عورت مارچ: برابری کے لیے یا برتری کے لیے


گزشتہ دنوں ایک نیوز چینل پر خاتون میزبان کی موجودگی میں عورت مارچ کے عنوان پر ایک مباحثہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جس میں پاکستانی تاریخ کے سب سے کامیاب قرار دیے جانے والے ڈرامے کے مصنف نے امریکہ میں مقیم ایک لبرل خاتون تجزیہ کار کے لیے انتہائی ”دو ٹکے“ کے الفاظ استعمال کیے۔ جس کے بعد آٹھ مارچ کو ہونے والے عورت مارچ سے پہلے ویسا ہی سنسنی خیز ماحول بن گیا ہے۔ جیسا کسی ریلیز ہونے والی فلم سے پہلے اس فلم کی ہیروئن کی کوئی متنازع ویڈیو سامنے آنے کے بعد بنتا ہے۔

مذکورہ مباحثے میں گفتگو کا موضوع عورت مارچ کا انعقاد تھا اور بظاہر عورتوں کے حقوق کو تسلیم کرنے والے مصنف، عورت مارچ کے نہیں بلکہ اس مارچ میں سامنے آنے والے ایک مطالبے ”میرا جسم، میری مرضی“ کی مخالفت میں فلسفیانہ انداز میں دلائل دے رہے تھے اور پھر مصنف اور تجزیہ کار کے درمیان دو دو ٹکے کے جملوں کا تبادلہ کیا جانے لگا۔

آج کل ٹی وی پروگراموں اور ہمارے سماج میں آٹھ مارچ کو ہونے والے عورت مارچ کا انعقاد زیر بحث ہے اور پچھلے سال سامنے آنے والا ”میرا جسم، میری مرضی“ کے مطالبے پر سب سے زیادہ بحث کی جارہی ہے۔ جس کی ہر کوئی علیحدہ علیحدہ تشریح کررہا ہے۔

عورت مارچ منتظمین کے مطالبات جاننے اور اس مطالبات کے مخالفین کے اعتراضات کو اگر سمجھا جائے تو درحقیقت دونوں فریقین کے درمیان تنازع خواتین حقوق کی عدم دستیابی یا خواتین کے حقوق پامال کیے جانے کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ عورت مارچ کے ذریعے خواتین کے لیے ایسے حقوق کا مطالبہ ہے۔ جو بظاہر عورتوں کو مردوں کی برابری حاصل کرنے کے لیے مانگے جارہے ہیں۔ لیکن درحقیقت ان مطالبات کے ذریعے یہ باور کروایا جارہا ہے کہ جو کچھ مرد، خواتین کے ساتھ کرتے ہیں۔ وہ سراسر ناقابل قبول ہے اور اگر عورتیں کھانا گرم کرنے اور روٹی پکانے جیسے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ تو یہ عورتوں کا مردوں پر احسان ہے۔ جسے وہ مزید ادا کرنے سے قاصر ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو عورت مارچ میں ایسے مطالبات پیش کرنے والی خواتین پہلے ہی مطلوبہ حقوق سے مسلح ہوتی ہیں اور اگر ان عورتوں کے پاس ان کے مطلوبہ حقوق دستیاب نہیں ہیں تو وہ ان تمام فرائض کے بدلے، جن سے وہ چھٹکارا چاہتی ہیں۔ خواتین سے متعلق مردوں کے فرائض بھی خود سے ادا کرنے کا وعدہ کریں۔ تاکہ عورت اور مرد برابری پر آسکیں۔

کاش کہ اس عورت مارچ کے ذریعے خواتین کے لیے مردوں کے برابر تنخواہوں کا مطالبہ کیا جائے، جائیداد میں برابر حصے دیا جانے کا مطالبہ ہو، تعلیمی سرگرمیوں میں عورتوں کو برابری کی سطح پر لانے کا مطالبہ کیا جائے، لڑکیوں کی چھوٹی عمروں میں شادیوں کو روکنے سے متعلق قانون سازی کا مطالبہ کیا جائے، لڑکیوں کی کم عمری میں ماں بن جانے کی مخالفت کی جائے، سب سے بڑھ کر عورت مارچ میں ایسے مطالبات کیے جائیں جن سے عورتیں، مردوں کے برابر آجائیں نا کہ ایسے مطالبے جن سے یہ لگے کہ عورتیں ان تمام ذمہ داریوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ جب کہ مرد وہ تمام ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں جیسے کہ وہ پیدا ہی یہ ذمہ داریاں نبھانے کے لیے ہیں۔

اگر عورتیں اپنے مردوں کے لیے کھانا گرم نہیں کرسکتیں، تو نا کریں۔ مرد اپنا کھانا خود گرم کر لے گا کیونکہ جس معاشرے کی عورت کو اپنے مرد کے لیے کھانا گرم کرنے پر اعتراض ہوگا۔ اس کے گھر میں مائیکرویو لازمی ہوگا۔ لیکن پھر یہ بھی سوچ لیں اسی سماج میں کھانا گرم نا کرکے دینے کے بدلے میں ہوسکتا ہے کہ عورتوں کو اپنا پیٹ بھی خود پالنا پڑے۔ کیونکہ جس سوسائٹی کا ہم حصّہ ہیں۔ وہاں عورت اور مرد دونوں کی ذمہ داریاں بانٹ دی گئی ہیں۔ لہذا یا تو ان بنٹی ہوئی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے نبھائیں یا پھر بدلے میں اپنی ذمہ داریاں خود نبھانے کا اعلان کریں۔

در حقیقت عورت مارچ، عورتوں کے لیے مطالبات منوانے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ اس مارچ کے ذریعے عورتیں، مردوں کی برابری حاصل کرنے کی آڑ میں، مردوں پر برتری حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ کون سا مرد ہے جو عورتوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کا مخالف نہیں، کون سا مرد ہے جو معصوم بچیوں کو ریپ کے بعد قتل کرنے کی حمایت کرتا ہے۔ کون سا مرد ہے جو عورتوں کم عمر لڑکیوں کے ماں بننے کے حق میں ہے۔ اگر چند مرد یہ تمام گناہ کرتے ہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ان چند مردوں کی آڑ میں تمام مردوں کو ظالم اور جابر قرار دے دیا جائے اور سماجی روایات کو بدلنے کے لیے ایسے مطالبے کیے جائیں۔ جن میں عورتیں اپنے فرائض سے سبکدوشی تو چاہتی ہیں۔ مگر بدلے میں مرد وہ تمام ذمہ داریاں ادا کرے۔ جو مرد ہمیشہ سے ادا کرتا آیا ہے۔

میرا جسم، میری مرضی کا مطالبہ کرنے والی خواتین یہ مطالبہ کس سے کر رہی ہیں۔ اپنے والد سے، اپنے بھائی سے یا اپنے خاوند سے۔ کون سا بھائی، باپ یا خاوند ایسا ہوگا جو اپنی بہن، ماں یا بیٹی کی مرضی کے خلاف اس کے جسم کو چھونے کی اجازت دے گا۔ کون مرد ایسا ہوگا جو باپ ایسا ہوگا جو اپنی بیٹی کی رضامندی کے بغیر شادی کرنا چاہے گا۔ کون سا بھائی ایسا ہوگا جو چاہے گا کہ بسوں میں بیہودہ مرد ان کے جسم کو چھوئیں۔ یقیناکوئی بھی نہیں۔

بلکہ اگر کوئی اجنبی مرد ایسا کرنے کی کوشش کرے گا تو یقینا باپ، بیٹا، بھائی یا خاوند اس کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ اسی لیے بہتر ہے کہ عورتیں اپنا جسم، اپنی مرضی سے استعمال کریں۔ لیکن خدا کے واسطے اپنے فیصلے میں اپنے بھائی، باپ یا بیٹے کو ضرور شامل کرلیں تاکہ ایک غلط فیصلہ ہونے پر کوئی تو ہو جو انہیں سنبھال سکے۔

میرا جسم میری مرضی۔ اس کا مطلب صرف یہ ہونا چاہیے کہ ہر لڑکی سے اس کی شادی کے لیے رضامندی لازمی لی جائے۔ اس عورت کی کوکھ سے پیدا کیے جانے والے بچوں سے متعلق عورت کی آمادگی لازمی ہو۔ پبلک میں اگر کوئی مرد کسی عورت کی طرف گھورتا ہے یا چھونے کی کوشش کرتا ہے تو ”میرا جسم، میری مرضی“ کا مطالبہ کرنے والی عورت بھرے بازار میں اس مرد کو پھینٹی لگائے اور عورت مارچ میں حصّہ لینی والی خواتین بے فکر رہیں کہ اس جگہ پر موجود مرد، متاثرہ عورت کے بچاؤ اور بد تمیزی کرنے والے شخص کی پھینٹی لگانے آگے ضرور آئیں گے۔ چاہے اسے اس کی بیوی نے کھانا گرم کرکے دیا ہو یا نا دیا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments