نجکاری اداروں کی نہیں، سربراہوں کی ہونی چاہیے


وزیراعظم عمران نیازی کے مطابق ایسے تمام ادارے جو نقصان میں ہیں، انہیں فوری طور پر فروخت کردیا جائے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ قومی ادارے نقصان میں ہیں بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ سرکاری ملکیت میں موجود یہ ادارے نقصان میں کیوں ہیں اور یہ نجی شعبے میں جاتے ہی کس طرح سے منافع بخش بن جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملات اداروں کے خراب نہیں ہیں بلکہ معاملات سرکار کے خراب ہیں۔ تو پھر اداروں کی نجکاری سے سوائے قومی وسائل کے ضیاع کے کیا حاصل ہوگا۔

کیوں نہ اصل خرابی کو درست کیا جائے۔ اگر سرکاری شعبے کی خرابی کو درست نہ کیا گیا تو پھر معاملات حکومت کی نجکاری تک بھی جاسکتے ہیں۔ ویسے بھی سرکار نے اہم ترین شعبہ جات تو آوٹ سورس کرہی دیے ہیں۔ پاکستان کا معاشی شعبہ مکمل طور پر آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے حوالے کردیا گیا ہے۔ اب آئی ایم ایف کے حاضر سروس افسران ہی پاکستان کا بجٹ بناتے ہیں اور وہی ٹیکس بھی عائد کرتے ہیں اور انہیں وصول کرنے کا انتظام بھی۔

جب سب کچھ دوسرے لوگوں ہی کو کرنا ہے تو پھر عمران خان نیازی کی حکومت کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ حکومت کا کام ہی یہی ہے کہ وہ نجی شعبے کو ریگولیٹ کرے تاکہ نجی شعبہ عوام سے لوٹ مار نہ کرسکے اور عوام کو بہتر سہولیات دستیاب ہوسکیں۔ پاکستان میں معاملات اس کے بالکل الٹ ہیں۔ یہاں پر عوام کو سہولیات دینے کے بجائے سہولیات کی واپسی کا عمل جاری ہے۔ صحت و تعلیم کے شعبے ہی کو دیکھا جاسکتا ہے کہ عمران خان نیازی کی حکومت نے دیکھتے ہی دیکھتے دستیاب طبی سہولیات بھی واپس لے لیں اور اب سرکاری شعبے میں موجود سرکاری اسپتال آوٹ سورس کیے جارہے ہیں۔

تعلیمی اداروں کو دی جانے والی گرانٹ بھی بتدریج ختم کی جارہی ہے اور یوں سرکاری تعلیمی ادارے بھی اپنی موت آپ مرنا شروع ہوگئے ہیں۔ نجی شعبے میں موجود اداروں کی کارکردگی کو کے الیکٹرک کے آئینے میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ جب سے کراچی کے شہریوں کو کے الیکٹرک کے حوالے کیا گیا ہے، بجلی کی فراہمی میں بہتری تو کیا آتی، البتہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔ جس گھر پر چاہے جتنے کا بل بھیج دو، کہیں پر کوئی شنوائی نہیں ہے۔

جو بل بھیج دیا گیا ہے وہ لازمی بھرنا ہوگا، اگر نہیں بھرا تو ریاستی پولیس اور دیگر ادارے کے الیکٹرک کی مدد کے لیے موجود ہیں اور گرفتاری سمیت تمام امور کی انجام دہی کے لیے مستعد بھی ہیں۔ عمران خان نیازی کو سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان اسٹیل مل ہو یا پی آئی اے، یہ ادارے یوں ہی نہیں قائم کردیے گئے تھے بلکہ ان کے پس پشت عوامل میں پاکستان کو خود انحصاری کی منزل پر لانا شامل تھا۔ یہ ادارے محض اس لیے تباہی کی داستان بن گئے کہ جو بھی سرکار آئی، اس نے ان اداروں میں نا اہل شخص کو سربراہ بنایا اور اسے لوٹ مار کا ذریعہ بنایا۔

پی آئی اے میں عمران خان نیازی ہی نے ایسے فرد کو سربراہ بنایا ہے جسے کمرشل ایوی ایشن کی ابجد بھی نہیں آتی۔ عدالت عظمیٰ بھی ان کی تعیناتی پر سوال اٹھا چکی ہے۔ حکومت نے پی آئی اے کا سربراہ ہی نا اہل شخص کو متعین نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ پاک فضائیہ کے مزید آٹھ حاضر سروس افسرا ن کو بھی پی آئی اے کی اہم اسامیوں پر تعینات کردیا۔ ان میں سے ایک افسر پر تو جنسی ہراسانی کا کیس باقاعدہ درج ہے اور سینیٹ کی کمیٹی کئی مرتبہ انہیں اس جرم کی تحقیقات کے لیے طلب کرچکی ہے مگر وہ کہیں پر بھی حاضری کے لیے تیار نہیں ہیں۔

عمران خان نیازی اب بتائیں کہ ایسی صورت میں پی آئی اے جیسا اہم ادارہ تباہ ہوگا یا نہیں۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ پی آئی اے صرف پاکستان کی شناخت ہی نہیں ہے بلکہ اس کی اہمیت اسٹرٹیجک بھی ہے۔ پاکستان اسٹیل کو انہوں نے اپنے مشیر عبدالرزاق داؤد کے حوالے کردیا ہے جن کے اپنے کاروباری مفادات کا پاکستان اسٹیل مل سے ٹکراوہے۔ مفادات کے اسی ٹکراوکی بنا پر عبدالرزاق داود کو پرویز مشرف کے دور میں کابینہ سے الگ کیا گیا تھا۔ جب بلی ہی کو دودھ کا رکھوالا مقرر کردیا جائے تو پھر رکھوالی کس طرح ہوسکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نیازی کو چاہیے کہ وہ تمام لوگوں کی سمت درست کریں۔ انہیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ خرابی اداروں میں نہیں ہے بلکہ ان کے رکھوالے افسران کی طرز حکمرانی میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments