ڈیوٹی


ماسٹر رفیق کی آدم شماری کی دس روزہ ڈیوٹی کے آخری دن کا آخری گھنٹہ تھا۔ اس کے ساتھ سپاہی قیُوم رانا کی ڈیوٹی بھی لگی تھی۔ سہ پہر کے قریب جب وہ دونوں، آخُوند معشُوق صاحب کے گھر کی مردم شماری اور گھر کے افراد کا اندراج کرنے کے لیے پہنچے تو ماسٹر رفیق، جو بہت تھک چکا تھا، آخُوند صاحب کے گھر کے سامنے لگے انگریزی ببُول کے پیڑ کے نیچے رکھی لکڑی کی ٹوٹی ہوئی بنچ پر بیٹھ گیا، جہاں آنے جانے والے مسافر، سردی خواہ گرمی میں گھڑی سوا کے لیے ذرا دم لینے کی غرض سے بیٹھتے ہیں۔ آخُوند صاحب کا منجلا لڑکا اُسے اپنے گھر کے افراد کی تفصیلات سے متعلق اعداد و شمار لکھوانے میں مصرُوف ہو گیا۔

حالانکہ اس ادھ ٹوٹی بنچ پر، ماسٹر اور آخوند صاحب کے بیٹے کے علاوہ بھی مزید دو افراد کے بیٹھنے کی جگہ تھی، مگر سپاہی قیُوم اس دوران کھڑا ہی رہا۔

”ارے بیٹھو ناں ڈھول سپاہیا! “ ماسٹر رفیق نے اپنے خالص دیہی لہجے میں بے تکلّفی سے قیوم کو کہا۔

”نہیں نہیں۔ میں ٹھیک ہُوں۔ آپ اپنا کام کرو! “ سپاہی نے اسے اطمینان سے جواب دیا۔

یہ اندراج ابھی جاری ہی تھا کہ آخُوند صاحب کا تیسرا اور سب سے چھوٹا بیٹا، اپنے خاندان کی مہمان نوازی کی اقدار کے عین مُطابق، ایک چھوٹا سا ٹرے ہاتھ میں پکڑے گھر سے نکلتا نظر آیا، جس پر چائے کے دو کپ اور ایک چھوٹی پلیٹ میں دو ڇار قسم کے کچھ بسکٹ رکھے تھے۔

اس نے تھوڑی ہی دیر میں وہ ٹرے آکر، اس ٹوٹی پُھوٹی بنچ پر بیٹھے اپنے بڑے بھائی کو پَکڑا دیا۔

”حضرت! چائے کے دو گھونٹ پی لیں۔ پھر انٹری کر لیتے ہیں۔ “ آخُوند صاحب کے بڑے بیٹے نے، ڈش، ماسٹر جی کے آگے بڑھاتے ہوئے پیشکش کی۔

”واہ واہ۔ واہ واہ۔ یہ ہوئی ناں بات۔ “ ماسٹر رفیق جھٹ سے انٹری رجسٹر ایک سائیڈ پر رکھ کر چائے پر لپکا۔

”سر جی! آپ بھی آؤ۔ بیٹھو۔ چائے پی لو! “ آخوند صاحب کے بیٹے نے اپنی پیشکش جاری رکھتے ہوئے، سپاہی طرف رُخ کر کے کہا۔

”نہیں سر! میں نہیں پیئُوں گا۔ “ سپاہی قیُوم نے، چھوٹے آخُوند صاحب کو صاف جواب دیا

”کیوں سر جی! ؟ “

”ہمیں یہ وردی اور ڈیوٹی اجازت نہیں دیتی۔ “ سپاہی نے بولا۔

ماسٹر رفیق، جو پہلے ہی اپنا کپ لے کر چائے کی چُسکیاں لینے میں مشغُول ہو چکا تھا اور اس میں ایک بسکٹ کو بھی ڈبو ڈبو کے کھانے لگا تھا، اُس نے اس دوسرے کپ میں بھی ہاتھ ڈال لیا اور بے حیائی سے گویا ہُوا: ”چھوڑ دیں اس فرض شناس کو۔ ادھر لائیں!

اس کی چائے بھی میں پی لیتا ہوں۔

مُجھے میری بے وردی وردی بھی اجازت دیتی ہے۔ تو ڈیوٹی بھی۔ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments