خلیل الرحمن قمر نے اپنی اصل شکل دکھا دی


ہمیں قطعی حیرت نہیں ہوئی کہ کس آسانی سے تم نے کروڑوں عوام کے سامنے منہ در منہ مغلظات بکیں۔ ہم اس لئے شانت رہے کہ ہمیں علم ہے ہر کمزور مرد کے پاس جب دلائل کی کمی ہو جائے، کہنے کو کچھ نہ رہے اور مردانگی جوش مارے تو منہ سے ایسے پھول ہی جھڑا کرتے ہیں۔ ہمیں ان الفاظ کے سننے پہ غم بھی نہیں ہوا کہ ہمارے معاشرے کی خواتین کی اکثریت ایسے بدصورت پھول اپنے دامن میں سمیٹنے کی عادی ہے۔

تم عورت کے جسم کو کتنا حقیر جانتے ہو یہ آج علم ہو گیا۔ کس آسانی سے تم نے ایک عورت کو بھرے مجمعے میں بتا دیا کہ اس کے جسم میں کچھ بھی نہیں۔ ویسے یہ “کچھ نہیں” کی تشریح کرو گے تم کہ “کچھ” میں “کیا کچھ” گنتے ہو تم؟ اور کیا “ کچھ” ہو گا تو تم اپنا لعاب دہن یا تمہاری زبان میں” تھوک”عنایت کرو گے؟

پورے ملک کے سامنے ایک عورت کے لگائے گئے ایک نعرے پہ اتنا اشتعال، اتنے آگ بگولا ؟ لگتا ہے تمہارا خمیر کسی زہر آلود مٹی سے اٹھا ہے۔ تمہارا مزاج تشدد کی چغلی کھاتا ہے، تمہارے ننگے الفاظ تمہارے اندر کی بدصورتی کو نمایاں کرتے ہیں۔ تمہارا انتہائی سخت اور جارحانہ لہجہ تمہاری اصل شخصیت کے پول کھولتا ہے۔ تمہارا غرور بتاتا ہے کہ کون بے ادب، ادب کی چادر کی جھوٹی اوٹ لئے معاشرے میں پاگل پن کا بیج بو رہا ہے۔

لیکن ہمیں تو شکریہ ادا کرنا ہے تمہارا کہ تم نے دکھا دیا کہ ہمارے معاشرے کے اکثر مردوں کی اصلیت کیا ہے؟ وہ عورت سے مخاطب کیسے ہوتا ہے؟ عورت پہ چنگھاڑتا کیسے ہے ؟ عورت کو کتنا غلیظ سمجھتا ہے؟ عورت کو کوڑا دان سمجھتے ہوئے کیسے اپنے مزاج کی کڑواہٹ اس پہ انڈیلتا ہے؟ عورت کو اپنے جیسا انسان سمجھنا تو دور کی بات، اسے دو کوڑی سے بھی ارزاں سمجھ کے اس کی عزت نفس تار تار کرنا اسے چنداں گراں نہیں گزرتا۔

آخر تمہارا دماغ تمہیں کیوں سجھاتا ہے کہ “میرا جسم میری مرضی” کا معنی صرف وہی ہے جو تم اور تمہارے جیسے بہت سے مرد ازل سے جانتے ہیں اور شاید برت برت کے جانتے ہیں۔ خریدار بھی تم خود اور قاضی بھی خود!

ہمیں افسوس ہے کہ تمہارے نزدیک عورت کے جسم کا مصرف ایک ہی ہے کہ وہ تم اور تم جیسوں کی خلوتوں کی ساتھی رہے۔ تمہاری محدود و ناقص عقل جان ہی نہیں سکتی کہ عورت صدیوں سے حق تلفی کی زندگی گزارتے گزارتے، اپنے آپ کو پامال کرواتے، زندہ درگور قفس میں تھک چکی ہے۔ اب اسے تمہارے پڑھائے ہوئے مصنوعی وفا اور غیرت کے درس سمجھ میں نہیں آتے۔ وہی غیرت جو مرد کو ہاتھ اٹھانے اور زندہ درگور کرنے کا حق دیتی ہے اور وہی جھوٹی وفا جو عورت کو جسم کے پردے میں لپٹی ہوئی روح کو قربان کرنے کی تلقین کرتی ہے۔

جان لو آج اور سمجھ بھی لو کہ “جسم اور مرضی” نشان ہیں عورت کی شخصیت کے، جہاں وہ اپنے حق کی بات اور اپنی ذات کے دفاع کے طور پہ اس نعرے کو علامتی طور پہ استعمال کرتے ہوئے بتا رہی ہے کہ اس کا جسم جو ہمیشہ مرد کی نسبت سے معتبر ٹھہرتا ہے، اب اس نسبت کا تعین عورت کو خود کرنا ہے۔

اب اسے سوارہ نہیں بننا، ونی یا کاری نہیں ہونا، کنول پھول نہیں بننا، اپنے ختنے نہیں ہونے دینا، طلاق کے حق سے منہ نہیں موڑنا، چہرہ تیزاب سے نہیں جھلسوانا، پھٹتے چولہے کے سامنے نہیں مرنا، اسے کم عمر دلہن اور ماں نہیں بننا، اپنے جسم کو بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں بنانا، ریپ نہیں ہونا، فحش جملے نہیں سننے، گرسنہ آنکھوں اور راہ چلتے ناپاک ہاتھوں کا لمس برداشت نہیں کرنا، قرآن سے نکاح نہیں پڑھوانا، کردار کی پاکیزگی ثابت نہیں کرنی، منہ پہ تھپڑ نہیں کھانے، اپنے جسم کو زدوکوب نہیں کروانا اور موت کے گھاٹ نہیں اترنا۔ اسے ایک انسان کے طور پہ جینے کے لئے تمہاری اجازت نہیں چاہیے۔

تمہیں آج کی عورت سے بہت چڑ ہے نا کہ یونیورسٹی کی فارغ التحصیل معاشرے کی اقدار خراب کرنے کو تلی بیٹھی ہے۔ گھر میں قید پابند سلاسل کو پندار نفس کا سبق پڑھا کے بہکا رہی ہے۔

آؤ تمہیں پچھلے زمانوں کی ایک خود شناس، وفادار، باکردار، سادہ لوح ، خدمت گزار لیکن اپنی ذات کا احترام اور عزت نفس رکھنے والی ایک عورت کا قصہ سناؤں جس نے برسوں پہلے “میرا جسم میری مرضی” کا سبق عام کیا۔

گاؤں کی رہنے والی، پانچ جماعت پڑھی لکھی، زندگی کا ساتھی یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ اور انتہائی مہذب، آپس میں بھرپور محبت، عزت اور گھر جنت کا نمونہ۔

اردگرد گالیاں کھا کے ذلیل ہونے اور پٹنے والیوں کی کمی نہیں تھی۔ اکثر کے شوہر جب چاہتے، مار پیٹ کے بعد کان سے پکڑ، نکال باہر کرتے۔ روتی پیٹتی میکے کو آتیں اور پھر کچھ عرصے بعد کان پکڑ کے معافی نامہ کرکے واپس جاتیں۔ ان عورتوں کو دیکھ کے وہ بے حد بدمزہ ہوتیں اور کہتیں،

” اگرمیرا شوہر ایسا کرے تو میں فوراً گھر چھوڑ دوں اور پھر کبھی واپس نہ جاؤں “

پاس سے کوئی بچہ چٹکلا چھوڑتا

” لیکن کہاں رہیں گی آپ؟ گزارا کیسے کریں گی؟ نوکری کے لئے ڈگری تو ہے نہیں”

” ارے اپنی آن سے کچھ بڑھ کے نہیں۔ ڈگری نہ سہی، ہاتھ میں ہنر تو ہے۔ کپڑے سی لوں گی، کڑھائی کر لوں گی، آیا گیری کر لوں گی۔ یہ جو جسم ہے نا اس سے محنت مشقت کر لوں گی لیکن نہ گالی کھاؤں گی اور نہ تھپڑ”

یہ تھی میری ماں!

“میرا جسم میری مرضی” کی مکمل تفسیر!

جو علی الاعلان ہم بہنوں سے کہتی تھیں

” تم لوگوں کو میں نے اعلیٰ تعلیم ہی اس لئے دلوائی ہے کہ اپنی زمین اور اپنا آسمان خود دریافت کرنا۔ اپنے آپ کو شوہر کی زیادتی کا شکار مت ہونے دینا۔ بس اپنا کمانا اور عزت کی کھانا “

خلیل الرحمن قمر !آواز بلند کرنا بہت آسان ہے، کسی دوسرے کو حقیر جاننا بھی انتہائی سہل۔ تمہیں اپنے تلخ خیالات، سستی سوچ اور مرد ہونے کا گھمنڈ یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیتا کہ تم کس پاتال میں جا گرے ہو۔ تم کیا جانو کہ آدمی سے انسان بننے کی محنت کیا کچھ خرچ ہوتا ہے۔ تم ابھی اس منزل سے کوسوں دور ہو۔

سو کہتے رہو، جتنا اونچا بولو گے اپنا کردار دکھاؤ گے۔

تمہارے کہے اور کیے کی وضاحت دینے والے تمہارے بھائی بند جنہیں لگتا ہے کہ تم ایک عورت کے اشتعال دلانے سے اپنا ضبط کھو بیٹھے، تمہیں خدا جیسا بنا کے تمہارے جھوٹے طنطنے کو سہارا دینے میں مصروف ہیں۔دماغ میں تو عورت کے لئے ایک ہی خیال راسخ ہے نا “ ذات دی کوڑھ کرلی تے شہتیراں نوں جپھے”

ایک پاؤں میں پڑی مخلوق کے ہاتھوں صرف چار الفاظ” میرا جسم، میری مرضی” بولنے پہ ایک مصنوعی دیوتا اپنے غیظ وغضب کے زور پہ کیسے منہ کے بل آ گرتا ہے، یہ تین مارچ ، 2020 کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے رقم ہو چکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments