میں مرد ہوں اورعورت مارچ کا حامی ہوں


اس بات میں دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں کہ اسلام نے بطور مذہب مجھے عورتوں کا احترام کرنا سکھایا ہے۔ پیدا کرنے والی ماں ہو، دل کا سکون بیٹی ہو، غموں کی ساتھی بہن ہو، یا زندگی کی ساتھی بیوی، اسلام نے تمام رشتوں کے نہ صرف حقوق بتا دیے ہیں بلکہ ان رشتوں کو بھی سمجھا دیا ہے کہ وہ بطور مرد میری بات کیسے مانیں۔ کس طرح میرے سکون کا خیال رکھیں اور خاندان کے سربراہ کے طور پر کیسے میری خواہشات کا احترام کریں، جائز خواہشات، جائز ضد، جائز حکم۔ لہذا مجھے یہ کہنے میں کوئی شرمندگی، پریشانی یا جھجک نہیں ہے کہ میں عورتوں کے عورت مارچ کا حامی ہوں۔ اور مکمل ان کا ساتھ بھی دوں گا۔

لیکن ایک لمحہ رکیے، اگر میں عورتوں کے مارچ کا حامی ہوں اور ان کی سپورٹ کا وعدہ بھی کر رہا ہوں۔ اور ہر فورم پر ان کی آواز بننے کی ذمہ داری بھی نبھانے کو تیار ہوں تو عورت مارچ کے کرتا دھرتا منتظمین یقینی طور پر میری مدد کے لیے کچھ میری باتیں بھی مانیں گے۔ میں اس مارچ کی حمایت غیر مشروط طور پر کر رہا ہوں۔ مجھے اس حمایت کے بدلے نہ تو کوئی شہرت چاہیے، نہ ہی مجھے کسی بھی بڑے فورم پہ سراہے جانے سے غرض ہے اور نہ ہی میں اس بات کا طلبگار ہوں کہ میری خدمات کے صلے میں کسی بینر پر میرا نام چھاپا جائے۔ کیوں کہ میں عورت مارچ کا باقاعدہ حصہ ہوں۔ اور اب اس مارچ کا ہر فورم پہ دفاع بھی کروں گا لہذا منتظمین سے گزارش ہے کہ میری کچھ گزارشات کو بھی ہمارے اس عورت مارچ کا حصہ بنا لیجیے۔ یہ یقینی طور پر عورت مارچ کے لیے بہت بہتر ہو گا۔

پہلی گزارش، اس عورت مارچ کا حصہ بھٹے پہ کام کرنے والی وہ عورت بھی ہونی چاہیے جو ساری زندگی بھٹہ مالک کی حبس بے جا میں رہتی ہے۔ قرض کی زنجیر اتنی مضبوطی سے اس کے گرد جکڑی جاتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ اس بھٹہ مالک کی قید میں رہتی ہے۔ اسے اتنا کھانا پانی میسر آتا ہے کہ صرف سانس کی ڈور چلتی رہے۔ اور صبح تڑکے کام پہ جانے کے بعد رات گئے اسے نرم بستر کے بجائے گھاس پھوس سے بنے بستر پہ سونا پڑتا ہے۔

سونا نہ کہیے بلکہ اسے قید میں رہنا پڑتا ہے کیوں کہ اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ وہ حالات سے تنگ آ کر بھاگ نہ جائے۔ لہذا اس عورت مارچ کا کوئی ایک نعرہ، کوئی ایک تقریر، کوئی ایک صف اس کے نام ہونی چاہیے۔ یقین مانیے میں عورت مارچ کا حامی ہوں۔ صرف اپنے چیف سپورٹر کی اتنی سی گزارش مان لیجیے کہ کسی اینٹوں کے بھٹے پہ قید بامشقت کا شکار ایسی خواتین کو آزاد کروائیے۔ ان کا قرض اپنے پلے سے ادا کیجیے۔ اور پھر ان کو اپنے عورت مارچ کی پہلی صف میں کھڑا کر دیجیے۔ کیا منظر ہو گا پھر، واہ۔

دوسری گزارش، پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں غریب بیٹیاں تیزاب گردی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ میڈیا کے سامنے تو اتنے ہی کیسز آتے ہیں کہ جنہیں آپ سمندر کی تہہ تک جاتے برفانی تودے کا ایک کونا کہہ سکتے ہیں۔ آٹے میں نمک کے برابر کچھ حادثے سامنے آ پاتے ہیں اور اکثر ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ آپ سے بطور چیف سپورٹر عورت مارچ دوسری یہ گزارش ہے کہ پورے ملک کا سروے کیجیے اور صرف امداد یا اپنی این جی او کا نام چمکانے کے بجائے ایسے اصل جرات کے نشانوں کو تلاش کیجیے جو تیزاب گردی کے باوجود ہمت نہیں ہار تیں۔

آپ ان کی ہمت بنیں۔ صرف اپنی تنظیم یا ادارے کا نام بڑھانے کے بجائے ان کا ایسے ساتھ دیجیے کہ ان کا مناسب علاج کروائیے۔ اور ان کے عدالتوں میں التواء کا شکار کیسز لڑئیے۔ ان کو فتحیاب کیجیے۔ اور ان کو فتح دلوانے کے بعد آپ ان کے نام کے بینر بنوائیے اور پھر ان کو عورت مارچ کے ہراول دستے میں شامل کر لیجیے۔ یہ میرے جیسے عورت مارچ کے چیف سپورٹر پہ آپ کا احسان ہو گا۔

تیسری گزارش، پاکستان جیسے ملک میں جہاں معاشرتی ناسور ہماری بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ وہاں ہزاروں بیٹیاں شادی کی عمر گزر جانے کے بعد بالوں میں چاندی سمیٹے گھر کی دہلیز پہ منتظر بیٹھی ہیں، جہیز کا انتظام نہ کر سکنا، ان کے والدین کا جرم بن گیا ہے۔ معاشرے میں اکا دکا ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں جہیز سے نہیں انسان سے مطلب ہے لیکن اکثریت جہیز کی طلبگار ہے اور مزدوری کرکے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے والے باپ کے لیے جہیز کا بندوبست کرنا ممکن نہیں ہے۔

نتیجتاً بیٹی کی شادی کی عمر گزری جا رہی ہے۔ وہ باپ کو تو مسکرا کے سہارا دے سکتی ہے۔ لیکن تنہائی میں اس کے آنسو کیوں کہ کوئی دیکھ نہیں سکتا لہذا وہ جی بھر کے بہاتی ہے۔ آپ سے چھوٹی سی درخواست ہے کہ عورت مارچ کے منتطمین میں سے چند لوگ منتخب کر کے ایک کمیٹی بنائیے جس کا کام ہی یہ ہو کہ وہ پورے ملک سے ایسی بیٹیوں کا ڈیٹا جمع کر کے پھر پورے ملک میں ایک مہم چلائے کہ برسرروزگار لڑکوں سے ان کی شادیاں کروائیے۔

مردانگی کے اصل استعارے ایسے مرد جو جہیز (ضروریات زندگی اور جہیز میں فرق کرنا سیکھیے ) جیسی لعنت پہ واقعی لعنت بھیجتے ہوئے ان لڑکیوں کو اپنائیں۔ اور اس رشتے کے جوڑنے میں یہ عورت مارچ کے منتظمین اپنا کردار ادا کریں۔ یہ یقینی طر پر عورت کی بالادستی کی جانب ایک قدم ہو گا۔ اس کے ساتھ جہیز کے خلاف مہم شروع کیجیے۔ اور کچھ نہ سہی تو عورت مارچ کے رنگ برنگے بینرز میں سے کچھ بینرز پہ جہیز کے خلاف نعرے لکھوا دیجیے۔

چوتھی گزارش، پاکستان میں لاکھوں ایسی خواتین موجود ہیں جو نامساعد حالات اور خاندانی حالات کے ستانے کے بعد ورکنگ وویمن بن جاتی ہیں۔ انہیں دفاتر میں ملازمت اختیار کرنا پڑتی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ میری عورت مارچ کی کئی ساتھی تو شوق میں ملازمت کرتی ہیں کہ انہیں عورتوں کی بالادستی کو نافذ کرنا ہے۔ لیکن ایسی لاکھوں خواتین جو بآ امر مجبوری اپنے خاندان کا سہارا بننے کے لیے گھر سے باہر قدم نکالتی ہیں۔ میں کیوں کہ عورت مارچ کا سب سے بڑا داعی ہوں اب لہذا اس چھوٹی سی گزارش پہ غور کیجیے کہ ہمارے اس عورت مارچ کے کچھ نعرے، کچھ بینر، ایسی عورتوں کے حوالے سے بھی موجود ہوں جو ہراسمنٹ کا نہ صرف شکار ہوتی ہیں بلکہ وہ یہ کسی کو بتا بھی اس لیے نہیں سکتیں کہ ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور خاندان کا شیرازہ بکھر جائے گا۔

اور ہمیں تھوڑی سی محنت تو کرنا ہو گی، لیکن مجھے اپنے عورت مارچ کے منتظمین پہ پورا بھروسا ہے، کہ ہمیں ایسے دفاتر کا رخ کرنا ہو گا، ایسی فیکٹریوں کا رخ کرنا ہو گا، ایسے کارخانوں میں جانا ہو گا جہاں مجبور عورتوں سے بیگار کیمپ جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ اور ان کی اجرت بھی وقت پر نہیں دی جاتی۔ اور مجھے یقین ہے کہ عورت مارچ کی انتظامیہ میرے اس مطالبے یا گزارش پہ غور کرئے گی کہ ایسی خواتین کو ان کا حق دلانے کے لیے جہدو جہد کی جائے گی۔ اور ایسی فیکٹریوں، کارخانوں، دفاتر کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی جو عورتوں کو ان کی باقاعدہ اجرت دینے سے پہلوتہی کر رہے ہیں۔

پانچویں گزارش، میں عورت مارچ کے انتظامات میں مصروف ہوں۔ اس لیے میری عورت مارچ کی انتظامیہ سے ایک اور گزارش ہے کہ ایک پریس کانفرنس کی ضرورت ہے، ایک پریس ریلیز کی ضرورت ہے۔ اور ایک احتجاج کی ضرورت ہے عورتوں کو وراثت میں ان کا جائز حصہ دلوانے کے لیے۔ مذہب و قانون کے بتا دینے اور تشریح کر دینے کے باوجود وطن عزیز میں لاکھوں خواتین ہیں جو وراثت سے محرومی کے بعد بیوگی کا روگ اپنائے ہوئے ہیں۔ اور وراثت سے باہر کر دینے کی وجہ سے معاملات زندگی ان کے لیے مشکل ہو رہے ہیں۔

بیوگی چھوڑیے، یہاں زندہ ہوتے ہوئے بھی باپ بھائی وراثت میں عورت کا حصہ اپنے نام کروا لیتے ہیں۔ میری عورت مارچ کی انتظامیہ سے گزارش ہے کہ میں تو آپ کے ساتھ ہوں لیکن میرے جیسے بہت سے لوگ بھی آپ کے ایسی عورتوں کے لیے احتجاج کے بعد آپ کا ساتھ دینے پہ مجبور ہو جائیں گے۔ وراثت سے محروم خواتین کے لیے احتجاج کیجیے، میڈیا میں جائیے، اور ان خواتین کے حقوق ان کو دلانے کے لیے عدالتوں میں قانونی جنگ لڑنے کا بندوبست کیجیے۔ یقین کیجیے آپ کے اس فیصلے سے صرف خواتین نہیں بلکہ مرد حضرات کی اکثریت بھی عورت مارچ میں آپ کے ساتھ کھڑی ہو جائے گی۔

یہ کچھ گزارشات اگر پوری ہو پائیں تو کچھ اور گزارشات کی باری آئے۔ راقم الحروف کا تو مسئلہ ہی نہیں، میں تو عورت مارچ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ میں ایک مرد ہوں، لیکن عورت مارچ کا حامی ہوں۔ لیکن مندرجہ بالا چند گزارشات پہ اگر غور فرما لیں تو یقین جانیے کہ کئی اور لوگ بھی جو فیصلہ نہیں کر پا رہے وہ آپ کے ساتھ آ کھڑے ہوں گے۔ عورت مارچ کیوں نہ ہو بھلا۔ عورتوں کے حقوق کے خلاف کون فاتر العقل انسان جا سکتا ہے۔

ہمارا تو ماننا ہی یہی ہے کہ عورت اس کائنات کی حسین ترین مخلوق ہے۔ یہ ماں کے روپ میں بچے کو خشک جگہ سلاتی ہے اور خود گیلی جگہ سو جاتی ہے۔ یہ بہن کے روپ میں بھائی کی پریشانی بناء بتائے ہی جان جاتی ہے۔ یہ بیٹی کے روپ میں باپ کے گھر آنے پہ باپ کے منہ سے الفاظ کہے بناء ہی جوتے سامنے لا رکھتی ہے اور پانی کا گلاس پیش کرتی ہے۔ یہ بیوی کے روپ میں شوہر کی ہر پریشانی میں اس کے ساتھ آ کھڑی ہوتی ہے اور مرد ہر پریشانی کا مقابلہ ایسی شریک حیات کے ہوتے ہوئے کر جاتا ہے۔ ہم بھلا عورت کے حق کے مخالف کیوں کر ہوں گے۔

فیصلہ لیکن یہاں کرنا ہو گا کہ عورت مارچ کیا واقعی عورتوں کے حقوق کے لیے ہے؟ اگر واقعی حقوق کے لیے ہے تو بھٹے پہ کام کرنے والی عورت، تیزاب گردی کا شکار عورت، ریپ سہنے والی عورت، غیرت کے نام پہ قتل ہونے والی عورت، خاندانی جھگڑوں کا ایندھن بننے والی عورت، معاشرے میں بیوہ ہو جانے پہ دھتکاری جانے والی عورت، جہیز نہ ہونے پہ شادی نہ ہونے والی عورت، دفاتر، کارخانوں، فیکٹریوں میں مشکلات کا شکار عورت، وراثت سے محروم عورت، اس عورت مارچ میں نظر آنی چاہیے۔ اس عورت مارچ میں ایسے مظالم کا شکار عورتوں کے نام کے نعرے نہیں ان کی عملی سطح پہ مدد نظر آنی چاہیے۔

اگر صرف ننگی سوچ، فحش گوئی، بدتمیزی، صنف مخالف کی تذلیل، مخصوص لابی کے مقاصد ہی عورت مارچ کی شان ہوں گے تو معاف کیجیے گا کہ میں جو مرد عورت مارچ کا حامی ہوں وہ اس غیر اخلاقی دیوالیہ پن کا حامی نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments