عورت مارچ ناگزیر کیوں؟


میں جس معاشرے میں پھلابڑا ہوں اس معاشرے میں عورت ایک خادمہ اور لڑکے پیدا کرنے کی مشین کی سواء کچھ بھی اہمیت نہیں رکھتی ان کی جسم پر مرد کی مرضی چلتی ہے۔ عورت ساری عمر مرد کے حکم کی تعمیل کرتی آرہی ہے وہ اپنی مرضی سے کھانا بھی نہیں کھا سکتی انھیں تب کھانا ہوتا ہے جب گھر کے سارے مرد کھانا ہضم کرلیے اس کے بعد جو بچ جائے وہ اس کی نصیب اور اسے وہ نوش فرماسکتی ہیں۔

شادی کس سے کرنے ہے کیوں کرنے ہیں اس کا فیصلہ مرد ہی کرتا ہے اب مرد پر ہی منحصر ہے کہ وہ عورت کی شادی معذور، بزرگ، بچے یا کسی ایسے شخص سے کروائے جس کی پہلے سے دو شادیاں ہوں لیکن وہ امیر ہے وہ عورت کی بدلے میں پیسے (ولور) زیادہ دیے رہا ہے تو وہی حقدار ہے شادی رچانے کے لئے۔

تعلیم تو مذکورہ معاشرے میں شجرِممنوع ہے یہاں تو بیٹی گلی میں بیٹھ کر چاول چھولے بیچ سکتی ہے دکاندار سے نسوار اور سیگریٹ لانے جاسکتی ہے لیکن سکول جانے سے بچی کی والدین کی غیرت مجروح ہوجاتی ہے کیونکہ سوچ یہی پایا جاتا ہے کہ عورت صرف جنسی تعلق کے لئے بنی ہوئی ہے اگر بچی سکول جائے گی اور پڑھ لکھ لیے گئی تو وہ غیر مردوں سے تعلق استوار کر لیے گئی جس سے معاشرے میں والدین کی بدنامی ہوگئی لیکن بیٹوں کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ کسی کی بھی بیٹی کو گھور سکتا ہے ان سے تعلق استوار کرسکتا ہے اس متعلق سوچ یہ ہے کہ مرد کچھ بھی کرسکتا ہے مرد تو مرد ہے اگر وہ بدنام بھی ہوگیا تو وہ شادی تو کرسکتا ہے لیکن جب عورت بدنام ہوتی ہے تو اس سے کون شادی کرے گا۔ اس لیے تعلیمی شرح صفر ہے

مذکورہ معاشرے کے لوگ بڑے پارسا اور دیندار خود کو گردانتے ہیں لیکن بیٹی کو میراث سے اس لیے محروم رکھی جاتی ہے کہ ان کی شادی ہوگئی ہوتی ہے اگر نہیں ہوئی ہو تو تب کہا جاتا ہے کہ اس کی شادی ہمارے اوپر فرض ہے کرا دیں گئے اور پھر بجائے کے اس میراث میں حصہ دیے بلکہ الٹا اس کی شادی کی بدلے میں اس بیٹی یا بہن کی سسرال والوں سے ڈھیر سارے پیسے لے لیتے ہیں اور اس کو عزت سے تعبیر کرتے ہیں کہ فلاں نے اپنی بیٹی یا بہن کا ولور مد میں اتنے لاکھ روپے لیے تو مطلب یہ ہے کہ میراث میں مذکورہ معاشرے میں عورت کا کوئی حق نہیں ہے۔

میرے معاشرے میں عورت کی صحت کا درمدار تعویذوں ِ، زیارتوں اور حکیموں پرہے ان مذکورہ معالجوں سے علاج کروانے سے پہلے ایک بیمار عورت ایک ماہ تو اس امید پر گزار لیتی ہے کہ خودبخود صحت یاب ہوجاؤں گئی۔

اس معاشرہ میں ایک عورت مردوں کی لڑائیوں میں قربانی کا بکرا بھی بنتی ہے فریقین کو راضی کرنے کے لئے یا کسی نقصان کے ازالہ کرنے کے بدلے میں عورت کو دوسرے فریق کے حوالے کی جاتی ہیں اور اس صورت میں نہ تو کوئی باقاعدہ شادی کی سومات اداء کیجاتی ہے اور نہ کوئی جہیز دیا جاتا ہے۔

یہ تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ عورت مارچ پر مرد کا غیرت تو جاگ اٹھتا ہے لیکن کبھی بھی اپنے گریبان میں نہیں جھانکتا کہ ہم کیا کررہے ہیں کہ کہی ہم نے تو عورتوں کو اس مقام پر لاکر کھڑا تو نہیں کیا کہ وہ آج سرکشی پر اتر آئی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments