ڈراؤنے خواب کا قلم


کیا شہر ہے کراچی، کیسے لوگ رہتے ہیں یہاں پر۔ کیا ہوگیا ہے ہم لوگوں کو۔ جو لڑکی پامال ہوئی تھی جیسے لوٹا گیا تھا۔ جس کی مرضی کے خلاف منی بس والے اُٹھا کر لے گئے تھے کسی ویران جگہ پر نہ جانے کون سی جگہ ہوگی گلستان جوہر کے آس پاس، نیو کراچی کی طرف، بلدیہ ماری پور کے راستوں پر ڈیفنس کلفٹن کے ویرانوں میں۔ اس کی آبروریزی کی گئی اس کی عزت کو پامال کیا گیا اور اب وہی میرے سامنے مجرموں کی طرح سرجھکائے بیٹھی ہے۔

کتنے گھٹیا لوگ ہیں ہم ۔ ان بڑی بڑی بلند عمارتوں کے اندر بینکوں کے خوبصورت شیشے والے دروازوں کے پیچھے اسمبلیوں کے اندر قانون بنانے والے،عدالتوں میں انصاف مہیا کرنے کے بلند بانگ دعوے کرنے والے،وردیوں میں لپٹے ہوئے بے حس جسم ،سرکاری ایوانوں میں بیٹھے ہوئے چربی زدہ منحوس چہرے اور طویل وعظ کرنے والے نورانی لوگ کوئی بھی تو اس لڑکی کا درد نہیں بانٹ سکتا ۔ ترقی کے دعوے کرسکتا ہے جنت و جہنم کے درجات بیان کرسکتا ہے قانون کی جزیات پر بحث کرسکتا ہے مگر اس معصوم لڑکی کی زندگی نہیں لوٹا سکتا ہے یہ ایسی ہی زندہ رہے گی کسی مردے کی طرح۔ میرا سر سنسناگیا تھا۔

بے اختیار میرے آنسو نکل آئے مجھے اس کی صداقت پر ایک لمحے کے لیے بھی شک نہیں ہوا ۔ مجھے یقین تھا کہ وہ سب کچھ صحیح کہہ رہی ہے۔ ایک ایک لفظ سچا تھا اس کا۔

میں اپنی کرسی سے اُٹھ کر اس کے قریب بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ پکڑ لیے تھے میں نے۔ آہستہ آہستہ سہلایا تھا ا سکے کاندھوں کو ۔ کچھ فکر نہ کرو بیٹی اور اس وقت تو رونے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تمہیں ہمت کی ضرورت ہے ۔ میں تمہاری مدد کروں گا بالکل بھی فکر نہ کرو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں ڈاکٹر غزالہ نے کچھ سوچھ سمجھ کر ہی تمہیں میرے پاس بھیجا ہے۔ تم کو مجھ پر بھروسہ کرنا ہوگا۔

میرے پاس تو کوئی چارہ نہیں ہے ہے ڈاکٹر صاحب۔ میں آپ پر بھروسہ نہیں کروں گی تو کس پر کروں گی۔ میری ماں اور میرے بھائی بہنوں کی زندگی آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے میں تو اتنی مجبور ہوں کہ خودکشی بھی نہیں کرسکتی ہوں ،جان بھی نہیں دے سکتی ہوں۔ اگر مجھے کچھ ہوگیا تو گھر میں جو روٹی پکتی ہے وہ بھی نہیں پک سکے گی۔میری ماں ہے دو چھوٹے بھائی اور دو چھوٹی بہنیں۔ ان سب کی زندگی کا دارومدار مجھ پر ہے ابا کے مرنے کے بعد سے۔

اس کو پامال کرنے کے بعد وہ ڈرائیور اور کنڈیکٹر اسے ایک بس اسٹاپ پر پھینک کر چلے گئے تھے۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اپنی ماں کو بتاتی تو وہ پریشان ہوجاتیں اور شاید اسے ٹیوشن پڑھانے سے روک دیتیں۔ اگر وہ ٹیوشن نہیں پڑھاتی تو پھر گھر کا خرچ کیسے چلتا۔ باپ کے مرنے کے بعد سے ایک ماموں تھا جو ہر مہینے ان کی مدد کرتا تھا مگر وہ خود بھی کوئی امیر آدمی نہیں تھا بڑی مشکلوں سے گھرکی گاڑی چل رہی تھی۔ ماں بے چاری خود بھی کپڑے سی سی کر گذارہ کررہی تھی۔ گھر ان کا خود کاتھا جو اس کے والد کو وراثت میں ملا تھا۔

مجھے اندازہ تھا کہ گھر پر کیا گزری ہوگی جب گھر میں واحد کمانے والا ہو اور ملازمت پیشہ ہو تو اس کے یکایک مرجانے پر کیا ہوتا ہے۔ خود میرے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ میرے والد صاحب کھانس کھانس کر ٹی بی سے مرگئے تھے۔ میرے دادا ،چچا، تایا اور پھوپھا پاکستان آئے ہی نہیں تھے۔ اور نہ میری ماں کو پتہ تھا کہ یوپی کے کس شہر کے کس گاؤں میں رہتے ہیں۔ میرے والد کی موت کے بعد ہماری زندگی پتہ نہیں کیسے گزری تھی۔ میری ماں نے بچوں کو پڑھایا تھا، گھر میں کپڑے سیئے تھے شاید لوگوں کے گھروں میں کام بھی کیا تھا لیکن کسی نہ کسی طرح ہم دونوں بھائیوں کو پڑھادیا تھا۔

بڑا بھائی جمال پولی ٹیکنک سے ڈپلومہ کرکے سعودی عرب چلا گیا اور میں ڈاکٹر بن گیا ۔ لیکن میری ماں کا یہ سفر بہت کٹھن تھا مجھے اندازہ تھا کہ کتنے کس مپرسی میں گزارہ کیا تھا انہوں نے۔ غربت کے جہنم سے نکلنے کے لیے کیا کیا پاپڑبیلے تھے ہم لوگوں نے۔ مگر پھر بھی شاید وہ زمانہ اچھا تھا۔ جمہوریت اس وقت بھی نہیں تھی۔ لیکن شاید سماج میں انصاف تھا، پولیس والے پولیس والے تھے، جج بھی انصاف کے ترازو کو انصاف کا ترازو سمجھتے تھے انصاف کا کاروبار نہیں کرتے تھے۔ اس وقت سڑک پر دندناتے ہوئے ٹرکوں سے معصوم شہریوں کو کچلا نہیں جاتا تھا۔ بسوں میں باعصمت لڑکیوں کی عزتیں نہیں لوٹی جاتی تھیں۔ میں نے دل ہی دل میں شکر کیا کہ میری ماں آج کے زمانے میں بیوہ نہیں ہوئی تھی۔

آج بھی جمہوریت نہیں ہے ہمارے پاس۔ مگر ایٹم بم ہے، ایف سولہ کے جدید لڑاکا طیارے ہیں۔ سمندر کے نچلی تہہ میں تیرنے والی خوفناک آبدوزیں ہیں۔ ہر طرح کے سیاسی مذہبی رہنماؤں کی گہما گہمی ہے جلوس ہیں جلسے ہیں وزیروں جرنیلوں اسمبلیوں کے ممبروں کی پجارو اور بلٹ پروف کروڑوں اربوں کی مرسڈیزکاریں ہیں مگر انصاف نہیں ہے۔ اب ٹرک اور بسوں کے نیچے راہگیروں کو معصوم بچوں کے باپوں کو ماؤں کے بیٹوں کو اور بہنوں کے بھائیوں کو قتل کیا جاسکتا ہے اور ماؤں بہنوں کی عزتوں کو سڑکوں پر پامال کیا جاسکتا ہے۔نا قاتل گرفتار ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ ڈرائیور جو شہریوں کونشے میں کچل دیتے ہیں یا بچیوں کو بسوں،وین یا ویرانوں میں پامال کردیتے ہیں۔ میں سوچتا رہ گیا تھا۔

تم نے اب تک حمل کو کیسے چھپایا ہوا ہے میں نے سوال کیا تھا۔

ڈاکٹر صاحب میں ہمیشہ سے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنتی رہی ہوں ہمیشہ اپنے جسم کو اس کوٹ سے ڈھانپ کر رکھا ہے یہی میری ماں نے سکھایا تھا مجھے اور اس کوٹ میں ڈھیلے کپڑوں میں حمل بھی چھپا رہا ہے۔ صرف زندہ رہنے کے لیے کھارہی ہوں اسی لیے شاید وزن بھی نہیں بڑھا ہے میرا۔ اس نے جواب دیا تھا۔

میں نے اس کا معائنہ کیا وہ صحیح کہہ رہی تھی وہ کمزور تھی اور اس کا وزن بھی کوئی خاص نہیں بڑھا تھا۔ڈھیلے ڈھالے کپڑوں میں حمل بالکل بھی نمایاں نہیں تھا۔

میں نے اسے سمجھایا کہ اس مرحلے پر حمل ضائع نہیں کیا جاسکتا اور اگر کوشش کی گئی تو اس کی وجہ سے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ شاید تمہیں ہسپتال میں داخل کرنا پڑے، شاید تمہارے گھر والوں کو پتہ لگ جائے۔ ابھی تو کسی نہ کسی طرح سے حمل کو آگے تک جانے دو۔ بتیس، چونتیس ہفتوں پر میں کچھ ایسا انتظام ہوجائے گا کہ بچہ بھی ہوجائے جسے ہم اپنے کسی ایسے مریض کو دے دیں جنہیں بچے کی ضرورت ہے ۔اور اوپر والے نے چاہا تو کسی کو پتہ بھی نہیں لگے گا۔ تم اسی طرح سے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنتی رہو۔اب تھوڑا سا وزن ضرور بڑھے گا۔ تمہیں تھوڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ اپنے آپ کو مصروف رکھو، اپنے کام سے کام رکھو یا کوئی مسئلہ ہو تو فوراً ہی مجھے میرے موبائل فون پر فون کرنا ۔ہم تمہارامسئلہ حل کریں گے، بالکل بھی فکر نہ کرو۔تم اس مرحلے سے نکل آؤ گی…… ضرو ر نکل آؤ گی۔
اس کے بے اطمینان چہرے پر تھوڑا سا قرار آیا تھا۔

میرے پاس ایسے مریضوں کی فہرست موجودہے جو بانجھ پن کا علاج کرانے ہمارے وارڈ میں رجسٹرڈ تھے اور جن کے بانجھ پن کا علاج ممکن نہیں تھا۔ ایسے مریض ہمیشہ کسی لاوارث بچے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ میں نے دوسرے دن ہی ایک ایسے جوڑے کو بلایا تھا۔ وہ دونوں ہی فوراً میرے منصوبے پر راضی ہوگئے۔ وہ بنیادی طور پر بہت اچھے، پڑھے لکھے اور معاشی و سماجی طور پر مستحکم تھے۔ انہیں بتایا گیا کہ جب بھی بچے کی پیدائش ہوگی وہ بچہ انہیں اڈاپشن کے لیے مل جائے گا ۔ ہسپتال میں کافی خرچہ ہوسکتا ہے، ممکن ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ بہت چھوٹا ہو اوراسے انکیوبیٹر میں رکھنا پڑے۔ آپریشن کا خرچ اور انکیوبیٹر وغیرہ کی فیس سب انہیں دینی پڑے گی۔ ان لوگوں نے ہر طرح سے مدد کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ دونوں میاں بیوی کے موبائل نمبر گھر اور آفسوں کے نمبر لے گئے تھے۔

وقت گزر تا گیا دو دفعہ اسے اپنے آفس میں ہی دیکھا ۔وہ مطمئن تھی مگر خوف زدہ بھی۔ ہر دفعہ اسے یقین دھانی کرائی تھی کہ اسے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وقت آنے پر سب کچھ صحیح ہوجائے گا۔
اس کاچونتیس واں ہفتہ ختم ہی ہوا تھا کہ شام کو اس کا فون آیا ۔
ڈاکٹر صاحب میری امی مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ میرے جسم پر ورم آرہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب وہ بہت پریشان ہیں ان کے چہرے پر بے شمار سوالات ہیں ڈاکٹر صاحب وہ مجھے ہر صورت میں کسی ڈاکٹر کو دکھانا چاہتی ہیں۔ بڑا مسئلہ ہوجائے گا ڈاکٹر صاحب اس کی آواز سے اندازہ ہوگیا کہ وہ بہت پریشان ہے۔

اسے دوسرے دن صبح ہی صبح ہسپتال بلالیا گیا اس تاکید کے ساتھ کے رات بارہ بجے کے بعد وہ کچھ نہیں کھائے۔ شہر کے ایک اچھے اور مہنگے ہسپتال میں اس کا آپریشن کرکے بچہ پیدا کرادیا گیا تھا۔اس آپریشن کے ساتھ ہی بچی کا اپنڈکس بھی نکال دیا گیا تھا۔ بچے کو نرسری میں رکھنے کی ضرورت تھی کیونکہ وقت سے پہلے بچہ دنیا میں لے آیا گیا تھا۔آپریشن کے چار گھنٹوں کے بعد اسے اس ہسپتال سے ڈسچارج کرکے ایک دوسرے ہسپتال میں منتقل کرادیا گیا تھا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments