امریکہ ٗ افغان امن معاہدہ ایک پیغام!


افغانستان میں 19 سالہ جنگ کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان تاریخی امن معاہدے پر دستخط ہوچکے۔ معاہدے کے مطابق اگر طالبان معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے تو امریکہ اور ان کے نیٹو اتحادی اگلے 14 ماہ میں افغانستان سے اپنی تمام افواج واپس بلا لیں گے۔ معاہدے پر امارتِ اسلامیہ افغانستان کی جانب سے طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر اور امریکہ کی جانب سے خصوصی نمائندے زلمی خلیل زاد نے دستخط کیے ہیں۔ دوران ِ دستخط معاہدہ ہال اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھا۔

معاہدہ ہونے کے بعد امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اگر افغان طالبان امن و امان کی ضمانتوں اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے وعدے پر عمل درآمد نہیں کرتے تو ہم اس تاریخی معاہدے کو ختم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ ‘

اس معاہدہ امن میں پاکستان کا کردار قابل تحسین ہے۔ پاکستان ہمیشہ خطہ میں امن، سلامتی کا خواہاں رہا اور اپنا کردار بھی ادا کیا۔ مائیک پومپیو نے پاکستان کے امن معاہدے میں کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’افغانستان میں امن لانے کے لیے آئندہ بھی پاکستان اپنا کردار ادا کرے۔

امریکہ بلا شبہ دُنیاکا سب سے طاقت ور ملک ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد پوری دُنیا پر اس کا غلبہ رہا ہے۔ امریکہ نے بے پناہ دولت بھی بنائی اور وہ دولت اور اثاثوں کے اعتبار سے بھی دُنیا میں سب سے آگے ہے۔ امریکہ کی کئی ریاستوں کی معیشت اتنی بڑی ہے کہ دُنیا کے بیشتر ملکوں کی معیشت بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ بایں اہمہ ایک سپر پاور نڈر، جہاں یہ معاہدہ امن کی نوید کے ساتھ ہی معیشت میں بہتر ثابت ہو گا، تو وہاں ہی مودی سرکار جیسے ہٹلر کے لیے نوشتہ دیوار بھی ہے کہ؛اپنے جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہزاروں جنگی جہازوں، ٹینکوں اور میزائلوں کی پورے انیس سال جاری رہنے والی اس جنگ کا نتیجہ بھوکے ننگے اور محض اللہ کی ذات پر بھروسا رکھنے والے افغان طالبان کی شاندار فتح اور امریکہ، نیٹو اور اس کے چالیس سے زیادہ صلیبی اتحادی ممالک کی بد ترین شکست پر منتج یہ واضح کر رہا ہے کہ قوموں کی تقدیر کا راز یہ ہے کہ جب تک وہ اپنے آپ کو عسکری طور پر مضبوط رکھتی ہیں، ان کے دلوں میں جذبہ جہاد خودی، قومی غیرت اور بے خوفی کا شعور موجزن رہتا ہے ان کی تقدیر بلندیوں کی جانب سفر کرتی رہتی ہے لیکن جب وہ تلوار اور عسکری طاقت کو چھوڑ کر راگ رنگ اورعیش و طرب میں ڈوب جاتی ہیں تو ان کا انجام عبرت ناک ہوتاتا ہے۔

پندرہویں سے لے کر اٹھارویں صدی تک آبادیاتی نظام یعنی قوموں اور ملکوں کو غلام بنانے کی صدیاں تھیں جس میں ایک آدھ کے علاوہ تمام مسلمان ممالک کو غلام بنا لیا گیا تھا۔ بیسویں صدی سے نوآبادیاتی نظام معرض وجود میں آیا ہے جس کے تحت ملکوں پر قبضہ کرنے کی بجائے قوموں کو ذہنی طور پر غلام بنایا جاتا ہے جس کے لیے عسکری قوت، دولت، ٹیکنالوجی، سائنسی اور تعلیمی ترقی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ آج امریکہ نے یورپی ممالک سے مل کر تمام اسلامی ممالک اور دوسری کئی قوموں کو سائنسی، عسکری، معاشی اور تعلیمی ترقی کے بل بوتے پر ”غلام“ بنا رکھا ہے۔ اس غلامی کی بڑی وجہ ہماری مجموعی طور پر پسماندگی ہے جس نے ہمیں خودی، قومی غیرت اور خود اعتمادی سے محروم کر کے امریکہ اور یورپ کی ذہنی غلامی میں گرفتار کر رکھا ہے۔

ہمارے لیے یہ مثال ہے کہ 19 سال پہلے صرف اور صرف اللہ کی نصرت پر یقین رکھنے والا اور دُنیا کی سپر پاور کو صفر پاور ماننے والا طبقہ جو اس وقت صلیبیوں کے خلاف اللہ کی نصرت اور ان کی مدد کے لئے ابابیل کے منتظر تھے۔ انہیں اب تو سمجھ آئی ہوگی کہ اللہ کی نصرت آپہنچی ہے۔ ابابیل آپہنچے ہیں۔ تھوڑی تاخیر ہی سے سہی لیکن لٹے پٹے، بھوکے ننگے مسلمان کے ساتھ اللہ کی مدد کا وعدہ کیسے پورا ہوا۔

جدید ترین اسلحہ، ٹیکنالوجی پر ایمان کی حد تک یقین رکھنے والے اوراپنی آزادی اور خود مختاری کی جنگ لڑنے والوں کو حقیر سمجھنے والے امریکی وصلیبی اب طالبان کے آگے بے بس ہوکر براہ راست مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہیں۔ تاکہ انہیں افغانستان سے بھاگنے کامحفوظ راستہ ملے۔

اس سے پہلے بھی امریکی صدر براک اوباما اعتراف کر چکے کہ ”امریکا نہ تو طالبان کو ختم کرسکتا ہے اور نہ ہی افغانستان میں تشدد کو کم کرسکتا ہے تاہم وہ جنوبی ایشیاء میں کسی بھی دہشت گرد گروپ کا سامنا کرنے کے لیے انسداد دہشت گردی کی صلاحیت کو بڑھا سکتا ہے“۔

اگر انیس سالہ جاری جنگ پر نظر ڈالی جائے تو افغانستان، نیٹو، امریکہ اور اس کے حواریوں کے لئے قبرستان بن چکا ہے۔ افغانستان کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جہاں صلیبیوں کے پر خچے نہ اڑے ہوں، ان کا خون نہ بہا ہو۔ اعداد وشمار کے مطابق اس جنگ میں امریکہ کے تقریباً 2412 فوجی طالبان کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں۔ برطانیہ کے 456، کینیڈا کے 157، فرانس کے 88، جرمنی کے 57، اٹلی کے 53، پولینڈ کے 44، ڈنمارک کے 43 جبکہ آسٹریلیا کے 41 فوجی طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔

دیگر متاثرہ ممالک میں سپین کے 35، جارجیا کے 32، رومانیہ کے 26، نیدر لینڈ ز کے 25، ترکی کے 15، چیک ریپبلک کے 14، نیوزی لینڈ کے 10، ناروے کے 10، اسٹیونیا کے 9، ہنگری کے 7، سویڈن کے 5، لٹویا کے 4، سلوواکیہ کے 3، فن لینڈ کے 2، اردن کے 2، پرتگال کے 2، جنوبی کوریا کے 2، البانیہ کا 1، بلجیم کا 1، لتھوانیا کا 1 اور مانٹیگرو کا 1 فوجی افغان طالبان کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں۔

جو بھی ملک غیور افغانوں کو فتح کرنے افغانستان آئے وہ اپنی فوجیوں کے تابوت اٹھا کر لے گئے۔ یوں کل 3558 امریکی و صلیبی فوجی اس جنگ کی نذر ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ افغان جنگ میں شامل کچھ فوجی افغانستان آتے جاتے راستے میں مختلف حادثات کی نذر ہوگئے۔ ان میں امریکہ کے 59، سپین کے 62 اور کینیڈا کا 1 فوجی شامل ہے۔ اگر ان کو ملالیا جائے تو مرنے والے صلیبیوں کی کل تعداد 3680 بنتی ہے۔

طالبان کے حملوں میں افغان نیشنل آرمی کے 45735 فوجی مارے جا چکے ہیں۔ جو کہ کل 174000 افغان نیشنل آرمی کا 26.28 بنتاہے۔ اس کا سیدھا سامطلب یہ ہوا کہ افغان نیشنل آرمی کاچھوتائی سے زیادہ حصہ طالبان کے ہاتھوں اگلی جہان سدھار چکا ہے۔ اگر افغان پولیس کی ہلاکتوں کی تعداد کو ملالیا جائے تو یہ تعداد کہاں تک پہنچتی ہے کوئی حساب کتا ب نہیں۔ یوں اگر صرف افغان نیشنل آرمی اور امریکی و اتحادیوں کی ہلاکتوں کی کل تعداد کو ملالیا جائے تو یہ 51500 کی ہندسے کو کراس کرتی ہے۔

طالبان کے ہاتھوں مرنے والے 2000 امریکہ کے قاتل ایجنسیوں یعنی وار کنٹریکٹرز اس کے علاوہ ہیں۔ جہاں تک زخمی ہونے وال والوں کے اعداد و شمار کا تعلق ہے تو طالبا ن کے اندھا دھند اور جان لیو ا حملوں میں اب تک 22773 اتحادی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ زخمی ہونے والوں میں بھی سب سے زیادہ تعداد 19950 امریکہ کی ہے۔ برطانیہ کے 2188، جبکہ کنیڈا کے 635 فوجی زخمی ہوئے۔ وار کنٹریکٹرز کے 15000 بھی زخمی ہوئے۔ مرنے والے اور زخمی ہونے والوں کی یہ وہ تعداد ہے جو خود امریکی اور اتحادی تسلیم کرتے ہیں۔ مگر بلاشبہ اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہوگی۔

کیونکہ دُنیا بھر کے افواج کی روایت رہی ہے کہ وہ اپنے مرنے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد گھٹا کر پیش کرتی ہے تاکہ فوجیوں کا مورال نہ گرے۔ اس لئے تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے جرنیلوں اور وزیر دفاع جم مٹس پر غصہ ہوئے کہ وہ ناکام رہیں۔ جس کے بعد وہ مستعفی ہوئے۔ جہاں تک جنگی اخراجات اور ہلاکتوں کی تعداد کا سوال ہے تو امریکی یونیورسٹی بران کیواٹسن انسٹیٹیوٹ فا ر انٹرنیشنل پبلک افیسرز کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نائن الیون کے بعد سے اب تک عراق، افغانستان، پاکستان میں تقریباً 50 لاکھ افراد مارے گئے ہیں۔ جبکہ امریکہ نے نائن الیون کے بعد جنگوں پر 6 ٹریلین ڈالر (چھ ہزار ارب ڈالرز) خرچ کیے ہیں۔

پینٹا گان نے اب ایسی حالت میں افغانستان کا غیر عسکری حل تسلیم کیا ہے۔ جبکہ پلوں کے نیچے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے۔ امریکہ کی معیشت کا ناقابل ِ تلافی نقصان ہوا تو ساتھ ہی ایک سپرپاور کی رخصتی ہوئی۔ افغانستان سپر پاورز کا قبرستان رہا ہے۔ انگریزوں، روسیوں اور امریکیوں کے بعد اب نیٹو نے بھی یہاں شکست کھائی ہے۔ جو کہ تاریخ میں نیٹو کی پہلی شکست ہے۔

دُنیا کی سپر پاور کہلانے والے کا یہ اعتراف شکست دُنیا بھر کی اقوام اور ملکوں ٗ خصوصاً مودی کے لیے پیغامِ عبرت ہے کہ وہ وقت بھی قریب ہے جب کشمیر سے درند صفت بھارتی رسوا ہو کر نکلیں گے۔ ۔ ۔ کاش کہ وہ کچھ سبق لے لیں! ایک ہی سپرپاور ہے، الحکم للہ، الملک للہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments