اسلام أباد کے ایچ 8 قبرستان میں مدفون ادبی شخصیات


H۔ 8 کا قبرستان اسلام أباد کے بڑے قبرستانوں میں سے ایک ہے۔ یہاں پہ سینکڑوں یا شاید ہزاروں قبریں ہیں۔ یہ قبرستان محکمہ موسمیات کی بلڈنگ کے سامنے ہے۔ گزشتہ دنوں ایک کام کے سلسلے میں جانا ہوا تو سوچا قبرستان سے بھی ہوتا چلوں۔ کام سے فراغت کے بعد میں پیدل چلتا ہوا اور گوگل میپ کی کچھ مدد لیتے ہوئے قبرستان ڈھونڈنے لگا۔ پانچ منٹ کا پیدل مارچ کرنے کے بعد مجھے قبرستان نظر أ گیا۔

قبرستان پہ جانے کی پہلی وجہ درحقیقت قدرت اللہ شہاب تھے۔ چونکہ ان دنوں شہاب نامہ زیر مطالعہ ہے تو گوگل سے پتہ چلا کہ قدرت اللہ شہاب یہاں مدفون ہیں۔

قبرستان پہنچ کر میں اندر داخل ہوا تو سامنے سینکڑوں قبریں موجود تھیں۔ ان گنت قبروں میں کسی ایک قبر کو ڈھونڈنا مشقت والا کام تھا۔ سو میں قدرے مایوسی سے أگے بڑھ گیا۔ قریب ہی ایک ہم عمر نوجوان کو دیکھا۔ جو قبروں کی صفائی میں مشغول تھا۔ دن کے گیارہ بجے بھی بلا کا سناٹا تھا۔ میں نے أگے بڑھتے ہوئے نوجوان سے پوچھ لیا کہ أپ یہاں پر کام کرتے ہیں؟ جس پر اس نے اقرار میں سر ہلا دیا۔ کیا یہاں پر قدرت اللہ شہاب یا کسی اور مشہور شخصیت کی قبر ہے؟ میں نے دوبارہ دریافت کیا۔ اس بار بھی جواب مثبت تھا۔

وہ مرد عاقل میرے کہے بغیر ہی مجھے قبر دکھانے چل پڑا۔ چلتے چلتے میں نے یونہی دریافت کیا۔

یہاں پہ اور بھی مشہور شخصیات دفن ہیں ”؟ “

اس نے جواب دیا جی، یہاں پہ احمد فراز، پروین شاکر، ممتاز مفتی، مولانا کوثر نیازی اور نسیم حجازی کی قبریں موجود ہیں۔ اتنے میں ہم قدرت اللہ شہاب کی قبر پہ پہنچ چکے تھے۔ سفید رنگ کی پختہ قبر۔

قبر پہ جا بجا گلاب کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں۔ لیکن اب مرجھا چکی تھیں۔ کہیں کہیں گھاس بھی اگ چکی تھی۔ قبر تک پہنچا کر گورکن مجھے احمد فراز، پروین شاکر اور مولانا کوثر نیازی کی قبروں کا راستہ سمجھانے لگا۔

”دیوار کے ساتھ لگ کر أپ سیدھے چلے جائیں تو دائیں طرف راستے کے ساتھ ہی مولانا کوثر نیازی کی قبر أئے گی اس کے ساتھ ہی ان کی بیگم کی قبر بھی موجود ہے۔ اس سے تھوڑا أگے جائیں گے تو ایک بڑا شیلٹر أئے گا جس کے نیچے ہی احمد فراز کی قبر ہے۔ اس سے مزید أگے دائیں طرف کو پروین شاکر کی قبر ہے“۔

راستہ سمجھانے کے بعد گورکن واپس ہو لیا۔ قبرستان میں مکمل خاموشی تھی۔ ایسا لگتا تھا زمین کا یہ ٹکڑا گویا دنیا سے باہر ہے۔ کہیں کہیں باہر سڑک پر گاڑیوں کے گزرنے کی أواز ہلکی ہلکی مزاحمت کر رہی تھی مگر قبرستان کی خاموشی بہرحال قائم تھی۔

گورکن گیا، تو میں نے کندھے سے بیگ اتارا اور ’بیوروکریٹ‘ کی قبر کے پاس بیٹھ گیا۔ اور گھور گھور کر قبر کو دیکھنے لگ گیا۔ جیسے قدرت اللہ اندر محو استراحت مجھے ہی دیکھ رہے ہوں۔ فاتحہ خوانی کی، شہاب نامہ کو سلام بھیجا اور بیگ اٹھا کر أگے چل دیا۔ گورکن کی ہدایت کے عین مطابق دیوار کے پاس پہنچ کر دائیں طرف کو مڑا اور سیدھا چلنا شروع کر دیا۔ أنکھیں تین سو ساٹھ کے زاویے پہ گھوم رہی تھیں۔ رک رک کر ایک ایک قبر کو دیکھ رہا تھا۔ تھوڑا أگے چل کر دائیں طرف کی ایک قبر کے کتبے پر نظر پڑی۔

قبر کے کتبے پہ مولانا کوثر نیازی لکھا تھا۔ میں اس طرف ہو لیا۔ ان کی قبر کے ساتھ ہی ان کی بیگم کی قبر بھی موجود تھی۔ ان کی قبر پہ ان ہی کا یہ شعر درج تھا۔

کوثر ہے دل میں ایک ہی اعزاز کی ہوس

کہہ دیں وہ ﷺ حشر میں یہ ہمارا غلام ہے

تھوڑا أگے جانے کے بعد شیلٹر أ گٕیا۔ شیلٹر کے نیچے کر کے کونے میں احمد فراز کی أرام گاہ تھی۔ اس قبر کا احاطہ کافی لمبا چوڑا تھا۔ احمد فراز کی قبر پہ سیاہ چمکدار ماربل کا کتبہ لگا ہوا تھا۔ اور کتبے پہ شاعر کا یہ شعر درج تھا۔

میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فراز۔

ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا۔

یہاں بھی فاتحہ خوانی کی اور أگے چل دیا۔ اکثر قبریں کافی نفیس تھیں۔ کہیں سفید تو کہیں سیاہ چمکدار کتبے لگے تھے۔ قبروں کی صفائی شاید باقاعدگی سے کی جاتی تھی۔ جن کو دیکھ کر خوف بالکل نہ أتا ہو۔ پروین شاکر کی قبر بھی أ گئی۔ یہ بھی جاذب نظر تھی۔

سفید قبر پر لال پتیاں بکھری أنکھوں کو خیرہ کر رہی تھیں۔ قبر کٕے سرہانے اڑتالیس نمبر کا چھوٹا سا بورڈ لگا تھا۔ کتبے پہ شوہر کے بجائے والد کا نام لکھا تھا۔ کیوں کہ ان کی ازدواجی زندگی ناکام رہی تھی۔ ان کی قبر کے کتبے پہ بھی ان کا شعر درج تھا۔

یارب! مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے

زخمِ ہُنر کو حوصلہ لب کشائی دے۔

شہرِ سخن سے رُوح کو وہ آشنائی دے

آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے۔

اگلی ”تلاش“ ممتاز مفتی کی تھی۔ تھوڑی دیر دائیں بائیں گھومنے کے بعد بھی جب قبر نہ ملی تو ایک اور گورکن قریب أ گیا اور مجھ سے پوچھنے لگا کس کی قبر ڈھونڈ رہے ہیں؟

میں نے جواب دیا ممتاز مفتی کی۔ وہ مجھے دکھانے کے لیے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ پہلے بیگم ممتاز مفتی کی قبر أئی۔ اور پھر ممتاز مفتی کی۔

اس قبر کو دیکھ کر تھوڑی مایوسی ہوئی۔ اس کا کتبہ چمکدار نہ تھا۔ اور پوری قبر پر جا بجا گھاس اگ چکی تھی۔ محسوس ہوتا تھا اس کا خیال نہیں رکھا گیا۔ ہاں البتہ یہ بھی پکی تھی۔

وقت کافی ہو چلا تھا۔ واپسی کا ارادہ کیا۔ أخری قیام جوش ملیح أبادی کی قبر پہ کرنا تھا۔ اس کا مجھے اتنا معلوم تھا کہ قبرستان کے کسی مرکزی دروازے کے پاس ہے۔ میں بوجھل دل کے ساتھ چلتا چلتا مرکزی دروازے کو ڈھونڈنے لگا۔ ایسے جیسے کوئی مہمان اپنے میزبان کے ہاں سے پژمردہ دل کے ساتھ رخصت ہو رہا ہو۔ دروازے کے پاس پہنچ کر مجھے جوش ملیح أبادی کی قبر بھی نظر أ گئی۔

جوش کی نظم جنگل کی شہزادی اردو شاعری کے ماتھے کا جھومر ہے۔ یہ تھوڑی طویل ہے لیکن پڑھنے لائق ہے۔ قبر پہ پھول کی گلابی پتیاں وقت کی ستم ظریفی کے باعث نارنجی رنگ میں ڈھل چکی تھیں۔ قبر پہ شعر لکھا تھا۔

کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب۔

میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب۔

ایک نظر مڑ کے میں نے ان کتبوں کو دیکھا۔ اور تیزی سے دروازے سے باہر نکل گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments