مقصُود گل کی پانچویں برسی کی تقریب


کراچی پریس کلب کی جانب سے، مقصُود گل اکیڈمی سندھ کے تعاون سے، سندھ کے نامور شاعر، دانشور، عالم، افسانہ نویس، کالم نویس، صحافی اور حضرت سچل سرمست رحہ کے شارح و مترجم، مقصُود گل کی پانچویں برسی کے موقع پر، انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے کراچی پریس کلب کے کانفرنس ہال میں، ایک پُروقار ادبی تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس کی صدارت نامور شاعر، صحافی اور تاریخدان یوسف شاہین نے کی، جبکہ تقریب کی مہمانِ خصُوصی، نامور لطیف شناس محققہ، افسانہ نویس، ماہرِ لسانیات، استاد، تعلیمدان اور لغت نویس، پروفیسرڈاکٹر فہمیدہ حسین تھیں۔

جبکہ مجلسِ صدارت میں سینیئر صحافی، مترجم، سفرنامہ نویس اور دانشور، نصیر اعجاز، نامور براڈکاسٹر اور سندھی نشریاتی ادب کے بانی، نثار میمن اور مایہ ناز انقلابی گلوکار اور ٹیلیوژن کے سابق پیشکار، بیدل مسرُور بدوی اور آثارِ قدیمہ کے ماہر، سچل شناس مُحقق اور شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپُور میں قائم، سچل چیئر کے سابق ڈائریکٹر، پروفیسر الطاف اثیم تھے۔ جبکہ اس ادبی اجتماع کی نظامت، مقصُود گل اکیڈمی سندھ کے سیکریٹری کی حیثیت سے راقم نے کرنے کا شرف حاصل کیا۔

سینیئر صحافی الطاف مجاہد خان، نے تلاوتِ کلامِ پاک کی سعادت حاصل کر کے اس تقریبِ خراج کا باضابطہ آغاز کیا۔ کراچی پریس کلب کے صدر اور سینیئر صحافی، محمّد امتیاز خان فاران نے میزبان کی حیثیت سے تمام تشریف لائے ہوئے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ: ”کراچی پریس کلب اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے، عظیم شخصیات کو یاد کرنے کے سلسلے میں، مقصُود گل کی حیات و خدمات کو خراج پیش کرنے کے لیے یہ تقریب منعقد کرتے ہوئے خوشی محسُوس کر رہا ہے اور اتنے اہم عالموں، ادیبوں اور دانشوروں کو اپنے آنگن پر دیکھ کر مُسرت کا احساس ہو رہا ہے۔ ہم مستقبل میں بھی کراچی پریس کلب کی جانب سے ایسے اجتماعات کے انعقاد کا ارادھ رکھتے ہیں۔ “

سینیئر صحافی، قلمکار اور سندھی کے معروف روزنامہ ”عوامی آواز“ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر، زرار پیرزادو نے، ”مقصُود گل کی کالم نگاری اور قطعہ نگاری“ کے موضُوع پر اپنے خیالات کا تفصیلی اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: ”حالانکہ مقصُود صاحب سے سندھی اخبارات میں حالاتِ حاضرہ کی مناسبت سے قطعہ نگاری کا آغاز بدر ابڑو نے کرایا، جب وہ سکھر سے جاری ہونے والے سندھی روزنامہ“ پُکار ”کے ایڈیٹر تھے، مگر یہ روزنامہ“ عوامی آواز ”کا اعزاز ہے کہ مقصُود صاحب، نے اپنی زندگی کا زیادھ سے زیادھ عرصہ“ عوامی آواز ”کے لیے قطعہ نگاری کی، جو عرصہ کم و بیش ایک دہائی کے برابر ہے۔

اس درمیان کچھ برس مقصُود صاحب سندھ کی کلاسیکی صنف ”بیت“ کے قالب میں بھی حالاتِ حاضرہ کو قلمبند کر کے ایڈیٹوریل صفحے کی زینت افزائی کرتے رہے۔ ”کجھ سچ، کجھ کُوڑ“ (کچھ سچ، کچھ جھوٹ) کے عنوان سے تحریر شدہ ان کا سندھی کالم نہ صرف ”کالم۔ کہانی“ کی صنف میں اس دور کی واضح تنقیدی تصویر ہوا کرتا تھا، مگر ساتھ ساتھ وہ کالم اس بات کا بیان بھی ہوا کرتا تھا کہ ہمارے رہبروں میں بھی کچھ سچّے ہیں، تو کچھ جُھوٹے۔ ”

سینیئر صحافی، ادیب اور استاد، طارق عزیز شیخ نے، مقصُود گل کے ساتھ اپنی رفاقت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ: ”یہ میری خوشقسمتی رہی کہ مقصود گل صاحب کی جانب سے کیے ہوئے، سچل سرمست کی فارسی مثنویات کے اردو ترجمے پر مشتمل کتاب“ عشق سمندر ”کی اشاعتِ اوّل کے پرُوف مجھے دیکھنے کا موقعہ ملا، جس وجہ سے میرا ان سے تعلّق کا آغاز ہوا اور ان کی وفات سے ایک ہفتہ قبل تک، ان کی زندگی کی آخری کانفرنس میں بھی میری نہ صرف ان سے ملاقات ہوئی، بلکہ ان کے ہاتھوں مجھے اعزازی شیلڈ وصول کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا، جو بہ یک وقت میرے لیے خوشی اور غم کی بات ہے۔ “ طارق نے، مقصود گل کے ادبی سفر پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے، ان کے خاص قلمی کارناموں کا ذکر بھی کیا۔

نامور دانشور اور مترجم ڈاکٹر امجد سراج میمن نے اپنی جانب سے سندھی سے انگریزی میں ترجمہ شدھ مقصود گل کی شاعری سے انتخاب پڑھا، جس انتخاب میں سے گل صاحب کے ترائیل ”فاختائیں آم کی ڈالی پہ دو۔ “ کے ترجمے کو حاضرین کی جانب سے بیحد پسند کیا گیا۔ اس موقع پر بیدل مسرُور نے، مقصودگل کا کلام گا کر محفل کی رونق میں مزید اضافہ کیا۔ محفل کے دوران سینیئر شاعر اقبال شاہین، نے مقصُود گل کو اپنا تخلیق شدھ منظُوم خراج پیش کیا۔

سینیئر محقق، سندھی لوک ادب کے ماہر، براڈکاسٹر اور وفاقی اردُو یونیورسٹی کراچی کے شعبہء سندھی کے سربراھ، ڈاکٹر کمال جامڑو نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ: ”مقصُود گل صاحب سے میری شناسائی کا آغاز 2006 ء میں اس وقت ہوا، جب ان کو میں نے پہلی مرتبہ ریڈیو کراچی کے ادبی پروگرام“ رسالو ”میں شرکت کی دعوت دی۔ ان دنوں اس پروگرام کی پیشکش میری ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔ میری یہ خوشقسمتی بھی رہی کہ مقصود گل فروری 2015 ء میں میری جانب سے منعقدھ لوک ادب کی اس قومی کانفرنس میں بھی شریک ہوئے، جو ان کی وفات سے چند دن قبل کراچی کے ایک نجی ہوٹل میں منعقد ہوئی تھی، جس میں گل صاحب نے سندھی لوک ادب کے حوالے سے تفصیلاً اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا تھا اور اپنی تحریر شُدھ سندھی لوک ادب کی اصناف کے نمُونے بھی پیش کیے۔ “

نامور محقق، نونہالوں کے ادیب اور ٹیلیوژن پروڈیوسر، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ سولنگی نے ”مقصود گل کا بچّوں کے ادب میں حصّہ“ کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا، جس میں انہوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے حوالے سے بتایا کہ: ”میرے پی ایچ ڈی کا موضوع“ بچّوں کے ادبی رسالے ”گُل پُھل“ کا سندھی نونہال ادب میں حصّہ ”تھا، جس میں مقصُود صاحب کی نثر خواھ نظم میں تحریریں سال 1979 ء سے نظر آتی ہیں اور 2015 ء تک (ان کی وفات تک) اس رسالے میں شایع شدھ ان کی کہانیاں، نظمیں خواھ کالم نونہالوں سے ان کے پیار کا مظہر ہیں۔

اس کے علاوھ روزنامہ ”ہلال پاکستان“ اخبار میں 1980 ء کے عشرے میں بچّوں کے لیے لکھا ہوا ان کے کالمز کا سلسلہ ”ٹمُوں شرارتی“ بھی اپنے وقت کا مقبُول سلسلہ تھا، جو بچّوں میں بیحد پسند کیا گیا۔ مقصود صاحب بذاتِ خود کہا کرتے تھے کہ خالقِ حقیقی کا مجسّم رُوپ دیکھنا ہو تو بچّوں کو دیکھنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ مقصُود گل صاحب اپنی عمر کے آخری دو عشرے بچّوں کے لیے اسکول قائم کر کے اس کے ذریعے علم کے دیے روشن کرتے رہے اور انہوں نے ”گلدستہ“ نامی نونہالوں کا ادبی رسالہ بھی جاری کیا۔ ”

نامور فارسی محققہ، اسکالر اور شمس العُلماء مرزا قلیچ بیگ جی پَرپوتی، ڈاکٹر فائزہ زہرا مرزا نے، مقصود گل کے قلم سے کے گئے، سچل سرمست جی کلام کے منظُوم اردُو ترجمے سے متعلق اپنا تفصیلی تنقیدی مقالہ پیش کیا، جس میں انہوں نے مقصود صاحب کے ترجمے کی سلاست، روانی اور ترجمہ نگار کی فصاحت خواھ بلاغت کی تعریف کی۔ اردُو کے معرُوف شاعر اور صحافی۔ راشد نُور نے، مقصود گل کی اردوشاعری کی بابت اپنے تفصیلی اظہارِ خیال میں فرمایا کہ: ”مقصُود گل کی غزل، تغزل کے اصل رنگ سے بھرپُور ہے۔

ان کے پاس ہر اظہار اپنی پُوری آب و تاب سے آ کر مکمّل اظہار کا روپ دھار لیتا ہے اور قاری کے پاس اس کو پڑھنے کے بعد کوئی تشنگی نہیں بچتی۔ انہوں نے اپنی غزلیات میں بعض جگہوں پر انوکھی بحروں کا استعمال بھی کیا ہے، جن کا استعمال ہر شاعر نہیں کر سکتا۔ ”راشد نُور نے، مقصود گل کے سانیٹ، منظُومات اور دیگر اردُو اصنافِ سُخن کا بھی تعریفی الفاظ میں ذکر کیا اور ان کی اردُو شاعری سے ان کے خوبصورت اشعار کی مثالیں پیش کرتے ہوئے، اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ ان کا اردو کلام بھی شایع ہونا چاہیے۔

سینیئر صحافی اور کالم نویس، ہمسفر گاڈہی نے، مقصُود گل کی شاعری کے حوالے سے اپنے مقالے میں گل صاحب کو قادرالکلام شاعر قرار دیا اور کہا کہ: ”ان کی شاعری پر ان کے اُستاد، ڈاکٹر عطا محمّد“ حامی ”کے انداز و بیانِ سُخن کا اثر نمایاں طور پر نظر آنے کے باوجُود ان کی شاعری کی انفرادیت مُسمّم ہے، جو ان کے کلام کو دُوام بخشتی ہے۔ وہ اپنی شاعری کی ہر ایک سطر میں وطن دوستی، انسان دوستی، سچ پرستی اور مساوات کے نظام کے مکمّل حامی نظر آتے ہیں اور عدم مساوات اور انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری ان دیرپا خوبیوں کی وجہ سے ہر دور کی آواز بنی رہے گی۔ “

معرُوف صحافی، عرفان عبّاسی نے، مقصود گل کے ساتھ گزارے ہوئے اپنی زندگی کی قیمتی گھڑیوں کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ وہ گل صاحب کو اپنے والد کی طرح سمجھتے تھے، کیونکہ مقصُود صاحب بھی انہیں اپنی اولاد کی طرح پیار کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ان کے بے تکلّفانہ اور لطیف مزاج کا تعریفی الفاظ میں ذکر کیا۔

برسی کی تقریب کے مہمانِ اعزازی، سینیئر صحافی اور مصنّف، نصیر اعجاز نے، ”ہلال میگزین“ کی مدیری والے زمانے کی یادداشتیں بتاتے ہوئے کہا کہ مقصود گل کی ان کے ساتھ خط و کتابت اس دور میں شروع ہوئی، جب انہوں نے ہلال میگزین کے لیے لکھنے کا آغاز کیا۔ ”ان کے دستخط اس قدر خوبصورت تھے، کہ دل چاہتا تھا کہ ان کی تخلیقات کو ان ہی کے دستخط میں فلم بنوا کر شایع کیا جائے اور اسے کمپیوٹر پر کمپوز کروا کر اس کے حسن کو ختم نہ کیا جائے۔ “ نصیر اعجاز نے، مقصودگل کی شاعری میں مزاحمت، وطن پرستی، رُومان، فطرت پسندی، اعلیٰ اخلاقی اقدار کے پرچار اور خلوص سمیت دیگر انگنت خوبیوں کا ان ہی کے اشعار سے مثالیں دے کر ذکر کیا۔

محفل کے دوسرے مہمان ِ اعزازی اور سینیئر براڈکاسٹر نثار میمن نے اپنے خطاب میں بتایا کہ: ”میری مقصُود گل سے دوستی ان کی زندگی کے آخری عشرے میں ہوئی، مگر یہ دس برس کا تعلق اس قدر محبّت اورخلُوص کا رابطہ رہا کہ ہمارا رابطہ فون کالز سے ایس ایم ایسز تک ہمہ وقت اور لگ بھگ روزانہ کی بنیاد پر رہا۔ “ نثار میمن نے کہا کہ ”تمثیلی انداز میں ایسا لگ رہا ہے کہ مقصود کے نام کے ساتھ اگر لفظ“ گل ”نہ لگا ہوتا تو شاید وہ اتنی جلدی نہ مُرجھا جاتا! “

پروفیسر الطاف اثیم نے، مقصُود گل کے ساتھ اپنی ادبی رفاقت اور قُربت کے دو مضبُوط حوالوں سچل سرمست اور پروفیسر ڈاکٹر عطا محمّد ”حامی“ کا تفصیلاً ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ: ”سال بھر ہم دونوں کی اور کہیں ملاقات ہو نہ ہو، مگر سچل سرمست کے سالانہ عُرس مبارک کی ادبی کانفرنس اور حامی صاحب کی برسی کی سالانہ تقریب میں ہر برس ہمارا ملنا لازم ہُوا کرتا تھا۔ سترہ برس قبل، مقصود گل صاحب جب سچل سرمست کی فارسی مثنویات کے کافی حصّے کا اردو ترجمہ کر چکے تھے، تب انہوں نے یہ بات سچل چیئر کے اُس وقت کے ڈائریکٹر کی حیثیت میں مجھے بتائی۔

مجھے یہ جان کر بے انتہا خوشی ہوئی اور میں نے انہیں یہ کام جلد مُکمّل کرنے کی گزارش کی تاکہ اس کام کو سچل سرمست کے میلے کے موقع پر چیئر کی جانب سے شایع کرایا جا سکے۔ مقصود صاحب نے میری گزارش پر یہ گرانقدر کام جلدی مکمّل کر کے چیئر کو ارسال کیا، جس کو ہم نے بیحد خوشی سے شایع کیا، جو چیئر کی ”بیسٹ سَیلر بوک“ بھی ثابت ہوئی۔ اس کتاب کی اشاعتِ دوم چار برس قبل شایع ہوئی ہے، مگر اس میں میرے تحریر شُدھ پہلے ایڈیشن کے پبلشرنوٹ کو شامل نہیں کیا گیا، جو ایک سخت قلمی بددیانتی ہے۔ ”

تقریب کی مہمانِ خصوصی، نامور عالم، پروفیسر ڈاکٹر فہمیدہ حسین نے، ”سُندر سوچیں تخلیق کرنے والا شاعر“ کے عنوان سے اپنے مختصر مقالے میں مقصُود گل کی ذاتی خواھ تخلیقی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ: ”مقصود گل ہر صنفِ سُخن میں موزُون شاعری کے تقاضوں کی تکمیل کو ضروری سمجھتے ہیں۔ وزن، بحر، صنائع، بدائع، یعنی تشبیہوں، استعاروں اور شاعرانہ زبان سے لے کر حسنِ سخن کی تمام تر خُوبیاں ان کی شاعری میں بدرجہء اُتم موجُود ہیں، جن میں سے کچھ بھی مصنُوعی نہیں لگتا یا شعوری تُکبندی محسُوس نہیں ہوتی۔ اُن کی شاعری میں عکسیت کی خوبی بھی موجود ہے، جس میں کئی جگہوں پر سمعی اور بصری عکسَ سامع کے آگے منظر کو واضح کر کے دکھاتے ہیں۔ “

مایہء ناز مؤرخ، شاعر اور صدرِ محفل، یوسف شاہین، نے اپنے صدارتی خطاب میں، محفل میں شریک تمام مقررین کے اظہارِ خیال کے حوالے سے اپنی مختصر رائے دینے کے بعد مقصُود گل کی ادبی خدمات سے متعلق اپنا مختصر مقالہ پیش کرتے ہوئے ان کی تخلیقات پر جامع انداز میں روشنی ڈالی اور فرمایا کہ: ”تقسیمِ ہند کے بعد سے اب تک، سندھ کی جانب پانچ بڑی ہجرتیں ہوئی ہیں، جن کی وجہ سے لاکھوں تارکینِ وطن، سندھ میں آباد ہو چُکے ہیں۔

اس تشویش اور درد کو، مقصود گل کی طرح سندھ کا درد رکھنے والے ہر شاعر نے محسُوس کیا اور اس کا سربستہ اظہار بھی کیا ہے۔ ”یوسف شاہین نے اس کے بعد مقصود گل کی شاعری میں سے دھرتی کے درد کی عکّاسی کرنے والے ایسے اشعار کی مثالیں بھی پیش کیں اور ساتھ ساتھ“ ابیات ”کی صنف کے ذریعے، مقصُود گل کے بچھڑنے پر اپنے احساسات کا تخلیقی اظہار بھی پیش کیا۔

اسی صدارتی تقریر پر یہ تقریبِ خراجِ عقیدت اپنے اختتام کو پہنچی۔

تقریب میں مقصُود گل کی اہلیہ۔ گلنار بدر، ناصر مقصُود گل، نادر علی قاضی، ثمینہ نادر، محکمہء ثقافت، حکُومتِ سندھ کے سابق صُوبائی سیکریٹری اور نامور دانشور۔ شمس جعفرانی، روزنامہ ”مُومل“ کی ایڈیٹر۔ حسینہ جتوئی، سینیئر شاعر، نصیر سُومرو، کچّھی زبان کے سینیئر ادیب۔ کھتری عصمت علی پٹیل، منوہر شیام، ایم۔ بی۔ سُومرو، راشد سُومرو، ریاض مسرُور سیال، امتیاز سائر چنّہ، تبسّم راشد کھوسو، پارس مسرُور، عرفان میمن، عمران نذیر، ایڈووکیٹ طارق یوسف صوفی، کوڑل ڈہراج، اشعر سعید، اسد ممتاز رِڈ، محکمہء ثقافت، حکُومتِ سندھ کے ڈپٹی ڈائریکٹرز۔ حبیب اللہ میمن اور سلیم سولنگی کے علاوھ ادیبوں، دانشوروں، ادب دوستوں اور صحافیوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments