پاکستان کی تاریخ کا اجمالی جائزہ


مارچ 1971 سے دسمبر 1971 تک کی خانہ جنگی اور بھارت سے جنگ کا عرصہ پاکستان کی فوجی قیادت نے انتہائی شرمناک طریقے سے گزارا۔ جنرل یحییٰ خان اپنی رنگ رلیوں میں مصروف رہے اور جنرل نیازی بنگالیوں کی نسل تبدیل کرنے کی کوشش کرتے رہے بقول حبیب جالب
”ہم سے ہی داد لی جوانی کی“

بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد شکست کے اس داغ کو دھونے کی کوشش کی۔ صرف چھ ماہ بعد بھارت سے مذاکرات کا ڈول ڈالا اور جولائی 1972 میں شملہ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے جس کی رو سے پاکستان کے قیدیوں کی واپسی کی رہ ہموار ہوئی مگر اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھٹو نے مسئلہ کشمیر کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ورنہ غالباً اس سے بہتر موقع کوئی نہ تھا۔

1972 میں بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ ایک سہ فریقی معاہدہ کرکے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں NAP اورJUI کی مخلوط حکومت بنانے کی اجازت دی مگر بہت جلد ہی بھٹو ہر قسم کی مخالفت کو کچلنے کے درپے ہوگئے۔ صرف نو ماہ بعد بلوچستان میں عطا اللہ مینگل کی منتخب حکومت کو غداری کا الزام لگاکر برطرف کردیا جس پر احتجاجاً صوبہ سرحد میں مولانا مفتی محمود نے بھی وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا جس سے دونوں صوبوں میں پیپلز پارٹی کی مخالف حکومتیں ختم ہوگئیں اور بھٹو صاحب نے وہاں بھی جیسے تیسے اپنی حمایتی حکومتیں قائم کرلیں۔

1973 کا سال اس لحاظ سے اہم تھا کہ اس برس ملک کو نیا اور متفقہ آئین ملا جس پر حزب مخالف نے بھی دست خط کیے۔ نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام اپنی حکومتیں ختم ہونے کے بعد بھی اس آئین پر دست خط کرنے پر راضی ہوگئیں اور اس طرح اس متفقہ آئین کی منظوری کا سہرا بھٹو کے علاوہ ولی خان اور مفتی محمود کو بھی جاتا ہے۔

بھٹو نے جلدی جلدی اپنے اسلامی سوشلزم کے نعرے پر بھی عمل کیا اور تقریباً تمام بڑی صنعتیں اور بینک ریاستی ملکیت میں لے لیے۔ تمام تعلیمی ادارے بھی ہتھیا لیے گئے جن سے صنعتکاری اور تعلیم کے شعبوں پر خاصا منفی اثر پڑا۔

اگر ریاستی ملکیت میں لینے کے بعد ان اداروں کا معیار بہتر بنایاجاتا تو یہ قدم سود مند ہوتامگر ہوا یہ کہ تمام صنعتیں اور بینک ریاستی ملکیت میں لینے کے بعد اس میں سول اور فوجی افسر شاہی کا راج ہوگیا اور اپنی مرضی کے سیاسی حمایتی بھرتی کیے جانے لگے جس سے کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی۔ نئی سرمایہ کاری اور صنعت بالکل رک گئی اور نئے تعلیمی ادارے بھی کھلنا بند ہوگئے۔ یعنی نجی شعبہ بالکل مفلوج ہوگیا۔ جس کی وجہ سے تاجر اور صنعتکار بھٹو کے مخالف ہوتے گئے۔ پھر بھٹو نے خود اپنے آئین کو تاراج کیا اور تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں مرکوز کرلیے۔

پھر 1975 میں بھٹو نے ملک کی سب سے بڑی لبرل، سیکولر اور جمہوری پارٹی یعنی نیشنل عوامی پارٹی پر حتمی حملہ کیا اور اس پر غداری کا الزام لگاکر پابندی لگادی اور تمام بڑے رہ نما جیسے عبدالولی خان، عطا اللہ مینگل، میر غوث بخش بزنجو، گل خان نصیر وغیرہ سب گرفتار کرلیے گئے۔ یہ ملک میں جمہوریت پر ایک بڑی کاری ضرب تھی اور اس سے دائیں بازو کی انتہا پسندی کو فروغ ملا ملک میں بنیاد پرست اور فرقہ پرست قوتیں دندناتی پھررہی تھیں لیکن لبرل اور ترقی پسند قوتوں کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا اور یہ گلا گھونٹنے والی کوئی فوجی حکومت نہیں بل کہ خود بھٹو کی جمہوری طورپر منتخب حکومت تھی۔

طاقت کے نشے میں چور بھٹو نے ایک طرف تو حزب مخالف کو کچلا اور دوسری طرف بھارت دشمنی کا راگ پھر الاپنا شروع کیا۔ کشمیر کے لیے ہزار سالہ جنگ لڑنے کی باتیں کیں۔ ملک کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے ایٹم بم کے راستے پر ڈالا اور کود کو عرب ممالک کے بہت قریب لے گئے۔ اس سب سے ملک میں بائیں بازو کی ترقی پسند اور لبرل طاقتیں کمزور ہوئیں اور دائیں بازو کی ملائیت کو فروغ ملا جو بالآخر بھٹو صاحب کو لے ڈوبی۔

1976 تک بھٹو صاحب نے آئینی ترامیم کرکے عدلیہ کو بھی بڑی حد تک اپنے زیر نگین کرلیا تھا اور اب ایسا لگتا تھا کہ بھٹو صاحب بڑے طویل عرصے تک اقتدار میں رہیں گے کیوں کہ حزب مخالف کچلی جاچکی تھی۔ فوج میں جنرل ضیا الحق جیسا منافق آرمی چیف بنایا جاچکا تھا جو بھٹو کو شیشے میں اتارنے میں کامیاب رہے تھے۔ بھٹو کی تشکیل کردہ فیڈرل سیکورٹی فورس (FSF) کے غنڈے من مانی کارروائیاں کرتے پھرتے تھے اور بھٹو ان سے بہت خوش تھے ایسے میں بھٹو قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرکے پہلے تو حزب مخالف کو حیران کردیتے ہیں لیکن ملک بھرمیں جلد ہی خود حزب مخالف متحد ہوکر بھٹوصاحب کو نہ صرف حیران بلکہ پریشان بھی کردیتی ہے۔

مارچ 1977 کے انتخابات میں بھٹو اگر دھاندلی نہ بھی کراتے تو جیت جاتے کیوں کہ ان کو عوامی مقبولیت حاصل تھی مگر جب انہوں نے خود بلامقابلہ منتخب ہونے کا راستہ اپنایا تو ان کے سینئر وزیر و مشیر بھی بلامقابلہ منتخب ہونے لگے۔

حزب اختلاف نے متحدہ ہوکر پاکستان قومی اتحاد (PNA) تشکیل دے لیا تھا جس کا بنیادی نعرہ نظام مصطفی کا قیام تھا۔ اس میں حزب مخالف کی نو چھوٹی بڑی جماعتیں شامل تھیں جو نظریاتی طور پر بہت مختلف تھیں مگر سب بھٹو کی حرکتوں سے نالاں تھیں۔ اس میں دائیں اور بائیں بازو دونوں طرح کے نمونے شامل تھے اور اس کی قیادت مولانا مفتی محمود کررہے تھے نیپ کی جگہ سردار شیر باز خان مزاری کی نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی تھی جو اس اتحاد کا حصہ تھی۔

الیکشن کے نتائج میں پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تو PNA نے دھاندلی کا الزام لگاکر تحریک چلانے کا اعلان کیا اس تحریک نے مارچ سے جون تک صرف تین ماہ میں پورے ملک کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ بھٹو احتجاجی تحریک پر قابو نہ پاسکے اور مذاکرات پر مجبور ہوگئے۔ طویل مذاکرات کے بعد نئے انتخابات پر راضی بھی ہوگئے مگر معاہدے پر دست خط میں دیر کردی جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھٹو کے منظور نظر آرمی چیف جنرل ضیا الحق نے اپنے محسن کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا اور بھٹو کو معزول کرکے خود اقتدار پر قابض ہوگئے۔

پانچ جولائی کو جنرل ضیا الحق اور ان کے ساتھی جرنیل جمہوریت پرحملہ آور ہوئے اور تمام سیاسی رہ نماؤں کو حراست میں لے لیا۔ جنرل ضیا نے 90 دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیامگر گیارہ سال سے زاید اقتدار پر قابض رہے اس طرح پاکستان میں ایک اور تاریک دور کا آغاز ہوا جس نے پاکستان کو اتنا نقصان پہنچایاجتنا جنرل ضیا الحق سے پہلے یا بعد کسی نے نہیں پہنچایا ہوگا۔

جنرل ضیا الحق نے اقتدار سنبھالتے ہی بھٹو سے نجات حاصل کرنے کی کوشش شروع کردی ایک پرانا کیس پھر کھولا گیا جس میں بھٹو قتل کے الزام میں ملزم کے طور پر نامزد تھے۔ نواب محمد احمد خان قصوری کے بیٹے احمد رضا قصوری نے بھٹو پر اپنے والد کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا عدلیہ نے اس دوران فوجی حکومت کی خوشنودی کے لیے جنرل ضیا الحق کے من پسند فیصلے سناتے ہوئے پہلے تو جنرل ضیا الحق کے اقتدار پر قبضے کو جائز قراردیا گیا پھر ججوں میں رد وبدل کرکے بھٹو کو بالآخر پھانسی کی سزا سنادی۔

عالمی رہ نماؤں کی درخواستوں کے باوجود اپریل 1979 میں جنرل ضیا الحق نے ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم اور اپنے محسن ذوالفقار علی بھٹو کی رحم کی اپیل مسترد کردی اور انہیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ دسمبر 1979 میں افغانستان میں روسی فوجوں کی مداخلت سے یہ خطہ ایک نئی جنگ کا شکار ہوا۔ امریکا نے جنرل ضیا الحق اور ان کی حکومت کو بھر پور طریقے سے استعمال کیا اور ملک میں جہادی کلچر فروغ پانے لگا۔

ہزاروں کی تعداد میں مدرسے کھولے گئے اور جہادیوں کی تربیت کے لیے امریکا نے اپنے خزانے کے منہ کھول دیے جس میں ہماری سول اور فوجی افسر شاہی نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں لاٹھی، کوڑے اور پھانسیوں کوفروغ دیا مگر امریکا کو اس سے کوئی سروکار نہ تھا وہ تو پاکستان کو استعمال کرتے ہوئے سوویت یونین کو زچ کرنا چاہتا تھا جو اس نے کیا۔ جنرل ضیا الحق نے آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق وغیرہ کے پرخچے اڑا دیے اور تمام دائیں بازو کی جماعتیں خاص طور پر جماعت اسلامی نے اس دور میں اقتدار کی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے اور ملک کو اس فرقہ واریت میں دھکیلا جس سے ہم آج تک نہ نکل سکے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments