یوم خواتین کی ”سہاگ رات“


(گذشتہ سے پیوستہ)
ان گنت صدیو ں کے تاریک بہیمانہ جسم
ریشم واطلس و کم خواب میں نہائے ہو ئے
جا بجا بکتے کو چہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہو ئے خون میں نہائے ہو ئے
اب بھی دلکش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجئے

آپ سے کہا تھا کہ بلڈ پریشر، ہارٹ اورڈپریشن کی دوائیاں لے کر رکھ لیں۔ آٹھ مارچ آنے والا ہے۔ لیجیے آیا اور گزر گیا۔ اس بار پچھلے سال کی نسبت کافی میچورٹی دکھائی دی۔ پھر بھی پتھر برسائے گئے۔ اور کوئی حکومتی دیوانہ یہ کہتا نظر نہ آیا ”کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو“ خیر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔

بات کچھ یو ں ہے کہ اب تک جو آگ لگی ہو ئی ہے وہ خوف ہے۔ باقی سمجھنے والے سمجھ رہے ہیں۔ یہ دن تو آنا تھا۔ گالیا ں بھی پڑ رہی ہیں۔ تو وہ سچ ہی کیا جس پہ مخالفت نہ ہو۔ طاقت کی تصدیق کے لئے حیا مارچ کا اضافہ، شعور کی دستک کے لئے کافی ہے۔ ”کہ حیا کو بھی اپنی بات کر نے کے لئے گھر کی چار دیواری پھلانگنا پڑتی ہے۔ ورنہ اس کی بات کو ئی نہ تو سمجھتا ہے۔ نہ سنتا ہے۔ “ زندگی اسی کو کہتے ہیں۔

پیشن گوئی ہے لکھ کے رکھ لیجیے اگلے سال حیا کے کچھ نگینے بے حیاوں کی صف میں نظرآئیں گے۔

جب گھٹن حد سے بھر جائے تو طوفان آتا ہے۔ اگر آپ اس بے حیائی کو طوفان سمجھ رہے ہیں تو سوچئے گھٹن کہا ں ہو ئی ہے؟ کس نے کی؟

دونوں طرف شدت ہے۔ یہ شدت کہا ں سے آئی ہے؟

پہلے زمانو ں میں جب لال آندھی چلتی تھی تو لو گ کہتے تھے کہیں ظلم ہواہے۔ اب روز چلتی ہے تو ہم خود کو حق پہ سمجھتے ہیں۔ آگ لگی ہے تو ہوا دے کربھڑکا کیو ں رہے ہیں۔ ہوا بند کر دیں۔ نہیں، ایسا اس لئے نہیں ہو گا کہ دونوں شدتیں خود کو حق سمجھ رہی ہیں۔ حق تو وقت بتاتا ہے۔

آٹھ مارچ سہاگ رات کی طرح گزر گیا۔ کچھ میرے جیسے مرحوم زمانہ (محروم زمانہ کی تعریف آپ خود اپنی سوچ کی پرواز جتنی کر سکتے ہیں ) ہیں۔ جو کہہ رہے ہیں۔ ”ہائے، ہائے بے غیرتی پھیلا دی، لغو گوئی ہو گئی۔ شر م و حیا تو مر ہی گئی ہے۔ حالانکہ (شرم اورحیا اپنی مر ضی سے دوسرے مارچ میں تھیں ) ۔ اس کی مرضی کو عزت مل گئی۔ اِن کی مرضی کوپابند سلاسل کر نے کی ہر ممکن سعی کی گئی۔ کچھ وہ بیچارے تھے جو اس بارات میں شرکت کے بعد اپنے بستروں پہ کروٹیں بد ل بدل کر سوچ رہے تھے۔

بس آج اس شیر کا آخری دن ہے۔ اس کے بعد چوہے والی زندگی شروع ہو جانی ہے۔ کو ئی سوچ رہی تھی اب بتاؤ ں گی تجھ کو الو نہ بنا دیا تو۔ کو ئی تیس سال پرانی والی کواپنا وقت یاد آ گیا ہو گا ”اجی سنیے، آپ نے ویسے ہماری ساتھ تیس برس قبل اچھی نہیں کی تھی۔ یہ آج کی بچیاں دیکھیں، ہائے کیا دلیر ہیں، پہلے ہی کہہ دیا سب کچھ“ کسی کو اپنی تیس سالہ زندگی کی پہلی مردانہ غلطی یاد آ گئی ہو گی۔ اورکو ئی سوچ رہا ہو گا ہمارے دور میں ایسا کیو ں نہ ہوا آخر؟

صاف سی بات ہے آپ سب شدت پسند نہیں تھے۔ کوئی باظاہر تو گالیاں نکا ل رہا ہو گا۔ دل میں خوش ہو گا۔ یہ جو دشنام کار طبقہ ہے۔ اصل شیطان کا یار یہ ہے۔ کیونکہ خطرہ اس کو ہے۔

اجی بات کچھ یو ں میرے ہمدم

فحاشی سوچ کی ہے۔ ورنہ جب ایک گیت ہر سو ٹیپ ریکاڈر ز پہ چلتا تھا۔ تو کسی نے اف تک نہیں کی ”جلتا ہے بد ن، آج سر شام سے جلتا ہے“۔ اف کیا گیت تھا۔ بدن جل اٹھتے تھے۔ مگر عریانی نہیں کہلایا۔ پھر ایک اپنا پسند یدہ گیت، جیسے ہم دْعائیہ کلام کا درجے دیتے ہو ئے تصوف میں شمار کرتے ہیں ”دوری نہ رہے کوئی، آج اتنے قریب آؤ، میں تم میں سما جاؤں، تم مجھ میں سما جاؤ“ اور بے شمار ایسا ادب جو عریانی اور فحاشی کے زمرے میں گھسیٹا جا سکتا تھا۔ اس کو اس لئے آگ نہیں لگی کہ بندر کے ہاتھ میں استرا نہیں تھا۔

جب بھی کوئی تحریک شروع ہو تی ہے اس کی شدت ناقابل برداشت ہی ہو تی ہے۔ آہستہ آہستہ اس میں اعتدال آجاتا ہے۔ یہ شدت قانون سازی کی طرف سوال اٹھاتی ہے۔ تحریک کسی مروجہ قانون یا تہذیب کا رد عمل ہو تا ہے۔ اس کا مطلب کہ عمل کی شدت اور مدت نے جڑیں زمین میں گہری کر لی ہوئیں تھیں۔ برہیمنیت کے رد عمل میں دو تحریکوں نے سر اٹھایا۔ ایک معدوم ہو گئی ایک آج بھی زندہ و جاوید ہے۔ مہاویرا اور سدھارت۔ اوراگر ان کی تعلیمات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو کم از کم مجھے محسوس ہو تا ہے۔ مہاویرا کے زندہ نہ رہ پانے میں اس کی عورت ذات سے نفی تھی۔ بدھا نے اس کو بھی چیلنج کر دیا۔ اور آج تک زندہ ہے۔

لگتا ہے دائرہ کار سے باہر نکل گئی۔ تو میرے ہمدم میرے دوست بات صرف اتنی سی ہے۔ سہاگ رات کے جو سہانے سپنے ہم نے سجائے ہو ئے تھے وہ رات گزر چکی ہے۔ عورتوں کے مارچ میں کچھ ایسے نعرے تھے جو آپ کو پسند نہیں آئے۔ لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اس کی دوا نفرت ہے۔ یا کوئی گناہ گار ہو گیا ہے۔ کوئی ناپاک ہو گیا ہے۔ اجی ناپاکی میں پیدائش کی نوید بھی تو ہے۔ ہم نے ہر چیز کو شرم و حیا سے جوڑ دیا ہے۔ حقیقت اس سے الگ ہے۔ یو ں ”شرم“ الگ ہے، ”حیا“ الگ۔ اس کے مرکب سے شدت کا کام لیا جاتا ہے۔

ویسے بھی اگر آپ کا ایمان اتنا کمزور نہیں تو یقین رکھیے کہ ”نیک مرد کے لئے نیک عورت ہے“۔ اب یہ بری عورتیں برے لوگوں کے لئے چھوڑ دیں۔ وہ جانیں ان کا خدا جانے۔ ہم نے کوئی سب کو نیک بنانے کا ٹھیکہ تو نہیں لے لیا۔ جب ہم شام، لنبان، کشمیرکے لئے جہاد نہیں کر سکتے تو میری جان ان عورتوں پہ جہاد کر کے ثواب کے سیلاب میں نہ کودنے کواخلاق کہتے ہیں۔ برے لوگ تو پیغبروں کے دور میں بھی ختم نہیں ہو ئے تھے۔ ورنہ شیطان تنہا ہو جاتا۔

ظفر معراج صاحب نے دل کی بات کی ہے

” یہ جو مارچ ہو رہا ہے۔ یہ جو عورت نے ڈنڈا اٹھایا ہو اہے۔ یہ غصہ ہے۔ ایک چیز کا نہیں بہت ساری چیزوں کا غصہ ہے۔ اگر آپ کو خوف ہے کہ یہ غصہ آپ کے گھر تک پہنچئے گا تو آپ اپنے گھر کی عورت کو ایک ڈنڈا اور پتھر دے دو۔ کون سا ڈنڈا اور پتھر؟ آپ کا اعتبار، آپ کا اعتماد۔ اگر اس کے باوجود وہ کمزور ہے۔ مضبوط نہیں ہے اس کا مطلب کمزوری اس میں نہیں، کمزوری پھر آپ میں ہے“

یہ ایک با عمل، باشعور مرد کا بیان ہے۔ جو ایک عورت لکھ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے۔ ابھی کچھ نہیں بگڑا۔ فطرت میں طاقت مو جود ہے۔ آپ کو ایک قدم کسی اور کے ساتھ بڑھانا ہے۔ اور وہ آپ کی اپنی عورت ہے

ہماری ایک دوست کی شادی ہو ئی۔ اس کو پرانے گانے پسند تھے۔ اس نے لگا لئے ”دودل ٹوٹے، دو دل ہارے۔ “ اس کی ساس کی گھبرائی ہوئی آوازآئی ”بیٹا ابھی تو شادی کا قرضہ بھی نہیں اترا۔ یہ گانا بند کو دو۔ “

تو میرے ہمدم ابھی عورت مارچ کی سہاگ رات ہو ئی ہے۔ خوش خبری کے لئے تھوڑا انتظار فرمائے۔ ذرا شادی کا قرضہ اتر جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments