تعفن زدہ معاشرے سے ننگی گالیوں کی صدا


اسلام درس دیتا ہے رواداری کا، تحمل کا، صبر کا اور برداشت کا۔ اسلام حکم دیتا ہے انسان کو انسان سمجھنے کا۔ اسلام کہتا ہے منفی بات سے بھی مثبت پہلو نکالنے کا۔ لیکن جب بات آتی ہے اسلام کے پیروکاروں کی تو کیا کیا جاتا ہے؟ ہر بندے پر کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں، ہمارے عقائد اور ہمارے نظریات کے خلاف جو بھی کوئی بولتا ہے ہم اسے جینے کا اور عزت کا کوئی حق نہیں دیتے۔ ہمارے مطابق جنت صرف ہمارے لئے ہی تخلیق کی گئی ہے۔ جو ہماری ہاں میں ہاں ملائے گا وہ جنتی ہے اور جس نے اختلاف کی جرات کی وہ جہنمی ہے۔

ہمارے رویے انتہا کی حد تک پرتشدد ہو چکے ہیں اور اب ہم بحثیت معاشرہ ایسا سانپ بن چکے ہیں جو ہر اس شے کو جس کی سوچ ہم سے مختلف ہے نگلتا جا رہا ہے۔ ہمارا معاشرہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ایسا ریوڑ بن چکا ہے ہے جو ایک دوسرے کی اندھی تقلید میں ایک دوسرے کو کچلتے مسلتے بھاگتے جارہے ہیں ہیں۔ کہاں جا رہے ہیں؟ کیوں جا رہے ہیں؟ کچھ ہوش نہیں ہے۔ ہماری تہذیب کہیں پیچھے رہ چکی ہے اور ہماری اقدار کو ہماری بد اخلاقی کا گرہن لگ چکا ہے۔ ہماری شیریں گفتگو، میٹھے لہجوں کو گالم گلوچ اور بدزبانی نگل چکی ہے۔ احترام کو غروروتکبر قتل کر چکا ہے۔ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں ہم نے اتنی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچیں ہیں کہ اب ہم جسمانی طور پر تو نہیں مگر ذہنی طور پر معذور ہو چکے ہیں۔

اپنی بڑائی ثابت کرنے کے لئے ہم اپنے مخالف پر اتنا کیچڑ اچھالتے ہیں کہ اس کے چھینٹے آنے والی نسلوں کا مستقبل داغدار کر چکے ہیں۔ مجموعی طور پر ہمارا معاشرہ اب تعفن زدہ معاشرہ ہے جس میں سے صرف ننگی گالیوں کی آوازیں آتی ہیں، جس میں صرف بدزبانی ہے اور جس میں شرافت کا وجود گل سڑ چکا ہے۔

ہمارے میڈیا کا اس میں سب سے زیادہ کردار ہے۔ بہت سے شخص جو کسی بھی طرح سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ہیں وہ اس بہتی گنگا میں سے اپنے ہاتھ آلودہ کر رہے ہیں۔ ریٹنگ کی دوڑ میں سب کے سب اتنا اندھے ہوگئے ہیں کے اچھائی، برائی کی تمیز ختم ہو چکی ہے۔ ہر دوسرا شخص خود کو پاک ثابت کرنے کے لئے اپنے مقابل شخص کے لئے اتنی مغلظات بکتا ہے کہ انسان کے انسان ہونے پر شبہ ہونے لگتا ہے۔

گزشتہ روز ہونے والے واقعے میں اسلام آباد میں ایک مارچ کیا گیا جس میں کچھ افراد نے عورت مارچ میں شرکت کی اور کچھ نے حیا مارچ میں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا اپنے اخلاق سے اور اپنی حرکات سے کسی کو قائل کیا جاتا تاکہ لوگوں کے سامنے ایک مثال سیٹ ہوتی۔ لیکن ہوا کیا؟ ایسا طوفانِ بدتمیزی برپا کیا گیا جس کا شور سالوں سنائی دے گا۔ کچھ افراد کے لیے یہ ایک تفریح کا میلہ تھا کچھ نے اس واقعے سے اپنی دکانیں چمکائیں، کچھ نے اپنے اندر کی خباثت دکھائی۔ خود کو با حیا اور اپنے مقابل کو بے حیا، بد کردار اور بازاری افراد ثابت کرنے کے لئے اسلام کے نام پر ایسے ایسے واقعات رونما ہوئے کہ رقم کرتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے۔ پوسٹرز پر لکھی گئی عبارتوں کو بدل کر واحیات اور بے ہودہ فقرات لکھے گئے اور وائرل کیا گیا اور یہ کرتے ہوئے حیا خباثت میں بدل چکی تھی۔

ایک شخص کی بد زبانی سے شروع ہونے والا یہ ایک چھوٹا سا ایشو ایک بھیانک خواب کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اور یہ ایک پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی ایسے واقعات کثرت سے رونما ہوئے ہیں اور ایسے واقعات کی میڈیا کوریج کے بعد اب تو پاکستانی عوام کو بد تہذیب اور غرور میں اندھے افراد اپنے ہیرو لگنے لگے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments