عورت کو کتنی آزادی چاہیے؟


عورت مارچ کے نعروں کا آغاز کیا ہوا، مانو میڈیا پر اک طبل جنگ بج اٹھا، یوں لگا کہ کوئی طوفان آگیا۔ چہار جانب سے ”سوشل میڈیائی“ مرد مجاہد سینہ تان کر ”میدان جنگ“ میں آگئے۔ رہی سہی کسر ماروی سرمد اور خلیل قمر صاحب کی ایک پروگرام کے دوران ہوئی بحث نے پوری کری۔ وہ طوفان ”بد تمیزی“ برپا ہوا کہ اس کی دھول میں عورت کو درپیش ”حقیقی مسائل“ پر گرد پڑ گئی۔ عورت مارچ جو درحقیت خواتین کے حقوق اور آزادی کے لئے ہونا تھا، ماروی سرمد اور خلیل قمر کی ”بحث“ میں الجھ گیا۔

اس بحث میں دو گروپ واضح طور پر سامنے آئے، ایک وہ جو ماروی سرمد کے ساتھ کھڑا تھا اور دوسرا وہ جو خلیل قمر کی جانب تھا۔ دونوں جانب دونوں اصناف کے نمائندے شامل تھے۔ پدر سری معاشرے میں ”مرد“ کا ایک مرد کی حمایت کرنا سمجھ میں آتا ہے، لیکن حیرت ان خواتین پر ہوئی جو ”تہذیب وتمیز“ سے عاری ایک ”متکبر“ شخص کی حمایت کے لئے میدان میں اتر آئیں۔

ہمارا حلقہ احباب ہر طرح کے لوگوں پر مشتمل ہے، صنف کی کوئی قید نہیں۔ لیکن جب اچھی خاصی ”تعلیم یافتہ“ خواتین اور ”باشعور“ حضرات کو بھی خلیل کی حمایت میں شامل پایا تو روح تک میں ”کڑواہٹ“ گھل گئی۔ یعنی کہ ”حد“ ہی ہو گئی۔ سوال اٹھانے والے پوچھتے ہیں کہ عورت کو ”کون سے“ حقوق اور ”کتنی“ آزادی چاہیے؟ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ ”بیہودہ“ ہے، نہیں لگانا چاہیے۔ اپنا کھانا خود گرم کرو سے بڑی بد تمیزی کیا ہو سکتی ہے؟

آئیے آپ کو بتائیں کہ عورت ”کون سے“ حقوق مانگتی ہے؟ اپنی مرضی سے تعلیم کا حق، اپنی مرضی کے مضامین ”منتخب“ کر کے اپنی مرضی کے ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کا حق۔

اپنی پسند کے اظہار کا حق، وہ جس کے ساتھ زندگی گزارنی ہے اس کے ”انتخاب“ کا حق، وراثت میں جائیداد کا حق، وہ بھی اس طرح کہ ”جائیداد“ اور رشتوں ”میں سے کسی ایک کا انتخاب نہ کرنا پڑے۔ اپنی مرضی کی“ نوکری ”کا حق وہ بھی اس ذہنی سکون کے ساتھ کہ ورک پلیس پر اس کو کوئی“ ہراساں ”نہ کرے۔ مردوں کے ساتھ کام کر کے مردوں کے“ برابر ”تنخواہ کا حق۔ اپنی محنت کی کمائی کو اپنی“ مرضی ”اور آزادی سے خرچ کرنے کا حق۔ اور کبھی جو تھکی ہاری گھڑی بھر کو آرام چاہے تو اس کے جسم کو“ اپنی مرضی ”سے آرام کا حق۔

آپ پوچھتے ہیں کہ عورت کو ”کتنی“ آزادی چاہیے؟ میری بیٹی کی عمر ”چار“ سال ہے، اس کی چار سالہ زندگی میں اس کو ”شارٹس“ نہیں پہنا سکی۔ جانتے ہیں کیوں؟ کیونکہ مجھے ”حریص“ ہاتھوں اور ”غلیظ“ نظروں سے ڈر لگتا ہے۔ اس کے لئے لباس کا انتخاب کرتے مجھے وہ ”دانشور“ یاد آ جاتے ہیں جو ”ریپ“ ہونے والی بچی کے لئے بھی یہ کہتے ہیں کہ ”ایسا“ لباس ہو گا تو ”جذبات“ تو بے قابو ہوں گے۔ یہ اور بات کہ محفوظ تو ”برقع پوش“ بھی نہیں رہتی۔ عورت کواپنی مرضی کے ”لباس“ کے انتخاب کی ”آزادی“ چاہیے۔

اگر جو عورت خود سائیکل، موٹر سائیکل، گاڑی چلانا چاہے تو اسے ”ڈرائیونگ“ کی آزادی ہو۔ یہ نا ہو کہ اسے راستے میں گزرتے ہوئے ”ہراساں“ کیا جائے۔ آزادی سے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کی ”آزادی“، نا کہ سارا سفر اس خوف میں گزرے کہ ابھی دائیں بائیں، آگے پیچھے سے کوئی ”نادیدہ“ ہاتھ نمودار ہو کر سکون کو درہم برہم کر دے، اور اٹھائیس، انتیس گھنٹے کا سفر بھی اسی خوف میں مسلسل ”جاگ“ کر گزرے۔ اپنی مرضی سے ”واک“ کرنے کی آزادی کہ چار ٹانگوں والے جانوروں سے زیادہ ”دو“ ٹانگوں والے جانوروں سے ڈر لگتا ہے۔ چاند رات کو شاپنگ کرنے کی آزادی کہ ”کندھے“ ٹکرانے اور ”انگلیاں“ کھبانے والوں کا خوف نہ ہو۔

عورت تو بس ”سانس“ لینے کی آزادی چاہتی ہے، کھل کے زندگی ”جینے کا حق“ چاہتی ہے۔ ورنہ جو کچن میں ”جون“ کی گرمی میں دو گھنٹے چولہے کی آگ ”برداشت“ کر کے آپ کے لئے کھانا ”تیار“ کر سکتی ہے، اس کے لئے ”پانچ“ منٹ لگا کر کھانا ”گرم کرنا“ کون سا مشکل کام ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments