کافر ممتا


میری شادی کیتھرینا سے نہیں کوثر سے ہوئی۔
قسمت میں یہی لکھا تھا۔ کوثر میری چچا زاد بہن تھی۔ ابا جان کو ان کے چھوٹے بھائی دل وجان سے عزیز تھے۔ ان دونوں کا خیال تھا کہ گھر کی بات گھر میں طے ہوجانی چاہیے۔ ہمارے جیسے خاندانوں میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور شاید ایسا ہی ہوتا آئے گا اور شاید ایسا ہی ہونا صحیح بھی ہے۔

وہ چچا جان کی اکلوتی بیٹی تھی۔ چچا جان کا کاروبار زبردست تھا اور وہ مسلسل ترقی ہی کررہے تھے۔ بنیادی طور پر درآمد وبرآمد کا کام تھا ان کا جو آہستہ آہستہ پھیلتا چلاگیا تھا۔ کئی چیزوں کے ڈسٹری بیوٹر بھی تھے وہ ساتھ میں بہت زیادہ محنتی بھی۔ بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ابا جان کے پارٹنر بھی تھے۔ دونوں بھائیوں نے کام کو بڑھا کر کہیں سے کہیں پہنچادیا تھا۔ دولت کی فراوانی تھی اور سب کچھ میسر تھا ہم لوگوں کو۔

شاندار مکان ضرورت سے زیادہ کاریں اور ضرورت سے زیادہ قیمتی ترین چیزیں۔ مالدار ہونا کوئی بری بات نہیں ہے اور دولت کے تو بے شمار فائدے ہیں۔ مگر دولت بعض دفعہ مصیبت بھی بن جاتی ہے۔ کم از کم کوثر میرے لیے تو ایک طرح کی مصیبت ہی بن گئی۔ اس کی ہر جائز وناجائز خواہش پوری کی جاتی۔ میٹرک تو اس نے پاس کرلیا مگر انٹر کے بعد اس نے نہ پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ چچا اور چچی جان نے بھی کوئی زیادہ زور نہیں دیا اور اسی کسی زمانے میں ابا جان نے چچا جان سے کہہ دیا کہ منیر کی شادی کوثر سے ہوگی۔ اور ایک طرح سے یہ سب کا مشترکہ اور آخری فیصلہ تھا۔ سچ تویہ ہے کہ اس فیصلے پر اس وقت مجھے کوئی اعتراض بھی نہیں تھا۔

مجھے کوثر بری نہیں لگتی تھی۔ وہ خوبصورت تھی۔ تعلیم یافتہ نہیں تھی لیکن سوسائٹی میں اپنے آپ کو لیے دیے رہنے کا طریقہ اسے پتہ تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ خاندان اور خاندان کے باہر کے سب ہی کنوارے اس سے شادی کرناچاہتے ہیں۔ دولت مند ماں باپ کی بیٹی جس کا مستقبل محفوظ تھا پھر اس میں ایسی کوئی خرابی بھی نہیں تھی کہ کوئی اس سے شادی کرنے کا خواہشمند نا ہوتا۔ لیکن جب ایک دفعہ ہماری شادی کی بات ہوگئی تو پھر کسی نے سوچا بھی نہیں کہ میری شادی کوثر کے علاوہ کسی اور سے ہوسکتی ہے۔ مجھ سے اور کوثر سے پوچھنے کی ضرورت تو محسوس ہی نہیں کی گئی کیونکہ بچوں سے کیا پوچھنا ہمارے والدین ہمارے لیے برا تھوڑی کررہے تھے۔

میرے بارے میں اباجان کا یک طرفہ فیصلہ تھا مگر اسے امی جان کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ حمایت اس لیے کہ انہوں نے زندگی ابا جان کی خوشی کے لیے گزاری تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ یہ سب کچھ کسی زوروجبر کا نتیجہ تھا۔ میرا خیال ہے اور صحیح خیال ہے کہ انہیں ابا جان سے محبت تھی، عشق تھا۔ وہ ان کے مجازی خدا تھے اور ان کا اعتبار اس قسم کا تھا کہ وہ ہم سب کے لیے کوئی بھی غلط فیصلہ یا ہمارے بارے میں غلط کرنا تو دور کی بات غلط سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔

ان کی اپنی کوئی رائے نہیں تھی ان کی خوش نودی اسی میں تھی کہ ابا جان خوش رہیں۔ شاید شادی کے بعد ایک دن بھی ایک دفعہ بھی ابا جان نے میری ماں سے نہیں کہا ہوگا کہ وہ ان سے محبت کرتے ہیں لیکن میری ماں کو یہ احساس کبھی بھی نہیں ہوا ہوگا کہ ابا جان ان کے علاوہ بھی کسی سے محبت کرسکتے ہوں گے یا ان کی زندگی میں میری ماں کے علاوہ بھی کوئی اور ہوگا۔

پرانے زمانے کے لوگوں کے پرانے اصول تھے شاید زیادہ تر لوگ ان ہی لگے بندھے اصولوں کے تحت خاموشی سے زندگی گزار لیتے ہوں گے زندگی اتنی زیادہ پرپیچ نہیں تھی۔ مشکل ضرور تھی مگر آسان بھی تھی۔ سماج کے وہ مسائل نہیں تھے جو آج ہوتے ہیں۔

میں نے بھی نہیں سوچا کہ میں شادی کوثر کے علاوہ کسی اور سے کروں گا۔ ڈاکٹر بننے کے بعد اور ہاؤس جاب کے ختم ہوتے ہی میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے برطانیہ اعلیٰ تعلیم کے لیے جانا ہے۔ گھر والوں کا بھی یہی خیال تھا کہ جب میں دو تین سالوں میں وہاں سیٹ ہوجاؤں تو پھر میری شادی ہو۔ بقول امی جان کے کوثر بھی ابھی ذرا کم عمر ہے۔ وہ مجھ سے تقریباً آٹھ سال چھوٹی تھی۔ ذرا اور بڑی ہوجائے تو اچھا ہوگا۔ اسے کچھ دنیا کی سمجھ بھی آجائے گی اور میں بھی دنیا دیکھ لوں گا کچھ سمجھ بوجھ لوں گا وغیرہ وغیرہ۔

کرنا خدا کا کچھ ایسا ہوا کہ میں انگلینڈ میں نہیں ٹک سکا۔ نہ مجھ سے انگلینڈ کا امتحان پاس ہوا اور نہ ہی مجھے انگلینڈ میں نوکری کی اجازت ملی۔ یہ عجیب بات تھی کہ ایم آر سی پی کا ابتدائی امتحان میں نے پاس کرلیا مگر نہ جانے کیسے انگلستان کے میڈیکل کونسل کے انگلش کا امتحان نہیں پاس کرسکا۔ اور میرے لیے وہاں نوکری کے سارے دروازے بند ہوگئے۔

اس زمانے میں حالات اچھے تھے۔ میں نے آئرش میڈیکل کونسل سے رجسٹریشن کرائی ہوئی تھی اس زمانے میں آئرلینڈ میں کام کرنے کے لیے کسی امتحان کی ضرورت نہیں تھی۔ یار دوستوں کے مشورے سے یہی طے ہوا کہ میں آئرلینڈ میں کام کروں۔ آئرلینڈ کے خوبصورت شہر کو رک میں ایک دوست نے مجھے ایک نوکری کی تفصیلات بھیجیں جس کے لیے میں نے درخواست دے د ی تھی۔ مجھے بہت جلدی کورک شہر کے جنرل ہسپتال کے بچوں کے وارڈ میں نوکری مل گئی تھی۔

پہلے دن ہی میری ملاقات کیتھرینا سے ہوگئی۔ کیتھرینا فلی نی گن نام تھا اس کا۔ وہ وارڈ میں بچوں کی خصوصی نرس تھی۔ ائرلینڈ میں نرسنگ کا ڈپلومہ لینے کے بعد دو سال کی مزید تربیت لینی ہوتی ہے۔ جس کے بعد خصوصی نرسنگ کا ڈپلومہ بھی مل جاتا ہے۔ اس تربیت کے دوران ان نرسوں کی قابلیت بہت بڑھ جاتی ہے اور خصوصی نرس کے طور پر درحقیقت وارڈ کا کام تو وہی کر رہی ہوتی ہیں بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ وارڈ یہ نرسیں ہی چلارہی ہوتی ہیں۔

وہ غضب کی نرس تھی بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ وہاں کی ساری ہی نرسیں غضب کی ہوتی ہیں اور وہ ان غضب کی نرسوں میں بھی یکتا تھی۔ قابل، مہربان، محنتی کبھی برا نہ ماننے والی اور مریض اور مریضوں کے رشتہ داروں کی ہر بات سننے والی۔ مریضوں کو بہلانا، ان کا پیشاب پاخانہ صاف کرنا، ان کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھے رہنا اور ان کے انجانے خوف کو شیئرکرنا۔ ایک اچھی نرس کا امتحان بچوں کے وارڈ میں ہوتا ہے ہر قسم کے بچے ضدی، مچلنے والے، بحث کرنے والے باتیں ناماننے والے پھر بیمار بھی، کینسر کے مریض چڑچڑے اور خوفزدہ ساتھ میں ان کے انتہائی پریشان ماں باپ۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments