پڑھنے کا طریقہ


”We are drowning in information but starved for knowledge۔ “

John Naisbitt

دنیا میں جب انسانوں نے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا تو معلومات سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں تک منتقل کی جاتی تھیں۔ آثار قدیمہ کے لحاظ سے قریب پانچ ہزار پہلے کی لکھائیاں حاصل کی گئی ہیں۔ موئن جو دڑو سے جو تحریر ملی ہے اس کو جدید کمپیوٹر کی مدد سے بھی آج تک سمجھا نہیں جاسکا ہے۔ لکھا ہوا لفظ ایک انسان کی معلومات اور اس کی سمجھ کو دوسرے انسان تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ ہر انسان کی معلومات اس کے زمانے کی معلومات اور مستقبل کے بارے میں اس کے تخیل پر مبنی ہوتی ہے۔

الفاظ کے معنی بھی وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا میں ایک زبان ہر دو دن میں مر رہی ہے۔ زبان کے ماہرین ان کوششوں میں لگے ہیں کہ ان مرنے والی زبانوں کو ریکارڈ کرلیا جائے۔ ہر زبان میں اس کے علاقے کے منفرد جانوروں اور پودوں، اس کے موسموں اور وہاں کے رہنے والوں کی زندگی اور ان کی کہانیوں سے متعلق معلومات کے خزانے دبے ہیں۔ کسی بھی زبان کے جاننے والوں کی معلومات کا دائرہ اپنی زبان میں موجود تعلیمی مواد تک محدود ہوتا ہے اسی لیے ایسے افراد جو مختلف زبانیں جانتے ہیں اور ان کے ترجمے کرتے ہیں وہ انسانوں کی تعلیم اور ترقی میں ایک بڑا ہاتھ بٹاتے ہیں۔

اردو /ہندی دنیا کی مینڈرین چینی، انگریزی اور ہسپانوی کے بعد چوتھی بڑی زبان ہے۔ آج کی ماڈرن دنیا کی زیادہ تر سائنسی معلومات چینی اور انگریزی میں موجود ہیں۔ ہسپانوی اور اردو زبان میں زیادہ تر معلومات شاعری، ادب، تاریخ اور مذہب کے گرد گھومتی ہیں۔ اردو زبان کی دنیا میں آج بھی بہت ساری ایسی باتیں گردش میں ہیں جن کا حقیقت اور سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مثلاً اردو کی دنیا میں آج بھی اس سو سالہ پرانے تجربے کی بازگشت سنائی دیتی ہے جس میں ایک ڈاکٹر صاحب نے روح کا وزن ناپا تھا۔ حالانکہ کسی بھی ناپ تول کے لحاظ سے روح کا وزن تو کیا اس کا وجود تک ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ علاج، ٹوٹکے اور مشورے وغیرہ اس زمانے کے ہیں جب جدید وسائل موجود نہیں تھے۔ اب ان کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے بلکہ کچھ جگہ یہ غفلت اور جرائم کے دائرے میں آتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک طالب علم کے ذہن میں ایک سوال پیدا ہو تو وہ اس کا مناسب اور قابل بھروسا جواب کہاں سے اور کس طرح تلاش کرے؟ اس کو یہ کیسے پتا چلے کہ یہ معلومات سچی ہیں یا نہیں؟ صرف کچھ پڑھنے سے کوئی بات پوری سمجھ میں نہیں آسکتی ہے۔ اس کے ساتھ تجربے کی بہت اہمیت ہے۔ تعلیم جواب یاد کرکے دہرانا نہیں بلکہ بنیادی معلومات حاصل کرنے کے بعد ایک معمے کے ٹکڑے جوڑ کر ان نئے سوالات اور مسائل کا حل نکالنا ہے جو اس سے پہلے انسانوں کے سامنے نہیں تھے۔ دنیا کا نقشہ بھی بدلتا رہتا ہے۔ نیویگیشن سسٹم (Navigation system) کو وقت کے ساتھ اپ ڈیٹ (Update) نہ کریں تو کہیں پل بن گئے اور کہیں دیواریں، کہیں ہم دیوار سے ٹکرا سکتے ہیں اور کہیں بلاوجہ تیر کر دریا پار کریں گے۔

سائنسی لٹریچر (Scientific literature) کو پڑھ سکنا صرف تحقیق دانوں یا ڈاکٹروں کے لیے ہی ضرور ی نہیں بلکہ ہر انسان کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ اپنے سامنے آئے ہوئے مسائل کا خود بھی حل تلاش کرسکے۔ کچھ بیماریاں دنیا میں اتنی کم ہوتی ہیں کہ ان کے مریضوں کو انگلیوں پر گن سکتے ہیں۔ ان بیماریوں کے بارے میں کسی کی بھی معلومات مکمل نہیں ہیں اسی لیے یہ نیٹ ورکنگ (Networking) اہم ہے جو آج کی گلوبل دنیا میں ممکن ہوپائی ہے۔

انٹرنیٹ کے استعمال کے ساتھ غلط معلومات بھی بڑھی ہیں۔ یہ معلومات انسانوں کے تعصب پر مبنی ہیں۔ امریکہ کے سابقہ صدر اوبامہ نے ایک انٹرویو میں ایک اچھی بات کی جس کا تجربہ قارئین خود بھی کرسکتے ہیں۔ جب بھی ہم گوگل سرچ میں کوئی الفاظ لکھتے ہیں تو وہ ہماری گذشتہ تاریخ کے لحاظ سے جوابات ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ جو باتیں ہمارے تعصبات کے مطابق ہوتی ہیں اور ہمارے عقائد کو سہارا دیتی ہیں ہم ان کو بغیر سوچے سمجھے پسند بھی کرتے ہیں اور فوراً اپنے دوستوں کے ساتھ بانٹتے ہیں۔

اس طرح بغیر جانے بوجھے ہم خود بھی غلط معلومات پھیلانے میں اپنا کردار نبھاتے ہیں۔ ڈننگ کروگر افیکٹ (Dunning Kruger effect) کے مطابق جن افراد کی تعلیم اور معلومات کم ہوتی ہیں وہ اتنا ہی زیادہ خود اعتماد اور زور سے بولنے والے ہوتے ہیں۔ ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا ہے جو ان کو معلوم نہیں ہے۔ مندرجہ ذیل اقدام سے قارئین اپنے مطالعے کے طریقے کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

1۔ سوال منتخب کیا جائے۔

2۔ یہ سوال سائنس کے کس میدان سے متعلق ہے؟ طب، فلکیات، نفیسات؟ جس میدان سے متعلق سوال ہو، اسی میدان میں کام کرنے والے ماہرین کے لکھے ہوئے جرنل یا کتابوں کو پڑھنا مناسب ہوگا۔ سائنس کی دنیا میں ایک صاحب نے کسی اخبار میں چھپا ہوا کینسر کے بارے میں ریویو آرٹیکل (Review article) بھیجا تھا۔ میں نے ان کو وہ واپس بھیجا اور کہا کہ اس معلومات کو ریفرنس (Refernce) کے ساتھ واپس جمع کرائیں۔ انہوں نے پھر سے واپس بھیجا کہ اس آرٹیکل پر اس کے لکھاری کا نام اور ان کی تصویر چھپی ہوئی ہے۔ اس کے بعد میں نے ان کو تھوڑی اور تفصیل سے سمجھانے کی کوشش کی کہ ایک تو یہ لکھاری خود کینسر کے ڈاکٹر نہیں ہیں اور دوسری بات یہ کہ اس مضمون میں کئی مختلف طرح کے کینسروں کے بارے میں کئی باتیں کہی گئی ہیں جن کے الگ الگ تجربے ہوئے ہوں گے جن کے بارے میں کوئی حوالہ موجود نہیں ہے۔

3۔ پرائمری لٹریچر اور سیکنڈری لٹریچر میں کیا فرق ہے؟ (The difference between primary and secondary literature) ایک کھیل دنیا میں مشہور ہے جس میں بہت سارے لوگوں کو لائن میں کھڑا کرکے ایک کونے سے بات شروع کی جاتی ہے جو ایک دوسرے کے کان میں کہتے ہیں۔ جب تک وہ دوسرے سرے تک پہنچتی ہے تو مکمل طور پر تبدیل ہوچکی ہوتی ہے۔ پرائمری مضمون وہ ہوتا ہے جس میں ایک سائنسدان اپنی ناپ تول کی تفصیل کے ساتھ ایک دریافت لکھے۔

اس کے بارے میں اور کوئی اپنے مضامین میں لکھے تو وہ سیکنڈری لٹریچر کا حصہ ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ جن صاحب یا صاحبہ نے یہ سیکنڈری مضمون لکھا ہے کیا وہ اس میدان میں کچھ مہارت رکھتے ہیں۔ اپنی فیلڈ سے باہر کچھ پڑھ کر سمجھ لینا اتنی آسان بات نہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ جو بھی کسی تجربے کی مثال دے، وہ خود اس تجربے کے بارے میں پرائمری لٹریچر پڑھ لے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہم سائنس پر کیوں یقین کریں وہ وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے؟

ظاہر ہے کہ جس طرح سائنس میں ترقی ہورہی ہے، بہتر سے بہتر طریقے سے ناپ تول کی جاسکتی ہے اس لیے جو بھی سب سے اچھی طرح ناپ کر تازہ ترین بتایا گیا ہو وہی درست سمجھا جاتا ہے۔ اگر پچاس سال پہلے کی مشین سے کسی چیز کو دو کلو کا بتایا گیا ہو اور اب وہ ایک اعشاریہ نو نکلے تو پہلی والی مکمل طور پر غلط نہیں بلکہ کافی قریب ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سائنس کی مدد سے کچھ بھی دریافت کیے ہوئے نتائج کو یہ کہہ کر ماننے سے انکار کردیں کہ ہو سکتا ہے آگے چل کر یہ غلط نکلے۔ وقت کے ساتھ ساتھ چلنا ہوتا ہے۔

4۔ مثال کے طور پر میں ایک اینڈوکرنالوجسٹ (Endocrinologist) ہوں۔ اگر مجھے اینڈوکرنالوجی کے بارے میں کچھ سوال پوچھنا ہے تو اس کی ٹیکسٹ بک میں دیکھنا ہوگا جو اس کے ماہرین نے لکھی ہو۔ جیسے اینڈوکرنالوجی کی ٹیکسٹ بک میں ولیم اینڈوکرنالوجی (William Endocrinology) ، جوزلن ذیابیطس (Joslin ’s Diabetes) اور اسپیروف (Speroff) شامل ہیں۔ آج کل معلومات اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہیں کہ جب تک ٹیکسٹ بک نکلتی ہے، کچھ نیا سامنے آچکا ہوتا ہے اس لیے ان کو بنیادی معلومات کے لیے ہی استعمال کیا جانا چاہیے۔

ایک مرتبہ میں یونیورسٹی میں اینڈوکرنالوجی کا گرینڈ راؤنڈ (Grand round) دے رہی تھی جس کی ایک پاور پؤائنٹ سلائڈ (powerpoint slide) میں میں نے ایک کتاب کا ریفرنس استعمال کیا تھا۔ یہاں میں ڈاکٹر لاین (Dr۔ Timothy Lyons۔ The chief of Endocrinology) ( کے الفاظ یادر کرہی ہوں جنہوں نے مجھے کہا تھا کہ ”لبنیٰ! اگر کوئی بات کسی کتاب میں لکھی ہوئی ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سچ ہے۔ “ یہ بات میرے ذہن میں سے کبھی نہیں نکلی۔

اس کے بعد میں نے ہر نقطے پر پرائمری لٹریچر تلاش کرنے کی کوشش کی۔ اینڈوکرنالوجی کی فیلڈ میں سینکڑوں جرنل ہر مہینے چھپتے ہیں۔ کون سے جرنل سے مناسب معلومات فراہم ہوں گی؟ اس سوال کے جواب کے لیے کچھ فارمل (Formal) ناپنے کے طریقے ہیں جیسا کہ امپیکٹ فیکٹر (Impact factor) جو کہ ساری کہانی نہیں ہے۔ اپنی فیلڈ سے متعلق جو نیشنل سوسائٹیز (National societies) ہوتی ہیں، ان کے ساتھ جڑے رہنے سے بھی پتا چلتا رہتا ہے کہ کیا نئی معلومات سامنے آئی ہیں؟

ہمارے کولیگ کیا پڑھ رہے ہیں اور کس طرح انہوں نے اپنی سوچ بنائی ہے؟ ہر میدان سے متعلق اخبار بھی نکلتا ہے جس میں اہم نئی معلومات کا خلاصہ پیش کیا جائے۔ ان بڑے جرنلوں میں جرنل آف کلینکل اینڈوکرنالوجی (Journal of Endocrinology) ، ذیابیطس کئر (Diabetes Care) اور اینڈوکرین پریکٹس (Endocrine practice) شامل ہیں۔

5۔ ہماری فیلڈ کی بڑی تنظیموں میں اینڈوکرین سوسائٹی (The Endocrine Society) ، امریکن اسوسی ایشن آف کلینکل اینڈوکرنالوجی (American association of clinical endocrinology) ، امریکن ذیابیطس اسوسی ایشن (American Diabetes Association) ، امریکن تھائرائڈ اسوسی ایشن (American thyroid association) اور نیشنل آسٹیوپوروسس فاؤنڈیشن (National Osteoporosis Foundation) شامل ہیں۔ ان سے متعلق کسی بھی سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ان بیماریوں کے علاج کی گائڈ لائنز (Guidelines) انٹرنیٹ پر چھپی ہوئی ہیں۔

یہ ٹیکسٹ بک سے زیادہ بہتر ہیں کیونکہ ان کو تبدیل کیا جاتا رہتا ہے۔ اپ ٹو ڈیٹ (UpToDate) دنیا میں ایک پاپولر میڈیسن کی ٹیکسٹ بک بن چکی ہے۔ بلکہ دو سال پہلے جب میں نے انٹرنل میڈیسن (Internal Medicine) کا بورڈ کا امتحان دیا تو اس میں آن لائن اپ ٹو ڈیٹ دیکھنے کی اجازت تھی۔ اب لوگ یہ سمجھ چکے ہیں کہ معلومات اتنی زیادہ ہوچکی ہیں کہ ایک تو ہر بات کو یاد کرلینا ممکن نہیں رہا اور یہ بھی کہ انٹرنیٹ کی موجودگی میں یہ زیادہ اہم ہے کہ نئی، درست اور بہتر معلومات استعمال کرکے ہم اپنے مریض کا بہتر علاج کرسکیں۔

6۔ آج کل کافی سارے جرنل آرٹیکل آن لائن دستیاب ہیں جن کو نیشنل لائبریری کے سرچ انجن سے کی ورڈز کی مدد سے تلاش کرسکتے ہیں۔ مثلاً اگر ایک نئی دوا کے بارے میں سیکھنا ہے تو اس کا نام سرچ بار میں لکھیں تو اس سے متعلق چھپے ہوئے آرٹیکل سامنے آئیں گے۔ ان کو پڑھیں۔ پہلا لکھاری کون ہے؟ ان کی کیا تعلیم ہے اور کتنا تجربہ ہے؟ انہوں نے یہ تحقیق کرنے کے لیے کس سے پیسے لیے؟ یہ تحقیق کس ملک میں ہوئی؟ یہ تحقیق کن افراد میں کی گئی؟ بچے، بڑے، مردوں اور خواتین میں؟ کیا دوا لینے یا نہ لینے والے یہ دو گروہ بالکل ملتے جلتے تھے؟ کیا یہ نتائج قابل بھروسا ہیں؟ کیا یہ نتائج دیگر علاقوں کے تمام افراد پر لاگو کیے جاسکتے ہیں؟

7۔ پہلے ایسا ہوتا تھا کہ جن تحقیقات سے کچھ نتائج اخذ ہوں انہی کو چھپنے بھیجتے تھے۔ لیکن اب ہر کلینکل ٹرائل کو ایک رجسٹری میں داخل کروانا ہوتا ہے جس میں نتائج جمع کروانا ضروری ہے چاہے وہ کچھ بھی نکلے ہوں۔ یعنی منفی نتائج بھی بتانا ہوں گے۔ اگر ایک دوا کے دس کلینل ٹرائل ہوئے ہوں اور ان کے نتائج مختلف ہوں تو جو بھی زیادہ تر کے نتائج ہوں ان کو قبول کیا جائے گا۔

8۔ ہم سب انسان تعصب رکھتے ہیں۔ ہمارے پہلے سے کچھ دماغ میں بیٹھے اعتقادات اور خیالات ہوتے ہیں۔ جب ہم اپنے عقائد کو ثابت کرنے والی تحقیق کو چن کر اپنا نقطہء نظر درست دکھانے کی کوشش کریں تو اس کو کانفرمیشن بایس کہتے ہیں۔ ایک کانفرنس میں میں نے ایک مزاحیہ بات سنی تھی جو کہ یوں تھی۔ ”میڈیکل لٹریچر بائبل کی طرح ہے، جو بھی آپ ڈھونڈ رہے ہیں وہ آپ کو مل جائے گا۔ “

”I know that I know nothing! “ Socrates


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments