تم سے پہلے بھی یہاں اِک شخص تخت نشین تھا


پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے سربراہ میرشکیل الرحمن کو آخر کار نیب نے 34 سال پہلے خریدی گئی پراپرٹی کے جرم میں گرفتار کرلیا ہے۔ جس طرح نیب کے اقدامات سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ معاملہ گرفتاری تک جائے گا اسی طرح نیب کی انویسٹی گیشن بھی ”راز“ کھول دیتی ہے کہ ملزم بے گناہ قرار پائے گا۔

میرشکیل الرحمن پر الزام ہے کہ 34 سال پہلے انہوں نے میاں نواز شریف سے سیاسی رشوت کے طورپر 54 پلاٹ خریدے اور یہ تمام پلاٹ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ یہ پلاٹ جس وقت الاٹ کیے گئے اس وقت میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ اس کیس میں سب سے بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ جب وزیراعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف ترقی کرتے ہوئے وزیراعظم کے عہدے پر پہنچے تو ان کی میر شکیل الرحمن سے لڑائی شروع ہوگئی اور اس لڑائی نے اس قدر شدت اختیار کی کہ روزنامہ جنگ دو صفحات تک محدود ہوگیا۔

میاں نواز شریف کے اس اقدام کے خلاف اخباری مالکان کی تنظیموں سے زیادہ صحافتی تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور پھر کئی ”قوتوں“ نے ملکر اس لڑائی کو ختم کروایا اور جنگ گروپ بچ گیا۔ مگر اس دور میں بھی میاں نواز شریف نے میرشکیل الرحمن سے ان 54 پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا حساب نہیں مانگا۔ اگر یہ غیر قانونی ہوتے تو مجھے یقین ہے میاں نواز شریف سب سے پہلے ان 54 پلاٹوں کی واپسی کا بندوبست کرتے۔

درحقیقت وزیراعظم عمران خان کے اقدامات نے اب تک یہ سچ کر دکھایا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے خلاف کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور جہاں تک نیب اور اس کے چیئرمین کا معاملہ ہے توانہیں نہ تو اپنی ساکھ کی پرواہ ہے اور نہ ہی اپنی آخرت کی۔ عمران خان کو وزیراعظم پاکستان کا کردار ادا کرنا چاہیے تھا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ وزیراعظم تحریک انصاف و اتحادیان بن کر ابھرے ہیں۔

اگر جنگ اور جیو گروپ نے مسلم لیگ (ن) کو سپورٹ کیا ہے تو پی ٹی آئی کو سپورٹ کرنے والے زیادہ بڑی تعداد میں تھے۔ وزیراعظم عمران خان کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے سے نیب پر یہ الزام اب ثابت ہوگیا ہے کہ یہ ساری گرفتاریاں وزیراعظم کے اشارے پر ہورہی ہیں اور وہ دن دور نہیں ہے جب نیب کے اندر سے کچھ لوگ پکار اٹھیں گے کہ ہمیں یہ کیس بنانے پر مجبور کیا گیا اور عین ممکن ہے کہ جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ کی طرح جسٹس (ر) جاوید اقبال کا ضمیر بھی بیدار ہو جائے اور پھر وہ کسی جوابدہ پروگرام میں اعتراف جرم کرتے ہوئے نظر آئیں کہ پی ٹی آئی کے دور میں بنائے گئے تمام مقدمات وزیراعظم سیکرٹریٹ کی خواہش کا نتیجہ تھے۔

میرشکیل الرحمن کی ہتھکڑیاں عدالتیں تین بنیادوں پر کھول دیں گی۔ اول یہ کہ وزیراعظم عمران خان نے ایک سے زیادہ بار اپنے جلسوں میں میرشکیل الرحمن کے خلاف اپنے تعصب کا اظہار کیا۔

دوئم وزیراعظم کی ہدایت پر جنگ جیو گروپ کے تمام اشتہارات کئی ماہ سے بند کردیے گئے تھے جس کی وجہ سے جنگ وجیو گروپ کے سینکڑوں کارکن نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

سوئم میر شکیل الرحمن نے 34 سال پہلے جو پراپرٹی خریدی اس عرصے کے دوران نہ تو کبھی ایف آئی اے نے اس کے غیر قانونی ہونے کا نوٹس لیا اور نہ ہی نیب نے اپنی پیدائش سے لے کر چند ماہ پہلے تک اس مبینہ غیر قانونی جائیداد پر انکوائری کا آغاز کیا۔

جنگ وجیوگروپ کے وکلاء عدالت میں وزیراعظم اور نیب کے ذاتی تعصب کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ اس سے پہلے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال نیب اور وزیراعظم کی ملی بھگت بھی ثابت کرکے باہر آئے اور اپنے بے گناہ ہونے کی دلیل کو بھی سچ کیا۔

رانا ثناء اللہ کو بھی وزیراعظم کے ذاتی تعصب کی روشنی میں ریلیف ملا۔ میرشکیل الرحمن کے پاس اس کیس میں بے گناہی کے لئے گراؤنڈ مضبوط ہے اور انہیں زیادہ دن نیب اپنے پاس رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ لیکن اس کا سارا ملبہ وزیراعظم عمران خان پر ہی گرے گا جہاں تک معاملہ چیئرمین نیب کا ہے تو ان کا مؤقف اچانک کوئی ویڈیو تبدیل کر سکتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ جو حکومتیں ذاتی عناد پر مقدمے بناتی ہیں کچھ عرصے بعد ان کے خلاف بھی ایسے ہی مقدمات بن رہے ہوتے ہیں۔ جو لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے پھر تاریخ انہیں سبق سکھاتی ہے۔ باقی وزیراعظم کی اپنی مرضی ہے جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

بقول حبیب جالب کے کہ

تم سے پہلے وہ جو اِک شخص یہاں تخت نشیں تھا

اس کو بھی اپنے خدا ہونے پر اتنا ہی یقین تھا

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments