کرونا وائرس، روم اور ویٹی کن سٹی


کرونا وائرس کے بادلوں نے اٹلی پر بھی اپنی نحوست کی چادر تان دی ہے۔ سیاحت کے موسم کا آغاز ہے اور بندہ قید ہوگیا ہے۔ کہاں جائے۔ نہ مسلمانوں کا قبلہ و کعبہ محفوظ اور نہ کیتھولک عیسائیوں کا ویٹی کن سٹی۔ چلیے ایسے میں کچھ میری سیر سے اپنی پیاس بجھا لیں۔

میں روم میں ہوں اور اکیلی ہوں اور خود سے ہم کلامی کے انداز میں گویا ہوں۔

تو آج کیتھولک عیسائیوں کے مکے مدینہ کا دیدار کرنا ہے۔ شوق کی فراوانی ہے۔ عقیدت کا رنگ ہے۔ روم میں میرا تحفہ خاص ہے جو آج میں وصولنے جا رہی ہوں۔

ایزو لینا ہوپ آن ہوپ آف کی گائیڈ سے بات ہوگئی تھی۔ ناشتے اور کنگھی پٹی سے فراغت کے بعد میں نے تھوڑی دیر کے لئے اٹلی پر لکھی ہوئی کتاب کھولی۔ تقریباً ایک سو ایکڑ پر مشتمل آزاد خود مختار ایک بڑے ملک کے پایہ تخت روم کے اندر ہی دنیا کا سب سے چھوٹا ملک جس کے اپنے مسلح فوجی دستے، اپنا ڈاک کا نظام، ہیلی پیڈ، منی ٹرین اسٹیشن، ریڈیواسٹیشن، اپنا یورو سکہ جس پر پوپ بینڈکسٹBenedictxvi سولہواں کندہ ہے۔ سیاسی طور پر طاقتور۔ 1.1 بلین رومن کیتھولک لوگوں کا روحانی مرکز۔ پوپ ویٹی کن سٹی کا بیک وقت روحانی اور سیکولر لیڈر ہے۔ صدیوں سے وہ کنگ پوپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ویٹی کن کے رہائشی تقریباً ساڑھے نو سو کے قریب ہیں اور 3000 کے قریب لوگ یہاں کام کرتے ہیں۔

وقت دیکھا۔ نو بج رہے تھے۔ فوراً اٹھی۔

”ویٹی کن سٹی دیکھنا ہے۔ کتابوں کی دکانوں پر جانا ہے۔ شام کسی خوبصورت پیازے میں گزارنی ہے۔ “

میں سوچوں سے باتیں کرتی گویا ایک طرح اڑی جا رہی تھی۔

ایزولینا نے محبت بھری نظروں سے دیکھا۔ اس کی پیشانی چومتے ہوئے آگے بڑھ کر قریبی سیٹ پر بیٹھ گئی۔

بصارتوں میں جونہی وہ مانوس سی عمارت آئی۔ آنکھوں میں قندیلیں سی جل اٹھیں۔ کھیتولک عیسائیت کے اِس مرکز اور پاپائے روم کے بیانات سے اکثر و بیشتر پرنٹ و الیکڑونک میڈیا کے توسط سے خاصی مانوسیت رہی ہے۔

سچی بات ہے اب یہ تو مجھے یہاں آکر پتہ چلا تھا کہ پوپ اتوار کو اپنا دیدار کرواتے ہیں۔ اس دن ٹکٹ ویکٹ بھی فری۔ اب عقل پر بندہ ماتم ہی کرئے گا کہ ویک اینڈ پر روم آنے سے گریز جان بوجھ کر کیا۔

عین سکوائر کے سامنے آکر میں نے چھاؤں میں بیٹھ کر ڈیرے ڈال لئے کہ پہلے تو جی بھر کر اسے دیکھنا مطلوب تھا۔ نقشے پڑھنے کی ضرورت تھی۔

میرے سامنے ایک وسیع قطعہ ء زمین پر ستونوں پر کھڑی دائیں بائیں سیمی سرکل میں گھومتے برآمدوں سے سجی عمارتیں مرکزی عمارت کو گویا اپنے حصاریا دوسرے لفظوں میں اپنے تحفظ میں لینے کا تاثر دیتی تھیں۔ ٹکٹ کے لئے لمبی قطاریں تھیں۔

پانی کی ایک بوتل خالی کرکے میں اٹھی کہ اب کمر ہمت باندھوں کہ گوڈے نے ایک کڑاکا بجایا۔

جی چاہتا تھا کہ کِسی کی منت کروں کہ وہ یا میرا ٹکٹ لے لے۔ یا مجھے اپنی جگہ دے دے۔ جگہ دینے کی درخواست کا احمقانہ مطالبہ خود مجھے بڑا کمینہ سا لگا۔ اور ٹکٹ کے لئے دھوپ میں پینڈا مارتی لائن تک پہنچی۔ رکاوٹی جنگلے کے پار کھڑی پھینی سی ایک لڑکی سے درخواست کی۔ جس انداز میں مجھ بیچاری کی پذیرائی ہوئی اُس نے چلّو بھر پانی میں ڈوب مرنے والی بات یاد دلادی تھی۔ لڑکی نے بے حد عجیب سی نظروں سے مجھے یوں گھورا تھا جیسے کہتی ہو۔

”کیوں لوں تمہارا ٹکٹ۔ تمہاری کیا ٹانگیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ اتنی تو ہٹی کٹی لگ رہی ہو۔ “

”چلو میاں سیدھے سبھاؤ لگو قطار میں۔ “

تو صبر کا پھل بڑا رسیلا اور میٹھا تھا کہ جب کانسی کے ایک بھاری بھرکم عظیم الشان دروازے سے اندر قدم رکھا تو اوپر والے کے لئے شکرگزاری کے احساسات نے جذبات کو بڑا رقیق سا کررکھا تھا۔

”ارے میں اور یہ سب۔ “

ایک جادوئی سحر جیسی دنیا میں داخلہ ہورہا تھا۔ دنیا کی سب سے چھوٹی خودمختار سلطنت کا عجائب گھر جو آپ پر آرٹ کی دنیا کے اسرار کھولتا ہے۔ جہاں دنیا کے عظیم مصور آپ پر ایمان اور آرٹ، عیسائیت اور کلچر، خدا اور انسان کے درمیانی سلسلوں کی گھتیاں کھولتے چلے جاتے ہیں۔

کیا بات تھی اُ س دنیا کی جہاں داخل ہوئی تھی۔ بڑی کلاسیکل قسم کی عمارت کا آنگن ہے۔ محرابی گزرگاہوں والے برآمدوں میں ٹھنڈک، سکون اورشانتی سی جیسے اُتری ہوئی ہے۔ قدامت پور پور میں رچی بسی زمانوں کی خوشبو اپنے اندر بسائے ہوئے ہے۔

دائیں بائیں جدھر دیکھتی ہوں آرٹ کی دنیا آباد ہے۔ مجسمے ستونوں کے ساتھ ایستادہ ہیں۔ کہیں نیپچونNeptune، کہیں Hellenistic، کہیں اپالو اور کہیں Laocoomگروپ نے یارڈ کو سجا رکھا ہے۔ یہ یونانی اور رومن تہذیبوں کے نمائندے ننگے دھڑنگے۔ بولوں تو کیاکہ اظہار کرنامشکل ہورہا ہے کہ فتووں سے ڈر لگتا ہے۔

ہاں البتہ عقیل رُوبی بے طرح یاد آیا ہے۔ جس کی دُنیایونانی کرداروں سے آباد رہتی تھی۔

چلو اللہ رازق اور مددگار ہے۔ انڈین لوگ مل گئے۔

میری خواہش پر کاپی پر لکریں کھینچ کھینچ کر چیزوں کو وضاحت سے بتا دیا کہ بس دو چیزیں دیکھ لو۔ یہاں تو آرٹ اور تہذیبوں کا سمندر ہے۔ ہاں Pinacoteca دیکھنے کی سفارش کی کہ وہ قریب ہی تھا۔

تو اِن پیارے سے لوگوں سے رُخصت ہوتی ہوں۔ Pinacoteca آرٹ کا پورا جنجال پورہ ہے۔ سچ تو یہی تھا کہ کہیں بہار جیسے شوخ و شنگ رنگ، کہیں دھیمے میٹھے اور کہیں پھیکے رنگوں کی بارش بھگو بھگو کر شرابور کررہی تھی۔ وہ برس رہی تھی۔ راستہ روک رہی تھی اور مجھے بھگوتی چلی جارہی تھی۔ ونچی کا شاہکار سینٹ جروم جیسے کسی دشت تنہائی کا اسیر۔ Giotto اور بلینی دونوں اپنی انتہائے معراج کو پہنچے ہوئے۔ دونوں کے فن سے آنکھیں چرانا کہیں ممکن تھا۔

چہروں کا ایک ایک نقش، ایک ایک خم واضح کررہی تھی۔ زنجیروں کی حدبندیاں تو قریب جانے میں مانع تھیں۔ ڈھیروں ڈھیر کمرے بس جو چیز باعث راحت تھی وہ کمروں میں بیٹھنے کا شاہانہ قسم کا اہتمام تھا۔

میں لطف اٹھا رہی تھی۔ مریم کی جنسی تعلق سے آزاد حاملہ ہونے کی تصوراتی صورتوں کی آگاہی سے جو بڑی ہی موہ لینے والی تھی کہ اِس تصور نے نہ صرف کام کو انفرادیت دی بلکہ اس کی وسعتوں میں بھی نئے رخ تھے۔

Raphael rooms تک پہنچنے میں تین بار رُک رُک کر تھوڑا آرام اور تھوڑی منہ ماری کی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ رافیل اور اس کے ساتھیوں کاکام حد درجہ متاثر کن تھا۔ سولہویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کا نمائندہ یہ کام جسے رافیل اور اُسکے ساتھیوں نے فریسکوٹیکنیک استعمال کرتے ہوئے نشاۃ ثانیہ کے دور کے کام کو زندہ و جاوید کردیا۔ کمروں کی محرابی صورت دیتی دیواروں پر آرٹ کے کیا شاہکار نمونے بکھرے ہوئے تھے۔

بہت سے ایسے موضوعات تھے جنہوں نے آنکھوں کو جکڑا ہوا تھا مگر ان کا تعلق کِس پس منظر سے ہے اس سے کوئی شناسائی نہیں تھی۔ لطف اندوزی رنگوں، کرداروں، انکے

رویوں اور ماحول کے ساتھ فنکارانہ چابک دستیوں کے ہاتھوں ضرور ہورہی تھی۔

البتہ بورگوروم میں آگ لگنے کے واقعے کی عکاسی بڑی واضح تھی۔ میرے نزدیک مقدّس سیکرامنٹSarcament (جس میں شادی بیاہ کے موقع پر شراب اور روٹی پر جھگڑے کی شکل) کی کیا شاندار عکاسی تھی۔ آسمانی اور زمینی زندگی کے رنگ، تصور کی بلند پروازی۔ خدا تو کہیں دھرتی کے پادریوں جیسا ہی نظر آتا تھا۔

جی چاہتا تھا وقت کی ٹنل میں گُھس جاؤں۔ اس دور میں چلی جاؤں جہاں وہ موٹی آنکھوں والا رافیل لگتا تھاThe school of Athens پینٹ کررہا ہے۔

سارا کمرہ گویا علم کے اعتراف میں سرنگوں تھا۔ سچائی اور دلیل کی عظمت کو سلام پیش کرتا تھا۔ کلاسیکل فلاسفی سے مذہب کی طرف کا راستہ عیسائیت سے پہلے اور بعد کا عہد زندہ و تاباں تھا۔ یہ شاہکار ایتھنر کے مکتبہ فکر کے عظیم مفکروں ارسطو، افلاطون وغیرہ کو خراج پیش کرتے تھے۔ 1520 The Tramsfiguration کا اس کا یہ کام ابھی تکمیل کو نہیں پہنچا تھا کہ وہ فوت ہوگیا۔ اِسے بعد میں اس کے شاگردوں نے مکمل کیا۔

رافیل بہت جلدی مرگیا صرف 37 سال میں اور اس کے چاہنے والے اُس کا یہی شاہکار اٹھائے روم کی گلیوں میں ماتم کرتے پھرتے تھے۔

کتنا وقت میں نے وہاں گزارا۔ مجھے اس کا خود احسا س نہیں تھا۔

Sistine chapelدراصل اِس میوزیم کا دل ہے۔ پوپ کا ذاتی چیپل یہی وہ جگہ ہے جہاں جب وہ مرتا ہے اُسے رکھا جاتا ہے اور یہیں نیا پوپ منتخب ہوتا ہے۔ یہاں Michelangeloکا کام ہے۔ اور کیا شاہکار کام ہے۔ بائبل کی پہلی کتاب اس کے سارے سبق یہاں جس کا جی چاہے وہ پڑھ لے۔ ساری بات تو ہدایت اور روشنی کی ہے۔

خدا کو دیکھنا بڑا انوکھا تجربہ تھا۔ میرے تصوراتی خدا سے خاصا مختلف۔ بوڑھے تو دونوں تھے۔ مائیکل اینجلوMichelangelo کا خدا البتہ بہت جلال والا دکھتا تھا۔ میں نے اپنے کا سوچا۔

”نہیں بھئی وہ تو مجھے بڑا نرم خو سا نظرآتا ہے۔ محبت سے لبالب بھرا۔ ہمدرد اور غمگسار دوست جیسا۔ گلے شکوے کر لو۔ غم وغصے کا اظہار کر لو۔ آدم اور خدا کے درمیان تعلق کی ڈور۔ کیاخیال آفرینی تھی۔ دونوں کے بڑھے ہوئے ہاتھوں کی انگشت شہادت کا

ملاپ آسمان اور زمینی کرّے کا ایک دوسرے کی طرف جُھکاؤ۔ واہ کیا کھلا ڈلا معاشرہ ہے۔ خدا کو اپنے جیسا بنا کر رکھ لیا ہے۔

ممتاز مفتی کے خدائی تصور کی من وعن ایسی ہی تصویرہے۔ چاند، ستاروں اور زمین کی پیدائش کے عمل کے ساتھ آدم اور حوا کی پیدائش جنت سے نکالے جانے کا منظر۔ نوح اور سیلاب۔

مزہ آرہا تھایہ سب دیکھتے ہوئے۔ آدم اور خدا کے درمیان تعلق کے مختلف انداز۔ سب کی شکلوں سے تعارف ہوا۔ حضرت علی، حضرت امام حسین اورحسن سے بغداد میں تصویری تعارف ہوگیا تھا۔ بغدادیوں کی بھی افتاد طبع کی داد دینی پڑتی ہے۔ کیا خوبصورت اور دلآویز سی صورتیں بنا کر دیواروں پر ٹانگ دی ہیں۔

The Last Judgment کی مجھے خاک سمجھ آنی تھی اگر ایک گروپ اپنی گائیڈ سے اس کا پس منظر نہ سُن رہا ہوتا۔ اور میں ان کے پاس نہ کھڑی ہوتی۔ مائیکل اینجلو کو اِسے بنانے کے لئے کہا گیا تھا۔ کہہ لیجئیے یہ قیامت کا منظر ہے۔ حضرت عیسیٰ کی دوبارہ آمد اور خدا کا یومِ حساب۔ روحوں کا اٹھنا اور اپنی قسمتوں کا فیصلہ سننا۔ یہی وہ دن کہ جب کوئی جنت اور کوئی دوزخ میں جائے گا۔ ایک افراتفری کا عالم۔ حضرت عیسیٰ اپنے ممتاز ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے مقدروں کے فیصلے کرتے ہیں۔

ایک سحر کی سی کیفیت سے نکلنے میں کافی دیر لگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments