میرا جسم میری مرضی


کچھ دنوں سے کلاس میں لیکچر ہو، ہوٹل کی میز پر بحث مباحثہ ہو، گھر کا ٹی وی ہو یا سوشل میڈیا ہو ہر جگہ میرا جسم میری مرضی کا بول بالا ہے۔ میرا جسم میری مرضی پر بات کیے بغیر کوئی مباحثہ ختم نہیں ہوتا اور 8 مارچ تک اوراس کے بعد بھی لگ بھگ ایسا ہی موسم رہنے کی پیشگوئی ہو رہی ہے۔

میرا جسم میری مرضی کو ہر کوئی اپنی پسندیدہ (نظریے، سوچ اور فکر) والی عینک لگا کر تشریح کرتا ہے۔ ان چار لفظوں کی تشریح اگر مذہبی عینک کرے تو رنگ مذہب کا ہوتا جیسے یہ سب اسلام کے خلاف ہے اور اسلامی اقدار کو مجروح کرنے کی مغربی سازش وغیرہ وغیرہ۔ پھر جب عینک کلچر اور روایات کا ہو تو اس کا رنگ پھر کچھ یوں ہوتا ہے کہ یہ مشرقی روایات کے منافی ہے اور ہمارا تہذیب اس بات کی اجازت نہیں دیتا اور ایسا نہیں ہونا چاہیے، اب اگر ان چار لفظوں کو ُاس نظریے والی عینک میں دیکھا جائے جو مغربی اور ترقیافتہ ممالک کی طرز ترقی کو پسند نہیں کرتے وہ رنگ پھر کہتا ہے کہ یہ کچھ این جی اوز کی فنڈنگ سے پروگرام کے تحت ہو رہا ہے۔ ترقی پسند اور فیمنسٹ کی عینک میں عورت کے حقوق ہے ہیں جس میں تعلیم، صحت، روزگار، حفاظت وغیرہ ہے۔

اب آتے ہیں میرا جسم میری مرضی کا مطلب کیا ہے؟ کچھ فیمنسٹ اور لبرلز عورتیں اور مرد حضرات اس مطلب کو ریپ، پسند کی شادی، کم عمر میں شادی، جائیداد میں حصہ، جیسں مطالبات سے منسوب کرتے ہیں جو بالکل ٹھیک ہے اور اسے ہم کو سب سپورٹ بھی کرنا چاہے لیکن پھر اس سے اگے ان کے کچھ ایسے مطالبات ہے جس کی نہ ہمارے معاشرے کو ضرورت ہے نہ ہماری عورتوں کو لیکن ان مطالبات کو شامل کیا جارہا ہے۔ جس میں طلاق، شوہر سے اچھے تعلقات اور حاجت پوری کرنے میں شرائط رکھنا شامل ہے جس سے نہ صرف اس مارچ کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ ہماری باعزت عورتوں کی زندگی بھی مشکل ہو رہی ہے۔

اب اعتدال پسند اور مذہبی حضرات اس کو مذہب روایات اور اقدار کے ساکھ کو نقصان پہچانے کے مترادف سمجھتے ہیں کیونکہ وہ اس سوچ کو پروان چڑھنا چاہتے ہیں جس میں عورت ان کے برسوں پہلے بنائے ہوئے اصولوں کے ماتحت ہو اور اسی طرح رہے۔ عورت کی آزادی بالکل نہیں چاہتے اور اس سے بڑھ کر تشدد پر اتر آئے ہیں اور اپنے مخالف سوچ اور فکر رکھنے والوں پر طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں جو کہ قابل مذمت ہے اور قابل افسوس ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ دونوں گروہ اپنی اپنی صفوں میں اصلاح اور لچک پیدا کریں اورعورت کے بنیادی حقوق جس سے آج بھی ہماری عورتیں محروم ہے۔ ہماری عورتیں آج بھی غیر انسانی سلوک سے دوچار ہے۔ ہماری عورتوں کے پاس آج بھی تعلیم کا حق نہیں۔ ہمارے عورتوں کی زندگی کا فیصلے آج بھی اس کی اجازت اور مرضی سے نہیں ہوتے، اور بہت سے ایسے مسائل ہیں جس کے لئے پوری قوم کو متحد ہو کر انہیں اس انسانی عذاب سے نکالنا چاہیے کیونکہ عورت معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح حیثیت رکھتی ہے۔

باقی جسم جسم ہوتا ہے مرضی مرضی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments