میرا جسم کس کی مرضی؟


بات نکلی ہے تو اب دور تلک جائے گی۔ ان دنوں گلی کوچوں سے لے کر سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا میں جو بات ہر خاض و عام کے درمیان زیرِ بحث ہے وہ یہ کہ میرا جسم کس کی مرضی ہونی چاہیے؟

اس بحث نے تب طول پکڑ لیا جب ایک نجی ٹی وی میں ٹاک شو کے دوران معاروف مصنف نے ایک فیمنسٹ خاتون کے بارے نازیبا الفاظ کہے۔ یہاں سے دو سوچ رکھنے والوں کے درمیان ایک نا ختم ہونے والی بحث اور لفظی جنگ چھڑگئی۔ ایک گروپ کا یہ ماننا ہے کہ ہمارا جسم ہماری مرضی جبکہ دوسرے گروپ کواس سے شدید اختلاف ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”میرا جسم میری مرضی“ اس سلوگن میں مسئلہ کیا ہے لوگ اس کے اتنے مخالف کیوں ہیں؟ میرا جسم پر میرا اختیار نہیں ہوگا تو کیا میرے محلے والوں کا اختیار ہوگا؟ میرا جسم، تو مجھے یہ اختیار حاصل ہے کہ میں کیسے چلتا ہوں، کیسے بیٹھتا ہوں، کیسے ہنستا ہوں، کیسے بولتا ہوں، کیسے سوتا ہوں، کسے پسند کرتا ہوں، کیسے سوچتا ہوں کیا سوچتا ہوں؟ آپ مجھ پر اپنی سوچ اور اپنے جینے کا طریقہ مسلط نہیں کرسکتے۔

دنیاعلمی، سائنسی اور اخلاقی ترقی کی بلندیوں کو چُھورہی ہے جبکہ ہم اس بحث میں خود کو اُلجھائے ہوئے ہیں کہ ہمیں ہمارے جسم پر اختیار ہے کہ نہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے اداروں کو خواتین چلا رہی ہے، اور دنیا خواتین کے کردار کا اعتراف کرچکا ہے اسی لیے ایک طرف فن لینڈ جیسے ملک کو خواتین چلا رہی ہیں، جہاں وزیراعظم سے لے کر وزیر داخلہ، وزیر تعلیم اور وزیر خزانہ تک خواتین کے ہاتھوں میں ہیں۔

جب کہ دوسری جانب ہمارے ہاں یہ بحث جاری ہے کہ عورت بھی مردوں کے ساتھ کام کرسکتی ہے کہ نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری یہاں عورت گھر کی چاردیواری تک محدود ہو۔

وقت بدل چکا ہے اب عورتوں کو بھی مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کی آزادی ملنی چاہیے۔ اُنھیں جو حقوق اسلام نے دیے ہیں اور جو حقوق آئینِ پاکستان نے دیے  وہ انھیں ملنے چاہئیں۔

پاکستان کی کُل آبادی کا 48.5 فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے جن کے حقوق کو ہم قطعاً اگنور نہیں کرسکتے۔

سب سے پہلے یہ ریاستِ پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کا تحفظ ناصرف یقینی بنائیں بلکہ عملی طور پر خواتین کو خود مختار بنائے، تاکہ وہ پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہم سب کو گھر سے ہی اپنے بیٹے بیٹوں کو ایسی تربیت دیں اورگھر میں ایسا ماحول پیدا کریں جہاں دونوں کو برابر کے حقوق ملیں، اگر ہمارے بچے ایسے ماحول میں پرورش پائینگے تو مستقبل میں انھیں کسی سے اپنے حقوق منوانے کی نوبت ہی پیش نہیں آئے گی۔

تیسری اہم ذمہ داری اساتذہ کی بنتی ہے۔ اسکولز، کالجز اور جامعات میں وہ اپنے طلبہ کو ایک دوسرے کا احترام، اپنے اور ایک دوسرے کے حقوق کی حفاظت اور برابری کی تعلیم دیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی اپنے اداروں میں ایسے قوانین بنائیں اور ایسا موحول پیدا کہ جس تقسیم کے بجائے اتحاد اور برابر کا درس ملتا ہو۔

ریاست پاکستان، والدین اور اساتذہ کو مل اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ تب جاکے ہم اس مسئلے پر قابو پاسکتے ہیں ورنہ دوسری صورت میں ہمیں اس کے سنگین نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments