انسانی تہذیب میں آئینے کا کردار،کہیں دولت کی نشانی کہیں خوف کی علامت
انسان صدیوں سے آئینوں کا استعمال کرتا آیا ہے، کبھی مستقبل کا حال جاننے کے لیے، کبھی کسی کو ڈرانے کے لیے ، کبھی کسی سے سچ اگلوانے کے لیے۔ کبھی آئینے دولت کی نشانی اور کبھی بدقسمتی کی علامت سمجھے گئے۔ لیکن جب بات آئینے پر آتی ہے تو بہت کچھ ایسا بھی ہے جسے آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں۔
آئینہ یقینی طور پر کچھ خاص ہی ہے۔ یہ ہمیں اپنے آپ کو یا کسی اور کو دیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنے چہرے کو پرکشش بنائیں، کسی اہم تقریب کی تیاری کریں یا پھر اندھیرے میں اسی سے ڈر جائیں۔
تقریباً ایک ہزار برس تک مستقبل کی پیشینگوئی اور سچائی کی تلاش کےلیے آئینے کو استعمال کیا گیا۔ کچھ دولتمند خاندان اپنی دولت کی نمائش کے لیے وینس کے شیشوں کا سہارا لیتے تھے۔
آئینوں کے بارے میں بہت کچھ ایسا بھی ہے جو نظر نہیں آتا۔ اگر آپ آئینوں کو اچھی طرح استعمال کرنا جانتے ہیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ تو کام کی چیز ہے اور اس کے دانتوں پر لگی لپ سٹک کو ختم کرنے کے علاوہ اور بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔
مستقبل کی جھلک کا ذریعہ
قدیم یونان میں تین صدی قبل مسیح میںتھیسلے کی چڑیلیں جادوائی شیشوں کی مدد سے اپنے خون سے پیشگوئی لکھتی تھیں۔
قدیم روم میں پادری آئینوں کی مدد سے حال، ماضی اور مستقبل دیکھتے تھے۔
آئینوں کی مدد سے فال نکالنے کی روایت ساری دنیا اور لوک کہانیوں میں موجود ہے۔
دوسرےجہاں سے رابطہ
موجودہ دور میں آئینہ بنانے کے لیے ایلومینیم پاوڈر کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن قدیم مصر میں تانبے کو پالش کر کے آئینہ بنایا جاتا تھا۔ تانبے کو نسوانیت کی نشانی، ہاتھور دیوی کے ساتھ جوڑا جاتا تھا۔ مصری تہذیب میں ہاتھور دیوی کو حسن، کشش، زرخیزی اور جادو کی دیوی تصور کیا جاتا ہے۔
شمالی امریکہ کی ازٹیک تہذیب میں آئینہ بنانے کے لیے آتش فشاں چٹان کو استعمال کیا جاتا تھا۔ ازٹیک تمدن میں ٹیزکا ٹیلپوکا دیوتا کو آئینہ سے جوڑا جاتا تھا۔
ٹیزکاٹلپوکا دیوتا جسے وقت اور اسلاف کی یادوں کا دیوتا مانا جاتا ہے، وہ آئینوں کی مدد سے زمین اور زیر زمین دنیا کو دیکھتا تھا۔
اعلی عہدوں پر دوست
چین میں آئینوں کو قمری توانائی کو قابو میں لانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ چین میں ایک شنہشاہ کو جادوائی آئینے کی مدد بادشاہت مل گئی تھی۔ کن سلطنت کے پہلے سلطان کن شی ہوانگ کو 25 قبل مسیح میں اس وقت سلطنت مل گئی جب انھوں نے دعوی کیا کہ ایسے لوگ جو آئینہ دیکھتے ہیں آئینہ ان کی اندر کی خوبیوں کو بھانپ لیتا ہے۔
دیوار پر آئینہ
خیال کیا جاتا تھا کہ آئینے وہ ان منعکس ہونے والی تمام پرچھائیوں کو محفوظ کر لیتے ہیں جو بعد میں ان کے کام آتا ہے اور شاید یہ سوچ ہی ’سنو وائٹ مرر‘ کہانی کی بنیاد بنی۔
کہا جاتا ہے کہ اصلی سنو وائٹ اٹھارویں صدر عیسوی کی باویرین بیرنس تھی جس کے والد نے 1743 میں دوسری شادی کر لی تھی اور اس کی سوتیلی ماں جو اپنے پہلی شادی سے ہونے والے بچوں سے زیادہ پیار کرتی تھی، اس کو اس کے شوہر نے تحفے میں آئینہ دیا تھا۔ اس آئینے کو بولنے والا آئینے کا نام دیا گیا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ موجودہ جرمنی میں تیار کیا گیا اور وہ ہمیشہ سچ بولتا تھا۔
اس کہانی میں جس آئینے کا ذکر کیا گیا وہ اب بھی لور قلعے کے سپسارٹ میوزیم میں محفوظ ہے۔
اپنی قسمت یا بدقسمتی اپنے ہاتھوں میں
آئینوں کے ساتھ کئی توہمات بھی جڑی ہوئی ہیں جیسے کہ اگرآپ آئینے کو توڑ دیتے ہیں تو سات سال تک بدقسمتی آپ کا پیچھا کرے گی۔
رومن تہذیب میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ اگر آپ آئینہ توڑ دیتے ہیں تو آپ کی روح شییشوں کے ٹکروں میں پھنس جائے گی اور سات سال تک پھنسی رہے گی کیونکہ ہر سات برسوں میں زندگی ایک نیا چکر کاٹتی ہے۔
لیکن اس بدقسمتی سے چھٹکارہ پانے کے طریقے بھی نکال لیے گئے تھے جیسے اگر کسی کے ہاتھوں آئینہ ٹوٹنےسے اس کی روح شیشوں میں ٹکروں میں پھنس گئی تو وہ ان ٹکروں کو چن کر زمین میں دبا کر یا پھر تیز بہاؤ والے دریا میں ڈال کر زندگی کے چکر کو دھوکہ بھی دے سکتا ہے۔
لیکن پاکستان میں گھر میں آئینے کا ٹوٹنا اچھا شگون سمجھا جاتا ہے۔
توہم پرست اداکار اس پر یقین رکھتے ہیں کہ جب وہ اداکاری کےلیے تیار ہو رہے ہوں تو کوئی دوسرا شخص اسی آئینے میں اپنے آپ کو دیکھے گا، تو یہ ان کے لیے بدشگونی ہے۔
اور تھیٹر کےسٹیج پرآئینوں کی موجودگی کو انتہائی برا سمجھا جاتا ہے کیونکہ اگر وہ ٹوٹ گئے تو توہم پرست اداکار شاید سٹیج کو چھوڑ ہی جائیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں آئینے بدروحوں کی گزرگاہ ہے۔ ویسے بھی سٹیج کو سجانے والے کے لیے آئینے بڑی مصیبت کا باعث ہوتے ہیں کیونکہ وہ روشنی کو منعکس کرتے ہیں جس سے اداکاروں کی آنکھیں چندھا سکتی ہے تو ایسا کون چاہے گا۔
آئینوں پر پردہ
سلطنت برطانیہ کے وکٹورین دور میں جب کسی مردے کو دفنانے سے پہلے لٹایا جاتا تھا تو گھر میں موجود تمام آئینوں کو ڈھانپ دیا جاتا تھا ۔ اس کا مقصد روح کو آئینوں میں پھنسے سے بچانے کے لیے کیا جاتا تھا۔ ایسا صرف برطانیہ میں ہی نہیں کیا جاتا تھا بلکہ امریکہ، چین، مڈغاسکر، کرائمیا اور ممبئی میں بھی یہی رواج تھا۔
یہودی خاندانوں میں یہ رسم اب بھی ہے جب وہ سات روزہ سوگ ’شیوا‘ میں بیٹھتے ہیں تو تمام آئینوں کو ڈھانپ دیا جاتا ہے۔
بلڈی میری گیم سے پرہیز کریں
آپ نے کبھی بلڈی میری گیم کھیلی ہے۔ مت کھیلیں۔ اس سے آپ کو بہت ڈر لگے گا۔
بلڈی میری ایک ایسی گیم ہے جو آپ کو اندھییری اور طوفانی رات کو بلکل نہیں کھیلنا چاہیے۔ لیکن اگر آپ بلڈی میری کو کھیلنے کی جرات کرتے ہیں، اور اندھیری رات میں موم بتی لے کر آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر تین بار بلڈی میری کہتے ہیں تو پھر جب آپ کی روح یا نظر آپ کے ساتھ شرارت کرتی ہے تو پھر آپ کو بلڈی میری اپنے پیچھے کھڑی نظر آتی ہے۔ پھر چیخ لیں جتنا چیخ سکتے ہیں۔
یادوں کے زہریلے دانت
کچھ پرانی تہذیبوں میں یقین کیا جاتا تھا کہ آئینے ہماری روح کی پرچھائی یا انسان کی اصل روح کو منعکس کرتے ہیں۔ یہ خیال اس اعتقاد کی بنیاد ہو سکتا ہے کہ بھوت اور پریت کی کوئی روح نہیں ہوتی ہے جو آئینے میں منعکس ہو سکے۔
لہذا جب اگلی بات جلدی میں آئینے میں اپنی جھلک دیکھ کر باہر نکل رہے ہوں تو پیچھے دیکھے گا کہ آپ کو کون دیکھ رہا تھا۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).