اللہ میاں تلے آ


کائنات۔

کائنات بیٹا۔

ابھی آئی امی۔

کیا کر رہی ہو؟

ہوم ورک کر رہی ہوں امی۔

کائنات جلدی سے مرغیوں کے ڈربے سے

ہٹ گئی اپنے کپڑے جھاڑے

اور دوڑتی ہوئی امی کے پاس آگئی

جی امی جی۔ آپ نے بلایا

وہ میں۔

وہ میں۔ کیا؟ اب بولیں بھی سہی۔ (کائنات کی امی نے غصہ بھرے انداز میں کائنات کو دیکھا)

کائنات کچھ گڑ بڑا سی گئی

کائنات تم پھر گندگی میں چلی گئی

تمھیں کتنی بار بتایا ہے کہ ڈربوں یا جانوروں کے باڑوں کے پاس نہ جایا کرو مگر ایک آپ ہو کہ میری بات سنتی بھی نہیں ہو۔ بیٹا میں آپ کو اس لیے منع کرتی رہتی ہوں کیونکہ گندگی میں جاؤ گی تو پھربیمار ہو جاوگی اگر میں آپ کو منع کرتی ہوں تو آپ کے بھلے کے لیے منع کرتی ہوں آپ کی دشمن تھوڑی ہوں۔

لیکن امی وہ مرغی کے ایک چوزے کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی وہ درد کی وجہ سے تڑپ رہا تھا مجھ سے دیکھا نہیں گیا تبھی میں اسے باندھ آئی ہوں

ماں نے دوبارہ گھور کر کائنات کو دیکھا۔

بیٹی کیا ہو گیا ہے تجھے مرغیوں، بلیوں، کتوں

اور بکریوں کے باڑوں میں گھومنے اور ان کے درمیان رہنے کی کیا فضول عادت لگ گئی ہے۔ پتہ نہیں کس پہ گئی ہو۔ نہ میں ایسی ہوں نہ تیراباپ۔ خدا جانے کیا بنے گا تمہارا۔ امی وہ ہماری مس کہہ رہی تھی انسانوں پہ رحم کرو لیکن بیٹا اس نے انسانوں کا کہا ہے مرغیوں کا نہیں۔ لیکن امی مرغی تو اپنے چوزے کی مرہم پٹی نہیں کر سکتی تھی نا۔ اس لئے مرہم پٹی کرنا ضروری تھا۔ امی اب میں آپ کو کیسے سمجھاؤں۔ میں نہیں رہ سکتی ان کے بغیر۔ امی وہ لال رنگ کی مرغی کتنی خوبصورت ہے جب اپنے بچوں کو پروں سے چھپا کر بیٹھتی ہے امی۔ کل میں اپنی دوست کو بتا رہی تھی کہ میں رنگوں میں سوچتی اور محسوس کرتی ہوں تو وہ کافی دیر ہنستی رہی تھی اور کہنے لگی

”اچھا جی! یعنی تمہیں روتے ہوئے نیلا رنگ نظر آتا ہے، موتیے کی خوشبو ڈارک گرین ہوتی ہے میڈم کے چاروں طرف سفید رنگ کا دائرہ بن جاتا ہے۔ ہا۔ ہا۔ ہا۔ ہا۔ “

ایک بات تو بتا میری جادوگرنی سہیلی؟ بہ مشکل اپنی ہنسی کو بریک لگاتے ہوئے کہا۔

میں نے بھی صاف صاف کہہ دیا ”میں نہیں بتاتی تم گندی لڑکی ہو میرا مذاق اڑاتی ہو“

تو بچوں کی طرح ٹھنک کر بولی۔ ”اچھا یہ لو میں نے ہونٹوں پہ انگلی رکھ لی۔ اب ایک لفظ نہیں بولوں گی۔ بس اتنا بتادو میرا بھی کوئی رنگ ہے کہ نہیں“

میں نے بھی شودوں جیسا منہ بناتے ہوئے کہا۔

”اورنج۔ “

”اورنج؟ جیسے مرنڈا؟ “

”اوں۔ ہاں کچھ ویسا ہی۔ مگر تھوڑا کڑوا۔ ویسے یہ اورنج کلر والے لوگ عام طور پر بے وفا ہوتے ہیں۔ تو کہنے لگی“ چل موٹی! ۔ تیرے رنگوں کی ایسی کی تیسی۔ ”اور پھر اپنے منہ سے چبائی ہوئی تلسی باہر نکالی اور میرے منہ پہ دے ماری۔

”میں نے بھی کہہ دیا“ جی نہیں۔ رنگ ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ کبھی رنگ برنگے چہچہاتے چرند پرند کو غور سے دیکھو تو پتہ چلے نہ۔ مگر مما کیا بتاؤں آپ کو۔ وہ غصے سے بولے جا رہی تھی اور میں اس کے جھوٹ موٹ کے غصہ کو انجوائے کر رہی تھی۔ مما۔ یہ رنگ برنگے جانور بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ ہانا مما۔

ماں کے چہرے کی زرد رنگت دیکھتے ہی کائنات چہرہ سیاہ پڑ گیا ا۔ چھا چھوڑو فضول باتیں۔

تیاری کرو۔ اور ہاں ذرا جلدی۔ کیونکہ ناشتہ بھی کرنا ہے سکول جانے کا وقت ہونے والا ہے

******************

کائنات کی وردی دیکھ کر سب بچیاں ہنسی رہی تھیں

اس کے کپڑے کیچڑ میں لت پت اور بیگ

پھٹا ہوا تھا۔

سب بچے طرح طرح کی باتیں کرنے لگ گئے

کائنات کچھ پریشان ہوگئ

میم کے کلاس میں داخل ہوتے ہی

سب بچے خاموش ہوگئے لیکن

میم ان کے موڈ کو بھانپ گئی تھی

کیا ہوا بچو۔ بچے ابھی خاموش ہی تھے

لیکن میم کائنات کی حالت دیکھتے ہی اصل بات کو پہنچ گئی۔

کائنات۔

یہ سب کیا ہے؟

کائنات کو پریشان دیکھ کر میم نے دھیمے لہجے میں کہا

کیسے خراب ہوئے تمھارے کپڑے بیٹا

جی میم وہ راستے میں

بکریاں آگئی تھیں۔

تو بکریوں سے ملاقات کرنا اہم تھا؟ اپنے کپڑے اور بیگ خراب کرنا ضروری تھے؟

نہیں مس وہ بکریوں کے ساتھ گڈریا بچی میری دوست ہے۔

ہاں تو۔ (میم کائنات سے مخاطب ہوئی)

میم جی۔

اصل میں وہ بیمار اور کچھ تھکی ہوئی تھی اس کی یہ حالت مجھ سے دیکھی نہیں گئی۔

اچھا تو تم اس کے مویشی جنگل پہنچا کر آئی ہو

جی میم۔

کائنات کی ایسی حرکتوں پہ خوب مذاق چلتا۔

بس ایک میم زہرہ اس کی ان عادات پر ان کا حوصلہ بڑھاتیں۔

اور آج میم زہرہ کلاس میں دس منٹ دیر سے پہنچی تو تیمور نے فوراً جملہ کسا

میم آج آپ بھی چرواہے کی امداد پہ تھیں

جی کچھ ایسا ہی ہے

میڈم نے جواب دیا

اصل میں یہ سرکاری ادارہ قصبہ شاہ محمد آبادی اور کھلے کھیتوں کے درمیان پڑتا تھا یہی وجہ ہے کہ پیدل اور گاڑی پہ آنے والے طلبہ اور ٹیچرز اکثر راستوں میں اپنے ڈھور ڈنگر دور کھیتوں میں لے جانے والے چرواہوں سے روزانہ ملتے

یہ ایک طرح کا پرانا ساتھ تھا

یہ ادارہ آزادی سے قبل کا ہائی سکول تھا

اپ گریڈ تو نہیں ہو سکا لیکن اس ادارے نے علاقہ میں اچھی اور شاندار تعلیمی روایات قائم کیں کائنات کی یہ عادت میم زہرہ کو بہت پسند تھی۔

۔ ۔

دیکھا کائنات فاطمہ نور بھی تمھاری طرح ہے۔ جانوروں اور پرندوں سے محبت کرنے والی

کائنات کی یہ عادت میم زہرہ کو بہت پسند تھی وہ۔ ہمیشہ کائنات کی اس عادت پہ اسے داد دیا کرتی تھی بلکہ کئی بار وہ خود ان ریوڑوں کا نظارہ کرنے ان ویرانوں اور تھانوں کی طرف بھی نکل جاتی۔

۔ ۔

جانوروں اور پرندوں سے محبت کرنے والی

زہرہ اپنی بہو سے اکثر فاطمہ کی اس عادت کا ذکر لے بیٹھتی

شہر میں اب سکولوں نے اپنی اپنی ٹرانسپورٹ لگادی تھی

فاطمہ بھی اپنی گاڑی پہ آتی۔ لیکن راستے جہاں کہیں کوئی کوئی باڑہ آوارہ پھرتے جانور نظر آتے وہ کھل اٹھتی۔

اگر اس کے بس میں ہوتا تو وہ ان کے ساتھ چلتی۔ مگر وہ جب بھی راستے میں مویشی دیکھ کر آتی کافی وقت اسی سحر میں رہتی۔

جب کبھی پارک یا چڑیا گھر جاتے تو وہ دن فاطمہ کا عید کا دن ہوتا

ایک دن سکول سے واپسی پہ فاطمہ کہنے لگی مما کل ہمارا سکول ٹرپ جا رہا ہے۔

فاطمہ بیٹا آپ نہ جائیں۔ پتہ نہیں کیوں میرا دل بہت اداس ہے اس بار آپ ٹرپ کے ساتھ نا جائیں اس بار مٙیں، تمہاری نانو اماں کے گھر رہنے کا پروگرام بنا رہی ہوں کیا خیال ہے بیٹا؟

نہیں نہیں مما۔ پلیززز۔ اس بار میرا ٹرپ کے ساتھ جانا بہت ضروری ہے اور میں اپنے سب دوستوں سے ٹرپ کے ساتھ جانے کا وعدہ کر چکی ہوں اور دوسری اہم وجہ میڈم نزہت بھی ہے میں نے آپ سے پہلے بھی میڈم نزہت کا بتایا تھا میڈم زہت میری پسندیدہ میم ہیں اور میرے لیے خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ اس بار میں، میم نزہت کے گروپ میں ہوں

اور وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں

میرا بہت خیال رکھتی ہیں۔ بالکل ایسے خیال رکھتی ہیں جیسے آپ مما جی۔

میڈم نزہت گزشتہ ٹرپ پر مجھے اپنے گھر بھی لے گئی تھیں اس لیے میرا جانا بہت ضروری ہے۔ مما۔ مان جائیں پلیززز۔ اچھا بیٹا چلی جانا مگر ایک وعدہ کروں مجھ سے کہ ہم اگلی چھٹیاں آپ کی نانو کے گھر گزاریں گی۔

جی مما پکا وعدہ۔ لو یو مما۔ آپ دنیا کی سب سے حسین ماں ہیں میری کل کائنات ہے

بیٹا آپ بھی میری دنیا ہو میرا کل اثاثہ ہو اللہ پاک آپ کو لمبی عمر عطا کرے اور کامیابیاں آپ کا مقدر بنی رہیں

آمین مما۔ مما آپ خوش رہا کریں آپ کو خوش دیکھ کر مجھے سکون ملتا ہے۔

چلو بیٹا، نماز کا وقت ہو گیا ہے نماز ادا کرتی ہیں۔

**********

زہرہ کو اپنی پوتی کی ٹیچر پہ بہت پیار آیا۔

اپنی سروس کے دوران وہ بھی اپنے شاگردوں سے ایسے ہی پیار کرتی تھی۔

کائنات نے بچوں کو تیار کیا۔ اور معمول کی کچھ گھریلو چیزیں لانے کے لیے بازار نکل گئی۔

سب کچھ معمول کے مطابق تھا دن کے تین بجے کے لگ بھگ فاطمہ کے ابو خلاف معمول پریشان گھر پہنچے۔

اسی اثنا میں کچھ اور لوگ بھی آگئے۔

خوشیوں بھرا گھر لمحوں میں ماتم کدہ تھا۔ کائنات اور فاطمہ کے لہو لہان جسم گھر لائے جا چکے تھے۔

نوحے بین ہائے فریاد

سے پوراماحول غم کدہ تھا۔ خوف جو آس پاس آسیب کی طرح منڈلا رہا تھا

اب اس شہر میں بھی اتر آیا۔ لوگ ظلم پر چیخے چلائے

شدید احتجاج و مظاہروں کے بعد قاتل پکڑے گئے تو پتہ چلا

فاطمہ کی پسندیدہ ٹیچر کسی گینگ کی رکن تھی کائنات کو بازار میں فاطمہ کی اچانک طبیعت کی خرابی کا فون کر کے اغوا کیا اور فاطمہ کو اس کی ٹیچر پکنک پوائنٹ کے قریب ایک چرواہے کی بکریوں کے چھوٹے بچوں سے کھیلنے کے بہانے باقی طلبہ سے دور لے گئی جہاں سنسان تھا ویران جنگل میں عجیب سی آوازیں فاطمہ کے کانوں میں سائیں سائیں کر رہی تھیں۔ فاطمہ زور زور سے چیخنا چاہتی تھی مگر ڈر کی وجہ سے اس کے آواز حلق میں ہی دب گئی تھی اندھیرے سنسان جنگل سے میڈم نزہت کے گروپ نے فاطمہ کو اٹھا لیا۔

اپنی ہوس کی تسکین کے بعد ماں بیٹی کو زندگی سے محروم کر دیا گیا۔

اس قیامت سے سنبھلنے کی کوشش ہی تھی کہ دو سال بعد ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر میڈم نزہت اور اس کا گینگ بھی چھوٹ گیا۔

اب وہ اسی شہر میں

مزید شکار اپنی تسکین کے لیے سونگھتے پھر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments