ویل ڈن۔ عورت مارچ


کم و بیش پانچ دہائیوں کی جدوجہد کے بعد ہمارے ملک کی عام عورت کے مطالبات کو صحیح طور پر نمایاں کرنے کا جو انداز خواتین نے عورت مارچ کی صورت میں اپنا یا ہے وہ قابل تحسین ہے اور میں سمجھتا ہوں کی اس کی گونج یقینا حکومتِ وقت کے کانوں تک پہنچے گی۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا بھر میں عورتوں کی آواز بلند کرنے کی جدوجہد کم و بیش 100 سال سے بھی پرانی ہے۔ ہمارے معاشرے کی عام عورت کی آواز کوحکمرانوں تک پہنچانے کا شاید اس سے بہتر طریقہ نہیں تھا۔

میٹنگوں، سیمناروں، پبلک فورمز وغیرہ ہر طریقہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے لیکن گونگے، بہرے حکمرانوں تک اپنی آواز پنچانے کا شاید یہ سب سے بہتر طریقہ ہے۔ میں خود اپنی بیس سالہ سماجی خدمت میں جب بھٹہ مزدور، سینٹری ورکر خواتین کے ساتھ اُن کی آواز بنتا رہا تو میں معاشرے کی بے حسی پر حیرت کا اظہار کرتا رہا کہ عوام کی بہت تھوڑی تعداد اُن کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتی تھی۔ آپ اگر ملک بھر میں عورت مارچ کا مشاہدہ کریں تو اس میں آپ کو بھٹہ مزدور عورت، سینٹری ورکر، فیکٹری میں کام کرنے والی، کھیت میں کام کرنے والی، گھروں میں کام کرنے والی، دفاتر میں کام کرنے والی، میڈیاسے تعلق رکھنے والی عورتیں، وکلاء، ٹیچرز غرض ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی عورتیں شامل تھیں۔

حیرت کی بات یہ کہ ماضی میں عام عورت کی جدوجہد کا تمسخر اڑانے والے آج اُن کے مدمقابل احتجاج کر رہے ہیں۔ قارئین آپ یقینا پرہ چکے ہوں گے، دیکھ چکے ہوں گے عورت مارچ کے شروع ہونے سے پہلے ہی اس کو متنازع بنانے کے لئے جو جو کوششیں کی گئیں اور کس طرح عورت مارچ کو مغربی فنڈ کا پروگرام ثابت کرنے کی پوری پوری کوشش کی گئی اور اُن خواتین کو جو عورت مارچ کی منتظمین اور جو ان کی حمایت کرتی ہیں اُن کو کس طرح کے القابات سے نوازا گیا۔

تاسف کی بات یہ کہ اگر کوئی عام آدمی یا خاص طبقے کے افراد اس طرح کے الزامات لگائیں تو اُن کی تو سمجھ میں آتی ہے کہ شاید اُن کا تو ایک خاص قسم کا مائنڈ سیٹ ہے اس لیے اُن سے تو اس طرح کا رویہ کا اظہار لازمی امر تھا لیکن شوبز سے تعلق رکھنے والے ایک ڈرامہ نویس نے جب عورت مارچ اور اُس کے نعروں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور نہ صرف تنقید بلکہ اُس پروگرام میں شامل اُس عورت کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی جو کم از کم کسی لکھاری سے تو توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔

اس واقعے کے بعدیقینا ہر ذی شعور برملا کہہ سکتا ہے کہ ہمارا معاشرہ ابھی عورت کو احترام دینے میں بہت پیچھے ہے۔ معاشرے کے یہ طبقات اور افراد یقینا ہر اُس شخص کو بُرا بھلا کہیں گے جو عورت کی آزادی کی بات کرے گا، عورت کے حق کی بات کرے گا، عورت کو تعلیم دینے کی بات کرے گا، عورت کی مساوی اُجرت کی بات کرے گا۔ وہ بھلے سعادت حسن منٹو ہو، وہ بھلے ماروی سرمد ہو یا فرزانہ باری ہو ہمارا معاشرہ تاحال عورت کو وہ مقام دینے سے قاصر ہے جس کی جدوجہد وہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے کر رہی ہے۔

ایسی صوتحال میں عورت مارچ کا انعقاد معاشرے کی اُن عام عورتوں کی آواز بن رہا ہے جو اپنا حق مانگ رہی ہیں۔ اگر بھٹہ مزدور اپنی وہ اُجرت مانگ رہی ہے جسے حکومت نے کاغذوں میں تو لکھ رکھا ہے لیکن اُسے دی نہیں جاتی تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ اگر سینٹری ورکر خواتین اپنے الاؤنسز کا تقاضا کر رہی ہے تو اُسے وہ پچاس سالوں کے باوجود کیوں نہیں مل رہے۔ اگر گھروں میں کام کرنے والی خواتین مطالبہ کرہی ہیں اُن کی اُجرت کا تعین کیا جائے تو اس کی اُجرت مقرر کیوں نہیں کی جاتی۔

اگر دفاتر میں کام کرنے والی خاتون اپنے تحفظ کا مطالبہ کر رہی ہے تو اُن قوانین پر عملدرآمد کیوں نہیں کروایا جاتا جو اُس کے تحفظ کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ چلیے اگر ایک لمحے کے لئے اُن طبقات کی بات مان لی جائے کہ ہمارے معاشرے میں عورت کو تمام حقوق حاصل ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو ہر قسم کا تحفظ حاصل ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں کھڑے نہیں ہو سکتے؟ کیوں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستا ن کو ہر سال بتا نا پڑتا ہے کہ ملک میں اتنی فیصد خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں، ملک میں اتنی فیصد خواتین کو تیزاب سے جلایا گیا ہے، اتنی فیصد خواتین کو مساوی اُجرت نہیں مل رہی وغیرہ وغیرہ۔ یہ رپورٹیں نہ صرف ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان بلکہ عورت فاؤنٖڈیشن، شرکت گا ہ، ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل غرض ہر وہ ادارہ پیش کرہا ہے جو عورتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اگر آپ عورت کو مساوی حقوق کے بارے میں احتراز برتتے ہیں تو آپ کو کوئی حق نہیں آپ عورت کے کردار کو منفی انداز میں پیش کریں۔ آپ ہمارے معاشرے کے سٹیج ڈرامے، ٹیلی ویژن ڈرامے، فلمیں دیکھیں آپ کو عورت کا کردار اکثر و بیشتر غلط انداز میں پورٹریٹ کیا جاتا ہے اور تاسف کی بات یہ کہ اُسی پورٹریٹ کو سچ سمجھا جاتا ہے مثال کے طور پر گھر سے باہر نکل کر ملازمت کرنے والی خواتین کے بارے میں عمومی رائے پیش کی جاتی ہے کہ یہ عورتیں غلط قسم کا چال چلن رکھتی ہیں۔

عورت اگر کسی مرد کے ساتھ بات کر لے تو عورت کے بارے میں منفی رائے بنا لی جائے گی۔ عورت اگر مساوی اجرت مانگے تو وہ غلط اور اگر سر جھکا کر کام کرتی رہے تو وہ ٹھیک ہے۔ غرض اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں جو ثابت کری ہیں ستر سال گزر جانے کے بعد بھی ہم عورت کے حوالے سے متضاد خیالات کا شکا ر اوراُ س کے کردار کو لے کر ابہام کا شکار ہیں۔

گزشتہ روز عورت مارچ جس کو خیبر پختونخواہ کے علاوہ ملک کے ہر صوبے میں پورے جو ش و خروش کے ساتھ منایا گیا ہے لیکن صد افسوس کہ ملک کے دارالحکومت میں عورت مارچ اور اس کے مقابل میں کیے جانے والی عورت مارچ کے خلاف ایک جلوس نے عورت مارچ کے شرکاء پر جوتے اور پتھر برسا کر اُن کے مارچ کو ثبو تاژ کرنے کی ایک بھونڈی حرکت کی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں مقامی انتظامیہ کا رول بنتا تھا کہ وہ اس صورتحال کے پیش نظر کوئی متبادل حکمت ِ عملی بناتے تاکہ کشیدگی کا امکان نہ ہوتا۔

خیر اس کے باوجود عورت مارچ کے ذریعے معاشرے کی عام خواتین نے اپنا پیغام حکومت وقت تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اب یہ حکومت پر ہے کہ وہ ان مطالبات کوحل کرنے کے لئے قانون سازی کرتے ہیں یا نہیں اور جن مطالبات پر قانون سازی ہو چکی ہے اُن پر عملدرآمد کرواتی ہے یا نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اس جدوجہد کو صرف ایک دن کے طور پر ہی دیکھتے ہوں لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ معاشرے کی عام عورت جن مصائب سے دن رات نبرد آزما ہوتی ہے، جن مشکلات کو وہ نت نئے دن دیکھتی ہے اور اُن پر وہ کمزور آواز میں اپنا احتجاج کرتی ہے، یہ دن اُسے جراٗ ت دلاتا ہے کہ وہ اہنی جیسی تمام عورتوں کے ساتھ مل کر اُس مطالبے کو دہرائیں جس سے اُس کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے۔

عورت مارچ میں شامل اور اُس کی حمایت کرنے والے تمام افراد اور ادارے قابل تحسین ہیں جنہوں نے معاشرے کی ایسے محروم طبقے کے لئے آواز بلند کی ہے جنہیں لے کر وہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے اپنی آواز بلند کر رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سلسلہ اب رُکنے والا نہیں ہے اور ہم سب کو عورتوں کی اس جدوجہد میں شامل ہونے کی ضرورت ہے تا کہ ہم اپنے معاشرے کو صنفی امتیاز سے دُور کر کے ایسے معاشرے کی بنیاد ڈالیں جس میں عورت کو اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر نہ آنا پڑے۔ ویل ڈن۔ عورت مارچ۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments