گلگت بلتستان میں بلوچستان ماڈل


2009 میں گلگت بلتستان میں مھدی شاہ کی حکومت آئی تو یہ مکمل طور پر نہ سہی مگر بہت حد تک پیپلز پارٹی کی سیاسی حکومت تھی۔ وزیر اعلی مھدی شاہ آف سکردو، اسپیکر وزیر بیگ آف ہنزہ، گورنر کرم علی شاہ آف غذر، سعدیہ دانش، سینئر وزیر جعفر، اسماعیل وغیرہ وغیرہ، الغرض حکومت کے بڑے سرپینج لوگ حقیقی ”پیپلے“ تھے اور فطری سیاست دان بھی۔

2015 میں حفیظ حکومت تشکیل پاتی تھی۔ اس حکومت کو لوٹوں کا سہارا ضرور تھا مگر اپنے رنگ ڈھنگ اور سیاسی اطوار میں لیگی حکومت ہی تھی اور ہے۔

جمہوری روایات اور سماجوں میں 10 سال کا عرصہ بہرحال ایک معقول مدت ہوتی ہے۔ عوام نے 2 سیاسی حکومتیں دیکھیں (یا بھگتیں ) تو اب چاہیے تو یہ تھا کہ جمہوری عمل اپنا ارتقائی سفر آگے کی طرف جاری رکھے، لوگوں کا سیاسی شعور مزید پختہ ہو۔ ادارے ڈیویلپٹ ہوں اور جمہوری اقدار پروان چڑھیں۔ یعنی 2020 میں جو صوبائی حکومت بننی ہے اسے مزید سیاسی ہونا چاہیے تھی۔ مگر جب ہم 6 سے 8 ماہ بعد ممکنہ طود پر وجود پاتی گلگت بلتستان کی تیسری سیاسی حکومت ( 2009 سے تاریخ شروع کرتے ہوئے ) کے ڈھانچے میں قرطاس پر $رنگ بھرتے ہیں تو ہمیں جمہوری عمل پیچھے کی طرف جاتا نظر آتا ہے۔

تحریک انصاف کے پاس نعرے، دعوے، وعدے تو وافر ہیں مگر نہیں ہے تو سیاسی روایت نہیں، جمہوری اقدار نہیں اور سب سے بڑھ کر سیاسی لیڈر نہیں۔ بچارے پی ٹی آئی کارکن لاکھ نعرہ لگائیں ”وزیر اعلی جعفر شاہ“، مگر جعفر شاہ نہ تحریک انصاف قبیل سے موافق سیاسی رہنما تھے نہ ہیں نہ ہو سکتے ہیں۔ جس دن وفاق میں عمران خان نہیں ہوں گے اسی دن ہی جعفر شاہ اور ان جیسے سارے وزارت کے دعویدار و منتظر سیاست دان تتر بتر ہوں گے۔ دوسری مگر اہم بات یہ کہ گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کہیں سے بھی اور کسی طرح بھی کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی اگر واقعی تبدیلی کی جماعت ہوتی تو تقی اخونزادہ کو وزیر اعلی کا امیدوار بناتی، عدیل شگری، ڈاکٹر زمان، فتح اللہ جیسے لوگوں آگے لاتی تو ایک خوشگوار سیاسی تبدیلی محسوس کی جا سکتی تھی۔ مگر پارٹیاں بدل بدل کر وفاقی ٹکٹ ڈھونڈنے والے الیکٹیبلز کا اکٹھ بنا کر یہ کیا بیچ رہی ہے؟

گلگت بلتستان چونکہ کلی طور پر ایک جیو اسٹریٹیجک خطہ ہے۔ یہاں کے لوگوں کی سیاسی تقدیر کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ اب یہ سیاسی پریکٹس بن چکی کہ وفاق اور گلگت میں یکساں پالیسیاں رکھنے والی حکومتیں ہوں گی۔ اس کو ہم بلوچستان ماڈل کا نام دے سکتے ہیں۔ بھٹو دور کے بعد بلوچستان میں بھی ہر دفعہ یہی ہوتا رہا ہے کہ الیکشن سے قبل حکومت یہاں تک کی وزیر اعلی بھی فکس ہو چکا ہوتا ہے۔ چونکہ اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ بلوچستان میں ویسی ہی حکومت ہو جیسی مرکز میں ہے سو سارے سردار و نواب الیکٹیبلز بدل بدل کر حکومت کرتے ہیں۔

ایک دلچسپ مگر عجیب بات یہ کہ 2008 میں وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت آتی ہے تو بلوچستان میں بھی لائی جاتی ہے، مگر 2013 میں یہی پیپلز پارٹی 65 کے ایوان میں ایک نشست نہیں نکال پاتی۔ اسی طرح 2008 میں بلوچستان سے مسلم لیگ ن کو نہ قومی اسمبلی کی کوئی سیٹ ملتی ہے نہ صوبائی اسمبلی کی مگر اگلے ہی الیکشن میں ن لیگ خم ٹھونک کے صوبے میں حکومت بناتی ہے۔ (پہلے ڈھائی سال اتحادی پھر ن لیگی) ۔ پیپلز پارٹی کے دور میں 65 کے ایوان میں 64 ارکان حکومتی اتحاد میں تھے بشمول 51 وزراء۔

جو ایک رکن اپوزیشن میں تھا تو اس لئے کہ اپوزیشن لیڈر بن کر وزیر برابر مراعات لینا تھیں۔ (وزارتوں کی بھرمار اب گلگت بلتستان میں بھی ہے۔ 2009 کا آرڈیننس آیا تو یہ کہا گیا کہ کابینہ 6 وزراء اور 2 مشیروں پر مشتمل ہو گی۔ اب تو خیر سے ایک آدھ کے سوا تمام براہ راست منتخب حکومتی ارکان وزارتوں پہ براجمان ہیں۔ )

خلاصہ کلام یہ کہ گلگت بلتستان کی سیاست اب بلوچستان ڈگر پہ چڑھ چکی ہے۔ غیر محسوس انداز میں عملی سیاست نوجوانوں کے لئے مشکل تر بنا دیا گیا ہے۔ اب جس کے پاس دولت کی ریل پیل ہو گی، ڈیلنگ بارگیننگ کے لئے پیسہ ہو گا وہی ہر پارٹی ہر حکومت میں شامل ہو سکتا ہے، سیاسی اپروچ رکھنے والے نوآموز سیاست دانوں کے لئے سیاسی بساط پر جگہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بلوچستان میں نواب، سردار عوام پر مسلط ہیں تو اب گلگت بلتستان کی سیاست ٹھیکیداروں اور دولت مندوں کا کلب گیم بن چکی ہے۔

سیاسی اقدار ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ سیاست اپنی فطرت کھوتی رہی ہے، سیاسی جماعتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں اور ادارے کمزور سے کمزور تر ہو رہے ہیں۔ سیاست وہ شعبہ ہے جو دیگر تمام شعبہ ہائے زندگی کا رخ طے کرتی ہے۔ انسانی سماج کو قیادت مہیا کرتی ہے اور حکومتی نظام کو چلاتی ہے مگر جب سیاست ہی اپنے اصل میں سیاست نہیں رہتی تو سماج بھی اپنی فطرت سے ہٹ جاتی ہے۔ مختلف شعبہ ہائے زیست بے سمت ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کی تقدیروں کے فیصلے سورج دماغ لیڈروں کے بجائے مال و متاع کے حرص میں مبتلا لوگوں کے ہاتھوں چلے جاتے ہیں۔

ہم اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں داخل ہو چکے ہیں مگر ہنوز ہمیں سیاسی بساط میسر نہیں۔ ہم اپنے لئے حکومت بنانے کے مجاز نہیں، جمہوریت کی معروف ترین تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ ”عوام کی حکومت عوام کے لئے عوام کے ذریعے“ یعنی ہم اب تک ابرہم لنکن کی ڈیڑھ سو سال قبل کی ہوئی جمہوریت کی تعریف پر ہی پورے نہیں اترے۔ ہم سیاست اور جمہوریت کے بلوچستان ماڈل میں جی رہے ہیں۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments