے لگے، سپردگی کے عالم میں پتہ ہی نہیں چلا کہ کب رات نے بھی اپنی چادر اتار دی“ ( تنہائی )

”خدیجہ بھول گئی تھی کہ ہوس کے مارے زلزلے اور معذوری نہیں دیکھتے“

( ایک اور زلزلہ ) ایک اور زلزلہ میرا پسندیدہ افسانہ ہے، جب یہ افسانہ ایک اددبی محفل میں سنایا گیا تو محفل کے شرکاء زلزلے کی زد میں تھے۔

وہ آپ دلہن بنا دی گئی اور اس کی گڑیا کنواری رہ گئی۔ افسانہ ”ہم عمر“ سے ایک سطر

نسائی نفسیات کے خاص پہلو افسانوں نمایاں ہیں، سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، اور کردار اپنے اردگرد نظر آتے ہیں۔ شاید یہ کہانیاں پڑھ کر خواتین اور ان سے جڑے رشتے ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ نغمانہ نے ہماری گرہیں سامنے رکھ دی ہیں کہ ہم خود ہی ان گرہوں کو کھولنے کا فن سیکھیں خاص طور پر خواتین ”کیونکہ عورت ہمیشہ ثواب و عذاب کے درمیان رہتی ہے“ افسانہ تنہائی کی ایک سطر سماج کی خواتین کی کیفیت کی عکاس ہے۔

میری دعا ہے کہ نغمانہ اسی طرح لکھتی رہیں اور سماج کی پیچیدہ گرہیں کھولنے میں رہنمائی کرتی رہیں۔

( کتاب تہذیب انٹرنیشنل سے منگوائی جا سکتی ہے۔ رابطہ نمبر

0334۔ 3609887

03461253149


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments