پاکستان کے پہلے نگار ایوارڈ یافتہ پاپولر گلوکار احمد رُشدی


احمد رُشدی:

1980 کی دہائی میں پا کستان ٹیلیوژن کراچی مرکزکے شعبہ پروگرام میں خاکسار کو ملک کی نامور شخصیات کوقریب سے دیکھنے اور ان کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ جیسے احمد رشدی جو پاکستانی فلمی صنعت کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ فلمی دنیا میں ان کی آمد ریڈیو پاکستان کراچی کے ذریعہ ہوئی۔ جہاں 50 کی دہائی کے اوائل میں ریڈیو سے ان کی آواز میں بچوں کے پروگرام ”بچوں کی دنیا“ کا یہ گیت نشر ہوا : ’بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ’یہ آج بھی دلچسپی سے سنا جاتا ہے۔ احمد رشدی کی اس کامیابی کا سہرا مہدی ظہیر صاحب کے سرہے جو اس گیت کے شاعر اور موسیقار تھے۔ کُچھ ہی عرصہ بعد احمد رُشدی ملکی فلمی صنعت کے سنہری دور کا ایسا ستارہ ثابت ہوا جس کی تابندگی کم و بیش 30 سال جاری رہی۔ رُشدی صاحب کے مشہور فلمی گیتوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ پاکستانی فلموں سے شوق رکھنے والوں کی بھاری اکثریت اِس بات پر متفق ہے کہ اداکار وحید مراد کی فلموں کی اوپر تلے کامیابی کا ایک اہم سبب احمدرُشدی کے پلے بیک گانے بھی تھے۔

احمد رُشدی میرے پروگرام میں :

80 کی دہائی صحت کے حوالے سے احمد رشدی کے موافق نہ رہی۔ دورہ قلب کی وجہ سے ڈاکٹر وں نے اُنہیں آرام کرنے کا مشورہ دیا۔ میں نے اخبارات میں پڑھا کہ وہ کراچی میں قیام پذیر ہیں۔ سوچا اُن سے پروگرام ”آواز و انداز“ کروا یا جائے۔ اُسی وقت میں اپنے اول اساتذہ، ریڈیو اور فلموں کی مشہور موسیقار جوڑی، لال محمد اور بلند اقبال ( لال محمد اقبال) کے پاس گیا کیوں کہ احمد رشدی کے وہ گیت جنہوں نے انہیں شہرت دلائی، اُن میں اِن کی بھی طرزیں شامِل شامل تھیں : فلم ”نصیب اپنا اپنا“ کا مشہور گیت ’اے ابرِ کرم آج اتنا برس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ، فلم ’‘ نادان ’‘ کا گیت ’بھولا بھولا میرا نام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ، فلم ”لاڈلا“ کا یہ نغمہ

’ سوچا تھا پیار نہ کریں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ، فلم ”جین بانڈ آپریشن 008 کراچی ’‘ کا لازوال گیت ’اک اڑن کھٹولا آئے گا اک لال پری کو لائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ وغیرہ۔ اِس لئے میں نے اُن سے درخواست کی کہ رشدی صاحب کو 4 0 گیت ریکارڈ کروانے کے لئے منوائیں۔ موسیقارلا ل محمد اقبال کے ہمراہ احمد بھائی سے ملاقات سودمند رہی۔ راقم کو اس وقت بہت حیرت ہوئی جب اُنہوں نے کہا کہ 03 انتروں کے ایک گیت میں وہ عروج و زوال کی کہانی کو گیت کے ’کُوزے‘ میں بند کروانا چاہتے ہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ یہ خود ان کی اپنی کہانی تھی کہ کس طرح ایک گُمنام شخص کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا کہ شہرت اور دولت کی بلندیوں کو چھو لے۔ پھر کس طرح وہ شخص ( احمد رشدی) اللہ کا ناشکرا بنا۔ وہ، جن کے پیسے سے فلموں کا کاروبار چلتا تھا، ان ہی سے سیدھے مونہہ بات نہیں کرتا تھا۔ پھر کس طرح اوپروالے نے جھٹکا دیا۔ اور اب سارا دن ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے کا انتظار رہتا ہے کہ شاید۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت عمدہ گیت لکھا گیا۔

طے پایا کہ شالیمار ریکارڈنگ کمپنی میں یہ گیت صدا بندکئے جائیں گے۔ جہاں لال محمداقبال، ریکارڈنگ انجینیر صاحبان شریف صاحب اور سلیم قریشی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو گا۔ ایک زمانہ تھا جب احمد بھائی ایک دن میں کئی گیت ریکارڈ کروا لیا کرتے تھے اوراب 4 0 گانے 25 روز میں ”ٹریک ریکارڈ“ ہوئے۔ دِن تو بہت لگے لیکن اس آڈیو ریکارڈنگ کا معیار اتنا اعلیٰ تھا کہ بڑے بڑے موسیقی کے پنڈت بھی حیران رہ گئے کہ یہ اُسی احمد رشدی کی آواز ہے!

یہ کمال احمد بھائی کی سخت محنت، لال محمداقبال کا حوصلہ اور شالیمار ریکارڈنگ کمپنی کے ہُنر مندوں کی 200 فی صد پیشہ ورانہ مہارت کی مرہونِ منت ہے۔ لال محمد اور بلنداقبال صاحبان نے بھی احمد بھائی سے اپنی دیرینہ دوستی کا حق ادا کر دیا۔ پھرایک روز میرے اُستادِ محترم لال محمد صاحب آڈیو اسپول پر گیت منتقل کروا کے لے آئے۔ پی ٹی وی کراچی مرکز میں بلا مبالغہ جس کسی نے بھی سنا، بس سنتاہی رہ گیا۔ پروڈیوسر سلطانہ صدیقی اور پروگرام منیجر شہزاد خلیل بھی سن کر بہت خوش ہوئے۔

اب اگلا مرحلہ ویڈیو ٹیپ ریکارڈنگ یعنی وی ٹی آر کا تھا۔ احمدبھائی سے مشاورت کر کے ریکارڈنگ کی تاریخ 10 اپریل

1983 طے ہوئی۔ یہ کام آسان تھا لہٰذا امید تھی کہ چند گھنٹوں میں مکمل ہو جائے گا۔ احمد بھائی وقتِ مقررہ پر آ گئے اور آغاز اچھا ہوا۔ بچوں کے گیت پر موصوف نے بہت عمدہ ’لِپ سِنکِنگ‘ کی۔ اگلے گیت سے پہلے ایک وقفہ تھا۔ ا سی دوران قیصر مسعود جعفری آ گئے جو ایک نجی بینک میں کام کرتے اور اخبارات میں ٹی وی اسٹیشن کی خبریں دیا کرتے تھے۔ پروگرام منیجر شہزاد خلیل صاحب اپنے دفتر سے یہ ریکارڈنگ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے مجھے فون کیا کہ احمد رشدی کو و قفہ کے دوران کہیں کہ وہ ان کے آفس میں چائے پینے آ ئیں۔

میں نے مودبانہ کہا کہ احمد بھائی آج کل بے حد حساس اور زودرنج ہیں کہیں وہ برا نہ مان جائیں۔ ساتھ ہی درخواست کی کہ وہی اسٹوڈیو میں آ جائیں لیکن وہاں سے احکامات برقرار رہے۔ میں نے احمد بھائی کے سامنے پی ایم کے دفتر میں چائے پینے کی درخواست رکھی۔ بس اس کے بعد وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ احمد رشدی صاحب رنجیدہ ہو کر بولے ”آج یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ حکم دیا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چائے پی لو! “ راقم جلدی سے ان کے پاس بیٹھ گیا۔

پیار اور احترام سے ان کے کاندھے دبائے اور تسلی دی۔ اسی دوران جعفری صاحب کے ساتھ دیگر ٹی وی کارکنان بھی ر شدی صاحب کے قریب بیٹھ کر چائے پینے لگے۔ پھر اچانک احمد بھائی اُٹھ کھڑے ہوئے اور راقم کو مخاطب کر کے کہنے لگے : ’‘ اپنے پروگرام منیجر سے کہنا کہ میں نے جی توڑ کر یہ ریکارڈنگ کروائی تھی۔ ٹی وی سے ملنے والی رقم سے زیادہ تو میں نے آڈیو ریکارڈنگ میں آنے جانے کا ٹیکسی کا کرایہ دیا ہے۔ اس ذ لت کی زندگی سے تو مر جانا بہتر ہے ”۔ اتنا کہ کر وہ تیزی سے باہر نکل گئے۔ راقم، صحافی قیصر مسعود جعفری جو آج کل کراچی پاکستان فلم ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے رکن ہیں، اور دیگر افراد ان کے پیچھے بھاگے مگر احمد بھائی کو نہ رکنا تھا نہ رکے۔

اگلی صبح اخبارات میں اُن کے دل کے دورہ سے انتقال کی خبریں پڑھیں۔ 11 اپریل 1983 کو احمد رشدی صاحب انتقال کرگئے۔ اس تمام واقعہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اُن کے زندگی کے آخری گیت سرد خانے میں چلے گئے یہاں تک کہ ایک گیت جس کی

ویڈیو ریکارڈنگ بھی ہو چکی تھی وہ بھی پاکستان ٹیلی وژن سے نشر نہیں ہو سکا!

احمد رشدی کے فَن کا آغاز:

اِن کا ایک دیندار گھرانے سے تعلق تھا۔ اِن کے والد سید منظور احمد حیدرآباد ( دکن ) میں عربی اور فارسی کے اُستاد تھے۔ احمد رشدی کے تذکروں میں یہ بات ملتی ہے کہ انہوں نے حیدر آباد میں اپنے فن کا آغاز اسٹیج اداکار کے طور پر 1952 میں کیا۔ نیز یہ بھی کہ انہوں نے فلمی پلے بیک سنگر کی حیثیت سے جو پہلا گانا صدا بند کروایا وہ بھی بھارتی فلم ”عبرت“ کے لئے تھا۔ 1954 میں وہ پاکستان

ہجرت کر گئے اور جلد ہی ریڈیو پاکستان کراچی میں نغموں اور گیتوں کے لئے آنا جانا شروع کر دیا۔ یہی زمانہ تھا جب پاکستان کا اصل قومی ترانہ ریکارڈ ہونے والا تھا۔ احمد رشدی فلم کے حوالے سے تو بعد میں معتبر ہوئے لیکن اُن کا یہ اعزاز کہ اُن کی آواز بھی پاکستان کے قومی ترانے میں شامل ہے کسی بھی لحاظ سے اُس سے کم نہیں۔

اپنی آوازوں میں پاکستان کا قومی ترانہ ریکارڈ کروانے والے خوش نصیب:

ہمارے ملک کا اصل قومی ترانہ اپنی آوازوں میں ریکارڈ کروانے والے کتنے خوش نصیب ہوں گے! یہ کام 1954 میں ریڈیو پاکستان کراچی میں ہوا۔ 1960 کے درمیانی عرصے میں اِس کم تر کو بھی اِن قسمت والوں میں چند ایک سے ملنے اور نشست کا اعزاز حاصل ہے : جیسے محترمہ کوکب جہاں، محترمہ رشیدہ بیگم، محترمہ نجم آراء، محترمہ نسیمہ شاہین، محترم مہدی ظہیر، محترم احمد رشدی اور محترم اختر وصی علی ( مہناز کے والد) وغیرہ۔

پاکستان میں احمد رشدی کا آغاز:

ریڈیو براڈکاسٹر، شاعر، موسیقار اور زبان دان مہدی ظہیر کا لکھا اور کمپوز کیا ہوا گیت ’بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی، بابو ہو جانا فُٹ پاتھ پر‘ احمد رشدی کی زندگی کا وہ یادگار موڑ ہے جہاں سے وہ شہرت، دولت، عزت اور فلم نگری کی جانب پرواز کر گئے۔ فلمساز شیخ لطیف حسن اور ہدایتکار شاہ نواز کی فلم ”انوکھی“ ( 1956 ) پاکستان میں پلے بیک احمد رشدی کی پہلی ریلیزفلم ہے۔ یہ فیاض ؔ ہاشمی کا مزاحیہ گیت تھا جو دلجیت مرزا پر فِلمایا گیا : ’میری لیلیٰ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ’۔ فلم ”کارنامہ“ ( 1956 ) احمد رشدی اور موسیقار این کے راٹھور المعروف نتھو خان دونوں کی اولین فلم ہے۔ اِس میں احمد رشدی نے نذیر بیگم اور گلستان خان کے ساتھ دُوگانے صدا بند کروائے۔ لیکن اس فلم سے پہلے ”انوکھی“ ریلیز ہو گئی۔ 1960 کی دہائی میں بہت جلد احمد رشدی نے فلمی دنیا میں اپنی جگہ بنا لی۔ شروع کا مقبولِ عام گیت فلمساز شباب ؔ کیرانوی اور ہدایتکار داؤد چاند کی فلم ”سپیرَن“ ( 1961 ) میں آئرین پروین کے ساتھ یہ دُوگانا ہے :‘ چاند سا مُکھڑا گورا بَدَن، جَل میں لگائے گوری اَگَن ’گیت نگار خود شبابؔ صاحب اور موسیقار منظور اشرَف تھے۔ یہ اداکار حبیب اور لیلیٰ پر فِلمایا گیا۔ رشدی صاحب کا پہلا عوامی گیت ہدایتکار شبابؔ کیرانوی کی فلم

” مہتاب“ ( 1962 ) میں گیت نگار حزیں ؔ قادری کا لکھا اور منظور اشرف کی موسیقی میں گیت : ’گول گپے والا آیا گول گپے لایا‘ ہے۔ یہ عوامی اداکار علاؤالدین پر فلمایا گیا۔ فلم آرٹس کے بینر تلے بننے والی فلمساز اور مصنف وحید مراد اور ہدایتکار اقبال یوسف کی فلم

” ہیرو“ ( 1985 ) وحید مراد اور احمد رشدی کی آخری فلم تھی۔ کمال احمد کی موسیقی میں تسلیمؔ فاضلی کا گیت رشدی صاحب کا آخری فلمی گیت تھا: ’بَن کے مصرعہ غزل کا چلی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘

ہدایتکاروں اور اداکاروں کی محنت اپنی جگہ لیکن اِس میں کوئی شک نہیں کہ درج ِ ذیل کی تاریخ ساز اور مقبول ترین فلموں کی کامیابی میں احمد رشدی کی آواز کا بہت زیادہ دخل تھا۔ کیا اداکار درپن، کیا محمد علی، کیا وحید مراد، کیا سیدکمال، کیا ندیم، کیا شاہد، کیا منور ظریف اور کیا رنگیلا وغیرہ اِن سب کو مقبول تر بنانے میں احمد رشدی کی پلے بیک آواز شامل ہے۔

احمد رشدی کی چند تاریخ ساز فلمیں :

فلم آرٹس کے بینر تلے بننے والی پاکستان کی پہلی اُردو پلاٹینم جوبلی فلم ”ارمان“ ( 1966 ) کے فلمساز اور مصنف وحید مراد اور ہدایتکار پرویز ملک تھے۔ مکالمے اور گیت مسرورؔ انور ا ور موسیقی سہیل رعنا کی تھی۔ یہ احمد رشدی کی ایک تاریخ ساز فلم ہے جِس کے گیت آج بھی اپنی تازگی برقرار رکھے ہوئے ہیں : ’اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم، تمہارے بِنا ہم بھلا کیا جئیں گے‘ ، ’بے تاب ہو اُدھر تم بے چین ہیں اِدھر ہم، پَل پَل گزرتا جائے نادانیوں کا موسم‘ ، ’جب پیار میں دو دِل مِلتے ہیں میں سوچتا ہوں، اِن کا بھی کہیں مجھ جیسا ہی انجام نہ ہو، اِن کا بھی جنوں ناکام نہ ہو‘ ، ’کو کو رینا کوکو رینا میرے خیالوں پہ چھائی ہے اِک صورت متوالی سی، نازک سی شرمیلی سی معصوم سی بھولی بھالی سی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ’، اور خورشید شیرازی کے ساتھ یہ دُوگانا‘ زندگی اپنی تھی اب تک اُڑتے بادَل کی طرح، زندگی کو اِک نئے اب موڑ پر پاتا ہوں میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’۔ یونائٹِڈ ٹیلینٹس فلم کمپنی کی سِلور جوبلی فلم ”دوراہا“ ( 1967 ) کے 02 فلمساز تھے : سہیل رعنا اور پرویز ملک۔ ہدایات پرویز ملک کی تھیں۔ مکالمے اور گیت مسرورؔ انور کے اور موسیقار خود سہیل رعنا:‘ اجنبی ذرا سوچ لو ایسا نہ ہو کل تنہایوں میں پھر ہم تمہیں یاد آئیں ’، ‘ بھولی ہوئی ہوں داستاں گزرا ہوا خیال ہوں، جس کو نہ تُم سمجھ سکے میں ایسا اِک سوال ہوں ’، ‘ ہاں اِسی موڑ پر اِس جگہ بیٹھ کر تُم نے وعدہ کیا تھا ساتھ دو گے زندگی بھر چھوڑ کر تُم نہ جاؤ گے ’، ‘ تمہیں کیسے بتا دوں تم میری منزل ہو، جسے ڈھونڈا ہے نظروں نے وہی معصوم سا دِل ہو ’۔ ڈوسانی اور لی او فلمز کی مشترکی پلاٹینیم جوبلی فلم

” چکوری“ ( 1967 ) کے مشترکہ فلمساز ایف اے ڈوسانی اور مستفیض ( کیپٹین احتشام کے چھوٹے بھائی ) اور ہدایتکار ابو نُور محمد احتشام الحق المعروف کیپٹین احتشام تھے۔ فلم میں اختر یوسف کے گیتوں کو روبِن گھوش نے اپنی موسیقی سے سجایا: ’تجھے چاہیں میری باہیں، تجھے ڈھونڈیں میری آہیں‘ ۔ نائلہ فلمز کی گولڈن جوبلی فلم ”دِل میرا دھڑکَن تیری“ ( 1968 ) کے فلمساز میاں غلام مرتضے ٰ آفتاب اور ایم اے رشید تھے جب کہ ہدایات اور منظر نامہ ایم اے رشید اور مکالمے مسرورؔ انور کے تھے۔

قتیل ؔ شفائی کے گیتوں کی طرزیں ماسٹر عنایت حسین نے بنائیں : ’کیا ہے جو پیار تو پڑے گا نبھانا، رکھ دیا قدموں میں دِل نذرانہ قبول کر لو‘ ۔ فلمساز غلام حیدر لون اور ہدا یتکار حسن طارق کی گولڈن جوبلی فلم ”بہن بھائی“ ( 1968 ) میں احمد رشدی اور آئرین پروین کا مزاحیہ گیت: ’ہیلو ہیلو مسٹر عبد الغنی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ اور ’کاش کوئی مجھ کو سمجھاتا، میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا‘ ریڈیو پر بہت مقبول ہوئے۔ ظفر آرٹس پروڈکشن کی گولڈن جوبلی فلم ”سنگدل“ ( 1968 ) موسیقار جوڑی منظور اشرف سے علیحدہ ایم اشرف کے نام سے (غالباً ) پہلی فلم ہے۔

فلمساز شبابؔ کیرانوی اور ہدایتکار ظفر شباب تھے۔ خواجہ پرویز کا لکھا گیت: ’ہو! سُن لے او جانِ وفا، تو ہے دنیا میری اے میری زندگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ریڈیو پر بے حد مقبول ہوا تھا۔ فلم آرٹس کی سِلوَر جوبلی فلم ”جال“ ( 1973 ) کے فلمساز وحید مراد، ہدایتکار افتخار خان اور موسیقار نذیر علی تھے۔ ( وحید مراد نے مسرورؔ انور، پرویز ملک اور سہیل رعنا کا ساتھ کیوں چھوڑا؟ ایک اہم سوال ہے ) رونا لیلیٰ کے ساتھ رشدی صاحب کا یہ دوگانا: ’دِل کی دھڑکن مدھم مدھم نظریں مِلیں اور جھُک جائیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ’اپنے وقت کا مقبول گیت تھا۔ فلم کے 02 گیت نگار تھے، خوجہ پرویز اور مسرورؔ انور۔ اب یہ گیت کس نے لکھا؟ یہ تفصیل معلوم نہ ہو سکی۔ نذیر علی صاحب نے نامور موسیقاروں کی معاونت کی تھی۔ یہ وہ گیت ہے جِس کو سُن کر میں فلم کی ریلیز کے دوسرے شو میں گیا تھا۔ اَپسَرا پکچرز کی گولڈن جوبلی فلم ”گھرانہ“ ( 1973 ) کے فلمساز نور الدین کیسٹ اور کے خورشید اور ہدایتکار بھی کے خورشید تھے۔ کلیمؔ عثمانی کے گیتوں کی طرزیں ایم اشرف نے بنائیں :‘ گورے گورے گال پہ کالا کالا تِل رے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ’اور‘ پیار پیار پیار پیار کرنے کو تو سب کرتے ہیں، پیار نبھانا بڑا مشکِل ہے ’بہت مقبول ہوئے۔ شباب پروڈکشنز کی گولڈن جوبلی مزاحیہ میوزیکل فلم ”پَردے میں رہنے دو۔ “ ( 1973 ) کے یہ گیت اُُس دور کے ہر دل عزیز تھے :‘ کوئی کر کے بہانہ چلی آنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’، اور‘ یارو میں بڑا پریشان، اِک لڑکی جوان نہ جان نہ پہچان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’۔ عدنان فِلمز کی پنجابی فلم ”منجھی کتھے ڈاہواں“ ( 1974 ) کے فلمساز اداکار محمد قوی خان اور ہدایتکار ہارون پاشا تھے۔

اِن کی معاونت اطہر شاہ خان ( المعروف جیدی بھائی ) نے کی۔ گیت نگار خواجہ پرویز کے گیتوں کی طرزیں کمال احمد نے بنائیں۔ : ’میں کیہڑے پاسے جاواں، میں منجی کتھے ڈہواں‘ ۔ اُس زمانے میں اس فلم کا ٹریلر ٹیلی وژن پر چلتا تھا۔ میں، اور میری طرح بہت سے لوگ اِس کو دیکھ کرفلم دیکھنے گئے۔ اے زیڈ پروڈکشنز کی گولڈن جوبلی فلم ”پھُول میرے گلشن کا“ ( 1974 ) وہ پہلی فلم ہے جس میں محمد علی، وحید مراد اور ندیم نے بیک وقت اداکاری کی۔

ہدایات اقبال اختر کی اور فلمساز ریاض بُخاری، میاں فیاض اور جی کے آفریدی تھے۔ گیت نگار مسرورؔ انور اور موسیقی ایم اشرف نے ترتیب دی۔ زاہدہ مسرور کی کہانی کا منظر نامہ اور مکالمے بھی مسرورؔ انور کے تھے۔ اِس فلم کا مقبول ترین گیت ’چھیڑ چھاڑ کروں گا اوازار کروں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ۔ اس گیت کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اُس وقت کراچی اور دیگر شہروں میں موسیقی کی شاید ہی کوئی ایسی تقریب ہوتی ہو جس میں کوئی اس کو گا نہیں رہا ہو۔

میں نے خود یہ گیت اسٹیج پر بار ہا گایا۔ ایاز فلمز کی گولڈن جوبلی فلم ”محبت زندگی ہے“ ( 1975 ) کے ہدایتکار اقبال اختر، فلمساز بیگم ریاض بُخاری، گیت نگار مسرورؔ انور اور مو سیقار ایم اشرف تھے۔ اِس فلم میں احمد رشدی کا گیت اب بھی سُنا اور اسٹیج پر گایا جاتا ہے : ’دل کو جلانا ہم نے چھوڑ دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ مذکورہ گیت کو بعد میں آنے والوں نے ری مِکس بھی کیا، جیسے گلوکار تحسین جاوید۔ فلمساز اور ہدایتکار جان محمد کی فلم

” دیکھا جائے گا“ ( 1976 ) میں ایم اشرف کی موسیقی میں ( غالباً ) تسلیمؔ فاضلی کے انگریزی گیت: ’دما دم مست قلندر، اِٹ از آ سونگ آف وَنڈَر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ کو احمد رشدی نے بالکل ہی نئے اسٹائل سے صدا بند کروا کر تاریخ رقم کروائی۔ اِس میں ایم اشرف صاحب کا بھی کمال ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق انہوں نے پاکستان مین سب سے زیادہ ( پانچ ہزار سے زیادہ ) فلمی گانے گائے۔ شروع میں اِن کو صرف مزاحیہ گیت گانے کو ملتے رہے۔ لیکن جب موسیقار خلیل احمد نے اِن کی آواز کو فلم ”آنچل“ میں استعمال کیا تو فلمسازوں کو احمد رشدی کی صلاحیتوں کا علم ہوا۔ مشرقی پاکستان کی اُردو فلموں میں بھی احمد رشدی کو نیچے سُروں ( بَیس کی آواز ) سے گوا کر سدا بہار گیت تخلیق کیے گئے۔ جیسے ’بے کل رات بِتائی، بے چین دِن گزارا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ وغیرہ۔

احمد رشدی کے دوگانے :

احمد رشدی نے پاکستانی فلمی دنیا کی تقریباً سب ہی خواتین گلوکاروں کے ساتھ دوگانے صدا بند کروائے۔ جیسے : مالا، نذیر بیگم، ناہید نیازی، نورجہاں، زبیدہ خانم، آئرین پروین، رونا لیلیٰ، نسیم بیگم، روبینہ بَدَر، مہناز اور ناہید اختر و غیرہ۔

احمد رشدی کی اداکاری:

جیسا کہ اِن کے تذکروں میں ملتا ہے کہ حیدرآباد ( دکن ) سے انہوں نے اسٹیج پر کام کا آغاز کیا تھا جس میں اداکاری بھی ہو گی۔ اِن کا یہ شوق ساری زندگی اِن کے ساتھ رہا۔ کراچی میں اسٹیج شو، ٹیلی وژن پروگراموں اور فلمی تقریبات میں یہ اسٹیج پر اداکاری کے ساتھ نغمگی کرتے تھے۔ اِس کے ساتھ با قاعدہ انہوں نے ( غالباً ) 13 فلموں میں اداکاری بھی کی: ”انوکھی“ ( 1956 ) ،

” سات لاکھ“ ( 1957 ) ”کنیز“ ( 1965 ) ، ”دیکھا جائے گا“ ( 1976 ) وغیرہ۔

موسیقار جوڑی لال محمد اقبال کے لال محمد کہا کرتے تھے کہ فلمی دنیا میں فلمسازوں تک ہماری رسائی احمد رشدی کے ذریعہ ہوئی۔

اعزازات:

ستارہ امتیاز:

احمد رشدی کے انتقال کے 20 سال بعد 2004 / 2003 میں اُس وقت کے صدرِ پاکستان، جنرل ( ر ) پرویز مشرف نے انہیں بعد از مرگ ستارہ امتیاز سے نوازا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ سِول ایوارڈ اِس فنکار کو اُس کی زندگی میں ہی دیا جاتا۔

نگار ایوارڈ:

اِن کو بہترین گلوکار کے یہ نگار ایوارڈ حاصل ہوئے۔ پہلا 1961 میں فلم ”سپیرَن“ کے گیت ’چاند سا مکھڑا گورا بدن‘ پر۔ دوسرا 1962 میں فلم ”مہتاب“ میں گیت ’گول گپے والا آیا گول گپے لایا‘ پر۔ تیسرا 1966 میں فلم ”ارمان“ کے گیت ’اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تُم‘ پر۔ چوتھا 1970 میں فلم ”نصیب اپنا اپنا“ کے گیت ’اے ابرِ کرم آج اتنا برس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ پر۔ انہیں لائف ایچیو منٹ ایوارڈ اور لکس اسٹائل ایوارڈ بھی حاصل ہوئے۔

گریجوئٹ ایوارڈ:

پہلا فلم ”ایسا بھی ہوتا ہے“ ( 1965 ) کے گیت ’محبت میں تیرے سر کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے‘ ۔ دوسرا فلم ”دوراہا“ ( 1967 ) میں ’ہاں اسی موڑ پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ۔ تیسرا فلم ”چکوری“ ( 1968 ) میں ’کبھی تو تم کو یاد آئیں گے‘ ۔ چوتھا فلم ”عندلیب“ ( 1969 ) میں ’کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے‘ ۔ پانچواں فلم ”انجمن“ ( 1970 ) میں ’لگ رہی ہے مجھے آج ساری فضا اجنبی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ۔

اِن کو پانچ مصور ایوارڈ بھی حاصل ہوئے۔

کوک اسٹوڈیو میں احمد رشدی کے گیت کا بُرا حشر:

احمد رشدی ایک ایسا موضوع ہے کہ اس پر جتنا لکھا جائے کم ہے۔ چلتے چلتے ایک نہایت ہی تکلیف دہ بات کہتا چلوں : کوک اسٹوڈیو والوں کا ’ذوق‘ نہ جانے کہاں جا کر سو گیا ہے۔ ماضی قریب میں پاکستان کا پہلا ’پاپ‘ یعنی پاپولر اور مقبولِ عام گیت ”کو کو رینا کو کو رینا، میرے خیالوں پہ چھائی ہے اِک صورت متوالی سی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ کا ’ری میک‘ مومنہ مستحسن اور احد رضا میر کی آوازوں میں پاکستانی عوام کے سامنے پیش کر کے عوام کا مذاق اُڑایا۔

اکثریت خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی لیکن بعض آوازیں شدت سے احتجاج کو آئیں۔ اِن میں انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری بھی شامل تھیں۔ کوک اسٹوڈیو کے ذمہ داروں سے ہماری درخواست ہے کہ اللہ وہ اِس قسم کے ری مکس سے عوام کو معاف رکھیں! اِس گیت کے خالق: مسرورؔ انور، وحید مراد، احمد رشدی اور پرویز ملک اور سہیل رعنا کا کچھ تو خیال کریں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments