میری فکری گمراہیاں اور صا لحین کا لشکر جرار


ہم نے عورت مارچ کے حق میں ایک دو کالم اور دو چار پوسٹیں کیا لگا لیں کہ ہر طرف سے سوشل میڈیائی فدائین، تلواروں کی چھاٶں میں کلمہ پڑھنے والے سرفروش مجاہدین، رشد و ہدایت کے پیکر صالحین اور جھپٹ کر پلٹتے ہوئے لہو گرم رکھنے کے حیلہ گر اقبال کے شاہین اپنا اپنا فکری اور سوشل میڈیائی اثاثہ لے کر ہماری اصلاح کے لیے کر ونا وائرس کی طرح پل پڑے۔ پطرس کے مرزا صاحب کے بائسائکل سے نکلنے والی آوازوں کی طرح ان صالحین و واعظین کے بھی مختلف گروہ اور سُر تھے۔

اس تنوع اور رنگا رنگی کے باوجود سب کی تان دو اہم ترین نقطوں پر ٹوٹتی تھی۔ ایک یہ کہ عورت مارچ کی وجہ سے ہمارے دین اسلام اور مشرقی روایات و اقدار کو شدید ترین خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور اسلام کے نام پر بننے والا ملک اس ننگ آدمیت مارچ کی وجہ سے کفر، ضلالت، گمراہی اور بے راہ روی کا گڑھ بننے والا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس مارچ کے پیچھے یہود و ہنود اور طاغوتی و شیطانی قوتوں کا گٹھ جوڑ ہے جس کی وجہ سے ہماری نظریا تی اور فکری اساس بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

مومنین و محبان دین و وطن کے نزدیک ہم اس مارچ کی حمایت کر کے اللہ تعالٰی کے احکامات کی صریحاً نافرمانی کر کے ضلالت و گمراہی کے اندھے کنویں میں گرنے والے تھے۔ بلکہ کچھ زیادہ پارسا اور با شرع واعظان سخت گیر کے نزدیک تو ہم دائرہٕ اسلام سے خارج ہو چکے تھے اور اللہ تعالٰی نے ہمارے لیے نار جہنم بھی دہکا رکھی تھی۔ اللہ کے اس مقرب اور پسندیدہ گروہ نے ہمیں بے محل آیات قرآنی، احادیث رسول اور بزرگان دین کے فرمودات کے لمبے چوڑے اور مفصل لنکس بھیج کر انذار فی سبیل اللہ کا فریضہ انجام دیا۔

ایسی کاپی پیسٹ کمنٹٹس کے جواب میں ہمارے سکوت کو ان جواں مردوں نے رقت قلب اور روح پرور کیفیت پر محمول کیا اور اپنی کوشش میں اور بھی بے باک اور ہتھ چھٹ واقع ہوتے گئے۔ تنگ آ کر ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ حضور! آپ کے پند و نصائح اور وعظ و تبلیغ کی پیہم تیر اندازی ہماری گمراہی کے قلعے کو فتح کرنے میں ہر گز کامیاب نہیں ہو سکتی لہٰذا براہ مہربانی ہم پر وقت اور توانائی ضائع کرنے کے بجائے کسی نیک روح کو فیضیاب کریں۔ اس کے جواب میں ان واعظ خوش بیاں و شیریں زباں نے ایک عدد موٹی سی گالی سے سرفراز کرتے ہوئے صمم بکمم والی مشہور آیت پڑھ کر ہمیں ناقابل اصلاح ہونے کا سرٹیفکیٹ عنایت فرما کر ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا۔

حلقہٕ دوستاں میں ہمارے ایک مہربان و کرم فرما ایسے بھی شامل ہیں جو امت مسلمہ کو درپیش گونا گوں مسائل کا بہترین حل فکر اقبال میں سمجھتے ہیں۔ انہوں نے خلوص نیت سے فکر اقبال کی ترویج و اشاعت کو حرز جاں بنا رکھا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ ان کا حلقہ دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا ہے۔ انہیں کے حلقہٕ ارادت کے ایک سالک صادق ہیں جو خود کو اقبال کا سچا پکا شاہین سمجھتے ہیں اور گاہے بگاہے پہاڑوں کی چٹانوں اور کوہ و بیاباں میں اپنی خودی سر بلند کرتے پائے جاتے ہیں۔

گئے دنوں کی بات ہے کہ ہم نے انہیں کچھ مہوشوں اور پری چہرہ نازنینوں کو گرلز کالج کے باہر شرافت، صداقت، نجابت اور دیانت کا سبق دیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا۔ اس وقت وہ خودی کی امنگ اور بے خودی کی ترنگ میں انہیں بتا رہے تھے کہ بس میرے علاوہ تمام نوجوان پرلے درجے کے ہوس پرست، بھونڈ، بے وفا اور موقع پرست واقع ہوئے ہیں لہٰذا میرے سوا کسی کی چکنی چپڑی باتوں پر قطعی اعتبار نہیں کرنا۔ شادی خانہ آبادی کے بعد انہیں اقبال کے شاہین نے بٹوے میں انڈین اداکاروں کی ولولہ انگیز اور ایمان پرور قسم کی تصویریں ہمہ وقت رکھی ہوتی تھیں۔

ایک دن اہلیہ جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ میں اہل ہوں کسی اور کا میری اہلیہ کوئی اور ہے، نے انہیں دھر لیا اور پاناما کیس کی طرح بال کی کھال اتارنا شروع کردی۔ اس سے پہلے کہ اہلیہ من پسند قسم کی جے آئی ٹی بنا کر پاکستانی تفتیشی اداروں کی طرح تفتیش کر کے انہیں تا حیات نا اہل قرار دے دیتیں، انہوں نے فوراً حسب حال یہ قطعہ پڑھ کر جان چھڑائی کہ

وہ کرینہ ہو، وہ کرشمہ ہو، ایشوریا ہو یا مادھوری

نہ شک کر دیکھ کر بٹوے میں میرے تُو ان کی تصویریں

میں فقط اس نیّت سے ان کو دیکھتا ہوں بیگم

نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

بیگم نے تو شاید ان کی جان چھوڑ دی تھی مگر آج کل وہ ہماری جان کو آئے ہوئے ہیں۔ یوم خواتین پران کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ بے حیائی کا میلہ اسلام و پاکستان دشمن قوتوں کی منظم سازش اور ان کی طرف سے بھیجنے جانے والے پیسے کے بل بوتے پر سجایا گیا ہے۔ یہ دولت مند گھروں کی اخلاق باختہ اور بدچلن عورتوں کا اجتماع مادر پدر آزادی کا مطالبہ کر کے ملک میں آوارگی اور بد چلنی کے کلچر کو عام کرنا چاہتی ہیں۔ میرے خیر خواہوں اور اقبال کے شاہینوں کو رہ ر کر ایک یہ دکھ بھی ستا رہا تھا کہ ہم پیشہٕ معلمی سے وابستہ ہونے کے باوجود اس قسم کے اجتماعات کی حمایت کر رہے ہیں۔

ان حضرات نے بڑی دردمندی اور دل سوزی سے ہمارے فکری مغالطے دور کرنے کی کوشش کی مگر ان صالحین کی ہر کوشش سعیٕ لا حاصل ثابت ہوئی تو بیشتر نے ہمارے حق میں اللہ سے نہایت خشوع و خضوع سے ہدایت کی دعا مانگی اور ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا۔ تاہم دو چار جواں مرد اور اولوا العزم مجاہدین ہنوز اپنے مورچوں میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ ہم پر اوریا مقبول جان ( لیوا) کی طویل و بے مغز پیشن گوئیاں، تاریخ ساز کالم نگار کے رقت انگیز کالم، نسیم حجازی کے ولولہ انگیز ناولوں کے بے حقیقت اقتباسات اور مطالعہ پاکستان کی درسوں کتابوں کے جھوٹ ناموں کی مسلسل یلغار کیے ہوئے ہیں، حالانکہ ہم انہیں کتنی بار بتا چکے ہیں کہ ان کی یہ کوششیں کبھی بارآور ثابت نہیں ہو سکتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments