تو ایک مارچ آنکھوں میں رہ جانے والے آنسوؤں کے نام


ویسے تو پاکستان میں سال کے بارہ مہینے ہی اپنی پوری آب و تاب سے کسی نہ کسی سیاسی معاشی یا عالمی ہلچل کے نشانے پر ہی رہتے ہیں لیکن یہ مارچ کا مہینہ تو پاکستانی تاریخ میں ایسا ستم ڈھارہا ہے کہ بس ہی ہوگئی۔ کبھی ادھر سے آواز آتی ہے ان کو کہنا مارچ آرہا ہے تو کبھی ادھر سے آواز آتی ہے کہ مارچ آگیا ہے۔

اس مارچ کے بھی اپنے رنگ ہیں اپنے انداز ہیں کبھی اس میں لانگ مارچ والے ہیں تو کبھی اس میں رنگ ڈالتے صرف سپورٹ مارچ والے۔ کبھی ڈی چوک کبھی جناح کے شہر میں تو کبھی لاہور کے دل میں اپنے مفادات کے لیے جادوگروں کے مارچ۔ تو کبھی اس مہینے میں دل کا درد ڈالتے اپنے پیاروں کے لیے در در ٹھوکریں کھاتے لاپتہ افراد کے لیے مارچ۔ تو کبھی چلا چلا کر اپنے حقوق پر بات کرنے کے لیے یہ چند اسٹوڈنٹس کا زندہ دل مارچ۔

ارے ہاں اسی مہینے تو عورتوں کا عالمی دن بھی آتا ہے.

باہر کے ملکوں میں کچھ ہو نہ ہو ہمارے ہاں تو اس دن عورتوں کو بھی عورتوں کا خیال آجاتا ہے اور مردوں کو توخیر سارا سال ہی عورتوں سے متعلق معاملات کا نے حد خیال رہتا ہے۔

کچھ الگ ہی جدا جدا ساعورت مارچ جبکہ ساتھ ساتھ اس کے مقابلے میں حیا مارچ۔ دونوں طرف کانٹے کا مقابلہ دونوں کے مخالف اور حامیوں کا ایک دوسرے کے خلاف ہر محاذ پر لہو گرماتا بھرپور مارچ۔

لیکن اس مارچ کے قیامت ڈھاتے موسم میں ایک مارچ کیوں نہ آنسوؤں کے نام بھی ہوجائے جو آنکھوں میں ہی رہ گئے۔

تو کیوں نہ ایک مارچ اس رکشہ ڈرائیور کی خودکشی کے نام جو اپنے بچوں کو ٹھٹھرتا زمانے کی ٹھوکریں کھاتا چھوڑگیا۔ اور ایسی نہ جانے کتنی خوکشیوں کے نام جن کی بے بس موت ہم سے سوال پوچھتی ہے؟

تو پھر کیوں نہ ایک مارچ کاشانہ اطفال کے اندھیروں میں بھٹکی معصوم اقرا کائنات کی پرسرار موت کے نام بھی ہوجائے شاید اس مارچ سے جو یتیم خانوں میں معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہوتا ہے اس پر کسی اہل دل کو ترس آجائے کہیں کوئی بام و در ہل جائے۔ کسی کو ترس آجائے کوئی پاکر سن لے۔ کیوں نہ ایک مارچ پولیس کی اندھی گولیوں کا شکار سانحہ ساہیوال کے مظلوموں کے نام۔ تو پھر کیوں نہ ان اندھی گولیوں کانشانہ بنے نقیب اللہ اوراس جیسے مظلوموں کے نام بھی ایک بھرپور مارچ ہوجائے جو شاید انصاف کی اندھی دیوی کی آنکھیں کھول دے۔

کیوں نہ ایک مارچ ان معصوم بچوں کے نام جن کو یہ گلی میں پھرتے کتے بھنبھوڑ دیتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

تو کیوں نہ ایک مارچ ان ایڈز زدہ بچوں کے نام جو زندہ لاشیں بن کر ہمارے منہ پر طمانچہ ہیں۔

تو کیوں نہ ایک مارچ ان عزتوں کے نام جو غیرت کے نام پر خاموشی سے زندہ قبروں میں سوجاتی ہیں۔ تو کیوں نہ ایک مارچ ان آوازوں کے نام جن کو سننے سے پہلے گھونٹ دیا جاتا ہے۔

ہاں تو پھر کیوں نہ ایک مارچ ان معصوم شہیدوں کے نام جن کے قاتل کو مصلحت کے نام پر رہائی دیدی گئی۔

تو کیوں نہ ایک مارچ ان بے گناہ قیدیوں کے نام جن کی زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گھن کھاجاتی ہے ان کو پوچھنے والا دیکھنے والا سننے والا بھی کوئی نہیں۔

تو کیوں نہ ایک مارچ ان معصوم بچوں کے نام جن کی معصومیت کو وحشت کھاجاتی ہے ہم مصلحتوں کی چادر تانے چپ سورہے ہیں۔

تو کیوں نہ ایک مارچ ان سیاسی منافقتوں کے نام جس کی سیڑھیاں چڑھ کر ہمارے سیاستدان حکومت کی کرسی چڑھتے ہیں۔

تو کیوں نہ پھرایک مارچ ہماری آنکھوں میں رہ جانے والے آنسوؤں کے نام کیونکہ یہ مارچ ہے اور مارچ تو موسم ہے مارچ والوں کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments