میٹنگ کے لیے ریفریشمنٹ کا انتظام عمدہ ہونا چاہیے


میٹنگ کے لیے ریفریشمنٹ کا انتظام عمدہ ہونا چاہیے۔

یہ وہ جملہ ہے جو اکثر و بیشتر دفاتر، سرکاری و پرائیویٹ اداروں میں موجود نائب قاصدین کو سنے کو ملتا ہے۔ ایسا اکثر میٹنگز یا ضروری بیٹھک کے مواقع پر ہوتا ہے۔ مگر میں بحیثیت طالبہ اپنا دائرہ بیان تعلیمی اداروں تک محدود رکھوں گی۔

عموما میٹنگز، سیمینارز یا پھر تھیسز پریزنٹیشنز کے موقع پر دیکھنے میں آیا ہے کہ تقریب کے اختتام یا آغاز پر خصوصی دعوت پر بلائے گئے مہمانوں کے لیے میز سجائی جاتی ہے۔ انواع و اقسام کے دیسی ولائیتی کھانوں سے حاضرین کی تواضع کی جاتی ہے۔ اس موقع پر ادارے کے فور کلاس ملازمین کو خوب تگنی کا ناچ نچایا جاتا ہے۔

مہمانوں کی بہترین خاطر مدارت کی جاتی ہے جیسے وہ ان کے ذاتی مہمان ہوں۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے ”کیا یہ مرغ مسلم ان کواپنے گھروں میں میسر نہیں ہوتا؟ کیا اس شاہی دسترخوان کے بغیر میٹنگز، سیمینارز وغیرہ کا انعقاد ممکن نہیں؟ یا پھر مینیو سادہ نہیں رکھا جا سکتا؟ غرض طلبہ و طالبات کی فیسوں اور غریب عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے خوب عیاشی کی جاتی ہے۔

”مال مفت اور دل بے رحم“

ایسے میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا ایک واقعہ ذہن میں گردش کر رہا ہے جو قیام پاکستان کے بعد کابینہ کے اجلاس میں پیش آ یا۔

اے۔ سی۔ ڈی قائداعظم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ”سر! آج اجلاس میں مہمانوں کو چائے پیش کر نی ہے یا کافی؟ “ قائداعظم غصہ سے اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”جو وزیر بھی چائے یا کافی پینے کی خواہش رکھتا ہے وہ یہاں آنے سے پہلے یا اجلاس کے اختتام پر اپنی یہ خواہش پوری کر سکتا ہے۔ عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہو گا نہ کہ وزراء کی عیاشیوں پر۔ “ (تاریخ معلوم نہ ہو نے کے لیے معذرت )

اپنادائرہ بیان مختصر رکھتے ہوئے مجھے نہایت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ یہی اساتذہ کرام /معلمین روز اول سے قائداعظم کی زندگی اور تعلیمات کا درس دیتے رہے ہیں اوربحیثیت خود قائد کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو نے کے بجائے ان سب تعلیمات کوپس پشت ڈال دیا ہے۔ یہ لوگ نئی نسل کو کیا سبق دے رہے ہیں؟ ایسی تعلیم کا کیا فائدہ جو صرف کتاب کی حد تک ہی رہے اور اس کو صرف ٹوٹے کی طرح رٹ کر امتحان میں محض پاس ہونے کی غرض سے لکھا جائے، ڈگری حاصل کی جائے، اپنے آپ کو نام نہاد با شعور اور پڑھا لکھا طبقہ کہلاتا جائے اور اللہ اللہ خیر صلا۔ جب روحانی والدین کا یہ حال ہوگا تو نئی نسل سے کیا امید لگائی جا سکتی ہے؟

میری متعلقہ اداروں کے عہد داران سے گزارش ہے کہ اداروں میں منعقد کی جانے والی اعلی و سطحی تقریبات میں ریفرشمنٹ کلچرل ختم کر کے اس فنڈ کوطلبہ و طالبات کے بہبود اور ضروری امور پر خرچ کیا جائے۔ ناکہ ان تقریبات کی آڑ میں اپنی پیٹ پوجا کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments