پانی کا بحران ’ڈیمز کی تعمیر نا گزیر!


ملک میں پانی کے بحران پر قابو پانے اور نئے ڈیمز کی تعمیر کے لئے تحریک انصاف کی حکومت اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے باقاعدہ ایک کمپیئن شروع کی تھی کہ پانی کی قلت پر قابو پانے کے لئے ملک میں بھاشا اور مہمند ڈیمز جلد تعمیر کیے جائیں تاکہ 2025 ء میں پانی کے آنے والے ممکنہ بحران سے بچا جا سکے اور ان ڈیمز کی تعمیر کا کام ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ ماہرین نے دنیا کو تین سال کے بعد آنے والے پانی کے بحران سے خبردار کر دیا ہے اور پوری دنیا میں پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے چھوٹے بڑے ڈیمز کی تعمیر پر کام جاری ہے۔

واشنگٹن ڈی سی کے تھنک ٹینک ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ کے مطابق دنیا بھر میں چار سو علاقے ایسے ہیں جہاں لوگوں کو شدید آبی مسائل کا سامنا ہے پاکستان میں تو صاف پانی کی دستیابی کی صورتحال انتہائی نا گفتہ با ہے ملک میں صاف پانی کی قلت کے باعث مضر صحت پانی پینے سے سالانہ لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ دشمن ملک بھارت تو پہلے ہی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حصے میں آنے والے پانی پر دن دیہاڑے شب خون مار کر اس ملک کو بنجر بنانے پر مصر دکھائی دے رہا ہے اور دوسری جانب ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے باعث پاکستان کے دریاؤں میں 15 سے 20 فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے دنیا بھر میں چالیس فیصد تک دستیاب پانی کا ذخیرہ کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان صرف دستیاب پانی کا دس فیصد ذخیرہ کر پاتا ہے۔

پاکستان کے چاروں صوبوں کو اس وقت پانی کی قلت کا سامنا ہے پنجاب میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے اس لئے ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اس بحران سے نمٹنے کے لئے سوچنے کی ضرورت ہے ملک کے چاروں صوبوں کو اس وقت پانی کی تقسیم پر تحفظات ہیں جس کے لئے ایسے لائحہ عمل بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملک کے تما م صوبوں کے خدشات دور کر کے انہیں اس مسئلہ کے تدارک کے لئے ایک صفحہ پر متحد کیا جائے 1991 ء میں تمام صوبوں میں اتفاق رائے پیدا ہو گیا تھا لیکن اس کے باوجود کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ صوبوں کے خدشات اور تحفظات کے باعث معلق ہے۔

حکومت کو اس بارے ضرور سوچ کر عملی اقدامات اٹھانے چاہیے کہ اگر کالا باغ ڈیم نہیں بنتا تو کم از کم ملک میں چھوٹے اور بڑے دیگر ڈیمز کی تعمیر ضرور شروع ہونی چاہیے۔ صاف پانی ہر فرد کا بنیادی حق اور انسانی جسم کا لازم جز ہے ایسے مسئلہ کے حل کے لئے پہلو تہی سے کام لینے کی بجائے فوری اور عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا میں بڑی موسمیاتی تبدیلیاں آرہی ہیں جس کے برے اثرات سے یہ ملک زیادہ متاثر ہو رہا ہے ہمیں جلد ماحولیات کی بہتری اور نئے ڈیمز کی جلد تعمیر کے لئے ترجیہی بنیادوں پر ٹھوس عملی اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔

ماضی کی حکومتوں نے تو اس مسئلہ کے حل کے لئے کوئی اقدامات نہیں کیے جس کی وجہ سے موجودہ حکومت کے کندھوں پر یہ بار کوہ گراں تو ہے لیکن ناممکن نہیں۔ نئے ڈیمز کی تعمیر اس لئے بھی ضروری ہو چکی ہے کیونکہ پانی ذخیرہ نہ ہونے کے باعث پاکستان کو سالانہ 29 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں پھینکنا پڑتا ہے جبکہ دنیا بھر میں اوسطا یہ شرح 8.6 ملین ایکڑ فٹ ہے پاکستان میں نئے ڈیمز تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ اکیس ارب ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں شامل ہو جاتا ہے۔

ارسا نے گزشتہ سال سینٹ کو بتایا تھا کہ پاکستان میں ہر سال ضائع ہونیوالے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے منگلا ڈیم جتنے تین بڑے ڈیمز بنانا ہو نگے دوسری جانب دیکھا جائے تو پاکستان میں صرف دوبڑے ڈیمز منگلا اور تربیلہ ہیں لیکن ان دو بڑے ڈیموں میں مٹی بھر جانے کی وجہ سے ان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے جوکہ بڑی تشویش ناک صورتحال ہے۔ پاکستان میں جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث موسم سرما میں معمول سے کم بارشوں کے سبب ملک کے بڑے شہر سموگ یا گرد آلود دھند کی لپیٹ میں آجاتے ہیں وہیں کھربوں روپے مالیت کا ہزاروں ایکڑ فٹ پانی سمندر میں ضائع ہو جاتا ہے۔

گذشتہ سال موسم سرما میں ملک کو 36 فیصد پانی کی کمی کا سامنا رہا ہے موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید موسمی حالات میں ملک کے دیہی علاقوں میں آباد ستر فیصد لوگوں کو صاف پینے کے پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے صوبہ سندھ کے ریگستانی علاقوں میں تو ایسی دلدوز صورتحال بھی سامنے آئی جب وہاں کے لوگوں نے اپنے قیمتی جانور وں کے عوض صاف پانی خرید کیا یہ حالات بڑے غورو فکر کے متقاضی ہیں کہ پاکستان سمیت دنیا تین سال بعد پانی کے ایک بڑے ممکنہ بحران کا سامنا کرنے جا رہی ہے اس لئے ملک کے حکمرانوں سمیت پوری قوم کو اس بحران کا مقابلہ کرنے کے لئے خود کو تیار کرتے ہوئے اپنے کردار کا تعین کرنا ہوگابلخصوص ملک میں موجود بنیادی انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا کو اس مسئلہ کے حل کے لئے مثبت اور جاندار کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

ملک میں اس وقت ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے زائد ایسے افراد موجود ہیں جن کو صاف پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔ اگر مستقبل کے چیلنجز پر نظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی نہ کی گئی تو پانی کا بحران میں مزید اضافہ ہو جائے گا ملک میں پانی کا بحران کسی ایک صوبہ کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ چاروں صوبوں کے لئے یکساں ہے اس لئے حکومت اور صوبوں کے اسٹیک ہولڈرز کو سنجیدگی کے ساتھ کھلے دل سے سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس مسئلہ پر قابو پایا جا سکے۔

بھاشا اور مہمند ڈیمز ضرور بننے چاہیے لیکن کالا باغ ڈیم پر بھی چاروں صوبوں کے خدشات دور کرتے ہوئے اس پر کام شروع ہونا چاہیے کیونکہ کم وقت اور کم لاگت میں کالا باغ ڈیم کا ہی منصوبہ ہے جو 2025 ء تک مکمل ہو سکتا ہے اس طرح ہم مستقبل میں آنے والے بحران کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھ سکتے ہیں۔ دنیا 120 دن پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ ہم صرف 30 دن پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو کہ مستقبل کے لئے بڑی پریشان کن صورتحال ہے امریکہ دریائے کلوریڈا پر نو سو دن ’مصر دریائے نیل پر ایک ہزار دن اور جنوبی افریقہ دریائے اورنج پر پانچ سو دن پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے دنیا کے مقابلے میں ہماری کارکردگی مستقبل پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے لہذاپانی کی قلت کے بحران سے نمٹنے کے لئے سوچ کو عمل کی سیڑھی فراہم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس بحران سے صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا نمٹنے کے لئے تیاری کر رہی ہے اس لئے وقت کی دستک سے پہلے ہمیں اس گھمبیر مسئلہ کو حل کرتے ہوئے کروڑوں انسانوں‘ فصلوں اور آبی حیات کو مستقبل کے اس بحران سے محفوظ بناتے ہوئے ترجیہی بنیادوں پر اقدامات اٹھانا ہوں گے اب سوچنے سے زیادہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments