پاکستان کی تاریخ کا اجمالی جائزہ


جنرل ضیا الحق نے اپنے گیارہ سالہ دور میں بھٹو کی ریاستی ملکیت کی پالیسی تبدیل کی بہت سے صنعتی ادارے اور تعلیمی ادارے ان کے پرانے مالکان کو واپس کیے جس سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات پڑے اور پھر امریکی پیسہ بھی ملک میں آرہا تھا جس سے جنرل ضیا کی وفادار اشرافیہ خود فائدے حاصل کررہی تھی۔

آٹھ سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کرنے کے بعد 1985 میں جنرل ضیا الحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے اور محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم نام زد کیا۔ مگر وہ بھی تین سال سے زیادہ نہ چل سکے۔ جب اپریل 1988 میں اوجڑی کیمپ کے دھماکے ہوئے تو جونیجو نے اس کی تحقیقاتی رپورٹ عام کرنی چاہی جس پر جنرل ضیا جز بز ہوکر جونیجو کو برطرف کر بیٹھے اور پھر اگست 1988 کوایک پر اسرار فضائی حادثے میں ہلاک ہوگئے۔

جنرل اسلم بیگ نئے آرمی چیف بن گئے اور غلام اسحاق خان نئے صدر جنہوں نے عام انتخابات کرائے تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی جیت کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی مگرانہیں اقتدار مشروط طور پر دیا گیا۔ انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ غلام اسحاق خان کو صدر اور صاحب زادہ یعقوب خان کو وزیر خارجہ کے طور پر قبول کریں گی۔

بے نظیر بھٹو نے بمشکل بیس ماہ حکومت کی تھی اور اگست 1990 میں غلام اسحاق نے انہیں برطرف کردیا پھر نئے انتخابات کراکر اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر میاں نواز شریف کو وزیر اعظم بنادیا جو تین سال بعد ہی غلام اسحاق خان سے لڑ بیٹھے اور انہیں بھی 1993 میں برطرف کردیا گیا مگر اس طرف خود غلام اسحاق کو بھی صدارت سے محروم ہونا پڑا۔

1993 میں بار بار حکومتیں تبدیل ہوئیں۔ سال شروع ہوا تو نواز شریف وزیر اعظم تھے۔ اپریل 1993 میں غلام اسحاق نے انہیں برطرف کرکے میر بلخ شیر مزاری کو نگراں وزیر اعظم بنا دیا جو صرف چالیس دن وزیر اعطم رہنے کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو بحال کیے جانے پر گھر چلے گئے۔ نواز شریف کی بحالی کو غلام اسحاق خان نے قبول نہیں کیا جس پر آرمی چیف جنرل عبدالوحیدکاکڑ نے مداخلت کرکے صدر اور وزیر اعظم دونوں کو گھر بھیج دیا اورمعین قریشی کی نگراں حکومت تشکیل دی گئی۔

پھر انتخابات کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیر اعظم بن گئیں اور اپنے پرانے ساتھی فاروق احمد خان لغاری کو صدر بنادیا لیکن پھر بھی جمہوریت نہ پنپ سکی۔ تین سال بعد بے نظیر اور لغاری ایک دوسرے کے مقابل آگئے۔ صدر فاروق لغاری نے جنرل ضیا الحق کی آٹھویں ترمیم کے تحت وزیر اعظم کو پھر فارغ کردیا۔

فروری 1997 کے انتخابات میں نواز شریف جیت کر دوبارہ وزیر اعظم بن گئے مگر ڈھائی سال بعد جنرل پرویز مشرف نے انہیں گرفتار کرکے معزول کرکے جلاوطن کردیا۔

اسی طرح 1988 سے 1999 تک کا نام نہاد جمہوری دور پاکستان کے لیے انتہائی عدم استحکام کا دور تھا جس میں دو بار بے نظیر اور دوبار نواز شریف وزیر اعظم بنے مگر کسی کو بھی ٹک کر کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ بلآخر ایک اور فوجی حکومت نے اقتدار پر قبضہ کیا اور جنرل پرویز مشرف اپنی کارگل کی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے خود وزیر اعظم کو ہی نشانہ بنا بیٹھے۔ اس طرح جنرل پرویزمشرف کی نوسالہ آمریت کا دور شروع ہوا جو جمہوریت کو مزید نقصان پہنچانے کا باعث ہوا۔

جنرل پرویز مشرف نے اپنے نو سالہ دو اقتدار میں پہلے تین سال بلا شرکت غیرے حکومت کی۔ کیوں کہ چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے ایک بار پھر عدلیہ کو فوجی حکومت کی مدد پر مجبور کردیا تھا اور مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیاربھی دے دیا۔ پھر 2002 میں جنرل مشرف نے انتخابات کراکر اپنی پسند کی حکومت قائم کی جس میں پہلے جمالی کو وزیر اعظم بنایا گیا پھر چودھری شجاعت کو اور پھر شوکت عزیز کو۔

جنرل مشرف کے دور میں امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا جس سے امریکا کو افغانستان میں فوجی مداخلت کا موقع ملا اور جنرل مشرف کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ اپنے نو سالہ دور اقتدار میں جنرل مشرف نے جنرل ضیا الحق کی طرح پاکستان کو مکمل طور پر امریکی اشاروں پر چلایا اور خوب مال بنایا۔ پھر بالآخر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی برطرفی جنرل مشرف کو لے ڈوبی۔

تمام جمہوری قوتیں اور وکلا تنظیمیں چیف جسٹس کی بحالی کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں جس کی وجہ سے مشرف کو پھر ہنگامی حالات نافذ کرنا پڑے۔ مشرف نے بے نظیر کے ساتھ این آر او کیا مگر جب بے نظیر نے جنرل مشرف کے اشاروں پر چلنے سے انکار کیا تو خود بے نظیر قتل کردی گئیں جس کا پاکستان میں جمہوریت کو شدید نقصان ہوا۔

دسمبر 2007 میں بے نظیر کی موت کے بعد جب انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم بنایا گیا جنہیں بحال شدہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے برطرف کردیا۔ الزام یہ تھا کہ وہ صدر آصف زرداری کے خلاف سوئٹزر لینڈ کو مقدمات کھولنے کے لیے خط کیوں نہیں لکھ رہے۔ پھر راجا پرویز اشرف وزیر اعظم بنے اور پیپلز پارٹی جیسے تیسے اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرپائی۔

2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ نون نے اکثریت حاصل کرکے حکومت بنائی اور مسلسل دھرنوں اور مختلف مقدمات کا سامنا کرتی رہی ہے۔ چار سال بعد نواز شریف کو عدلیہ نے نا اہل قرار دے کر برطرف کردیا اور شاہد خاقان عباسی وشیر اعظم بنے۔ 2018 کے انتخابات میں جس طرح تحریک انصاف کو ملک پر مسلط کیا گیا اس کا حتمی فیصلہ تاریخ کرے گی۔

اس طرح اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی تاریخ میں جمہوریت کو کبھی پنپنے نہیں دیا گیا جس کا پاکستان نے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ بار بار جمہوری تسلسل ٹوٹنے کے باعث آج تک کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کرسکا۔ لیاقت علی خان چار سال بعد قتل کردیے گئے اور ذوالقفار علی بھٹو جو اپنی وزارت عظمیٰ کے پانچ سال پورے کرسکتے تھے انہوں اپنی وزارت عظمیٰ کے چار سال بعد قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرکے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری۔

اس طرح سیاسی لحاظ سے پاکستان مستقل غیر یقینی کا شکار رہا۔ کسی بھی جمہوری طور پر منتخب حکومت کو ٹک کر کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ جس میں سول اور فوجی افسر شاہی کے علاوہ خود موقع پرست سیاستدانوں کی ایک پوری کھیپ شامل ہوتی ہے جو چور دروازوں سے اقتدار میں آنے کے لیے آمروں کی مدد کرتے ہیں اور پھر عدلیہ بھی اپنے غلط فیصلوں سے بار بار فوجی آمریتوں کو سپورٹ فراہم کرتی رہی ہے مگر سول اور جمہوری طور پر منتخب حکومتوں کو تنگ کرنے میں آگے آگے رہتی ہے۔

اب توقع کی جانی چاہیے کہ کاش ہم جمہوری طور پر مستحکم ہوسکیں اور ہماری سول اور فوجی افسر شاہی اور سیاست دان بالآخریہ مان لیں اکیسویں صدی میں جمہوریت ہی مہذب اقوام کا طرز حکم رانی ہے جسے بار بار بدلا نہیں جاسکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments