شہید حوالدار فہیم عباس کے قاتلوں کا کچھ پتہ چلا؟


عوام پولیس شہداء کے خون سے کبھی بے وفائی نہیں کریں گے۔ یہ جملہ پولیس کے دیگر شہداء کی طرح شہید حوالدار فہیم عباس کے ستائشی بینر پہ بھی تحریر ہے، یہ بینرز محکمہ پولیس کی جانب سے یوم شہدائے پولیس پہ ہر شہید اہلکار کے دروازے پہ سرکار کی جانب سے آویزاں کیے جاتے ہیں۔ اس سوال کو ایک طرف رکھ کر کہ عوام نے کب پولیس یا سکیورٹی اداروں کے شہداء کے لہو سے بے وفائی کی ہے؟ ، آگے بڑھتے ہیں۔ بعد از شہادت تمغہ شجاعت پانے والے شہید حوالدار فہیم عباس کی گزشتہ روز 11 ویں برسی تھی۔

ان 11 سالوں میں سرکاری ریکارڈ روم کی ڈھیروں فائلوں میں شہید فہیم عباس قتل کیس کی فائل بھی کہیں نہ کہیں دبی ہو گی اور برسوں کے وقت کی لاپرواہ گرد نے اس فائل کو ضعیف بھی کر دیا ہو گا اور اس میں موجود قاتلوں کے نقوش بھی اب تک تو مٹ ہی چکے ہوں گے مگر ڈی آئی خان سٹی کی حدود میں داخل ہونے کے بعد آپ کسی بھی شخص سے شہید فہیم عباس کی شہادت، جائے شہادت، وجہ شہادت یا اس کی فیملی سے متعلق سرسری سا سوال کریں تو جواب میں آپ کو وہ اتنی معلومات سے نوازے گا کہ جو شہید فہیم عباس قتل کیس کی فائل میں درج نہیں ہوں گی۔ یہ معلومات کچھ اس نوعیت کی ہوں گی۔

ہنس مکھ، کھلنڈرا، خوش مزاج اور ہر دلعزیز نوجوان تھا۔ ہر کسی سے دوستی تھی، گپ شپ تھی۔ اس بات سے بے پروا کہ ”لوگ کیا کہیں گے“ سردیوں میں شوخ رنگوں کے مغربی ڈیزائن کی نت نئی جیکٹس پینٹس، گرمیوں میں شارٹس، ٹی شرٹس، جینز پہنے بانکا بانکا پھرتا تھا۔ قدرت کی بنائی ہر چیز سے اسے لگاؤ تھا۔ طوطا، تیتر، مرغا، کبوتر، چکور سبھی اس کی زندگی میں شامل تھے۔ پھر یوں ہوا کہ فرنٹیر ریزرو پولیس میں بھرتی ہوکر ٹریننگ پہ چلا گیا۔

ٹریننگ ختم ہونے کے بعد مختلف علاقوں میں اپنے فرائض منصبی ادا کیے اور پھر بعد ازاں پولیس لائن ڈیرہ آ گیا۔ 12 دسمبر 2008 ء کو شہر کی مرکزی جامع مسجد اہل تشیع المعروف مسجد یاعلی (ع) میں نماز جمعہ کے دوران ایک خودکش حملہ آور گھسا۔ اس سے قبل کہ وہ خود کو دھماکے سے اڑاتا، شہید فہیم عباس نے اسے جالیا اور اپنے مضبوط ہاتھوں سے اسے قابو میں کر لیا گرچہ فہیم عباس اس وقت وردی میں نہیں تھا۔ اس وقت وہ آن ڈیوٹی بھی نہیں تھا۔

فہیم عباس کے پاس یہ راستہ موجود تھا کہ وہ اپنی جان کی پروا کرتے ہوئے اس خودکش حملہ آور کو نظرانداز کر دیتا، اور اگر وہ ایسا کرتا بھی سہی تو بھی اس سے کوئی محکمانہ باز پرس نہیں ہونی تھی۔ مگر۔ نہیں۔ اس خودکش حملہ آور کو فہیم عباس نے زندہ پکڑ لیا۔ پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا کہ جس میں خودکش حملہ آور اپنے ہدف پہ پہنچنے کے باوجود زندہ گرفتار ہوا ہو اور باقاعدہ طور پر پولیس کے حوالے کیا گیا ہو۔ نماز جمعہ کے اجتماع میں یہ ممکنہ خودکش حملہ شہید فہیم عباس نے ناکام بنا دیا۔

خودکش حملہ آور بھیجنے والوں کے نزدیک شاید فہیم عباس کا یہ ”جرم“ ناقابل معافی تھا، اسی لیے محض 3 ماہ کے اندر یعنی 11 مارچ 2009 ء کو اپنے گھر سے محض دس قدم کے فاصلے پہ فہیم عباس پر علی الصبح فائرنگ کرکے شہید کر دیا گیا۔ جس گلی میں تین ماہ قبل شہید فہیم عباس خودکش حملہ آور کو دبوچ کے کھڑا تھا، تین ماہ بعد اسی گلی میں شہید فہیم عباس کا جسد خاکی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نظام پہ سوالیہ نشان ثبت کر رہا تھا۔

جامع مسجد مسجد یاعلی (ع) سے جس خودکش حملہ آور کو شہید فہیم عباس نے زندہ پکڑ کر تھانہ سٹی پولیس کے حوالے کیا۔ درہ آدم خیل کے رہائشی شکیل احمد ولد غلام حسن نامی اس خودکش حملہ آور کا تھانہ سٹی کے ریکارڈ میں کوئی ذکر نہیں اور نہ ہی اس کی ایف آئی آر درج ہے۔ گرچہ اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے مگر بعض میڈیا رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہی خودکش حملہ آور کوئٹہ میں دوبارہ پکڑا گیا اور اس بار اس کا نشانہ کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ کمیونٹی تھی۔ اس سوال کو بھی ایک طرف رکھ کر ہم آگے بڑھتے ہیں کہ وہ کون سی غیبی قوت تھی کہ جس نے ڈیرہ کے تھانہ سٹی سے اس خودکش حملہ آور کی رہائی کا بندوبست بھی کیا اور پھر اسے کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کو نشانہ بنانے کے لئے باحفاظت کوئٹہ بھی منتقل کیا؟

ڈی آئی خان جیسے حساس شہر میں کہ جہاں مخصوص مکتب سے تعلق رکھنے والے افراد کی بے رحمانہ ٹارگٹ کلنگ جاری تھی، اسی شہر میں خودکش حملہ آور کو زندہ پکڑ کر حوالہ پولیس کرنے والے کانسٹیبل فہیم عباس کے ساتھ محکمہ پولیس نے اتنی بھی ہمدردی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اس کا تبادلہ کسی محفوظ شہر میں کر دے۔ روز شہادت بھی شہید فہیم عباس پولیس لائن ڈیرہ میں رات بھر اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے بعد گھر واپس آرہا تھا۔

فہیم عباس کے گھر سے پولیس لائن ڈیرہ کا فاصلہ تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر ہے اور درمیان کمشنری و مسگراں بازار بھی ہے کہ جہاں بم دھماکوں کے ساتھ ساتھ ٹارگٹ کلنگ کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں۔ شہید فہیم عباس موٹر سائیکل کو لے کر پیدل گھر آ رہا تھا، پیدل اس لیے کیونکہ اس کی موٹر سائیکل میں پٹرول نہیں تھا۔ (پٹرول ختم ہوا یا نکالا گیا۔ واللہ عالم)

ڈیڑھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے شہید فہیم عباس جب باخیر و عافیت اپنے گھر والی گلی میں داخل ہوا تو عین قاضیانوالی مسجد کے قریب پہلے سے گھات لگائے شقی القلب دہشتگرد نے پیچھے سے فائرنگ کر دی۔ سر اور گردن میں متعدد گولیاں لگنے سے یہ ہنس مکھ، کھلنڈرا، خوش مزاج، بہادر نوجوان موقع پہ ہی دم توڑ گیا۔ سوال یہ ہے کہ اہل تشیع کمیونٹی کے لئے جو مقامات خطرناک گردانے جاتے تھے، وہاں سے تو نڈر فہیم عباس بخیر و عافیت گزر آیا جبکہ عین گھر کے قریب اہلسنت مسجد کے قریب اور کالعدم سپاہ صحابہ کے ضلعی رہنما اور قتل و اقدام قتل کے کئی مقدمات کے ملزم سیف الرحمان بنگش کے گھر کی گلی کے سرے پہ بیدردی سے قتل کیا گیا۔

اس تضاد سے متعلق اہلیان علاقہ مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ قاتل اہل تشیع کمیونٹی کو براہ راست یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ تم ہماری دسترس میں ہو، ہم چاہیں تو تمہیں تمہارے گھروں کے دروازوں پہ بھی ٹارگٹ کر سکتے ہیں اور قاتلوں کی خوداعتمادی ملاحظہ فرمائیں، نہ تو انہیں اس بات کی پروا تھی کہ اس بھیانک جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے فہیم عباس کے کسی عزیز سے ان کی مڈبھیڑ ہو سکتی ہے۔ اس جرم کے کئی عینی شاہدین ہوں گے جو کہ عدالت میں ان کے خلاف گواہی دے سکتے ہیں، فہیم عباس کی طرح مضبوط قوت ارادی کا کوئی جوان انہیں اسی طرح پکڑ سکتا ہے کہ جس طرح خودکش حملہ آور کو پکڑ لیا تھا۔ قاتل ہر خوف سے آزاد تھا، اتنا آزاد کہ شہید فہیم عباس پہ فائرنگ کرنے کے بعد اس نے شہید کا سرکاری پسٹل بھی نکالا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ یہ وہی پسٹل تھا کہ جو خودکش حملہ آور کو گرفتار کرنے کے بعد شہید فہیم عباس کے سیدھے ہاتھ میں تھا اور جس کو لہرا لہرا کر فہیم عباس شہریوں کو دور جانے کا کہتا تھا۔

جائے شہادت سے متعلق دوسری آراء اس سے قطعاً مختلف ہے مگر وہ بھی مفروضے پہ ہی مبنی ہے۔ شہید فہیم عباس کے قاتلوں کا پروگرام صرف ایک قتل تک محدود نہیں تھا بلکہ اس پورے علاقے کو فرقہ ورانہ فساد کی آگ میں جھونکنے کی پوری سازش تھی۔ اس گلی کی تقسیم کچھ اس طرح ہے کہ ایک ہی گلی میں تین معروف مساجد ہیں۔ دو مساجد اہلسنت والجماعت کی ہیں جب کہ ایک اہل تشیع کی ہے۔ گلی کی تقسیم کچھ اس طرح ہے کہ تقریبا نصف گلی میں تمام مکان اور دکانیں اہل تشیع کی اور باقی نصف اہل سنت والجماعت کی ہیں۔

مسلکی تفریق کا جو اختلاف پہلے محض زبان کی حد تک تھا، کالعدم سپاہ صحابہ کے ضلعی رہنما کے یہاں آکر بس جانے کے بعد یہ اختلاف کسی حد تک نفرت میں بدل چکا تھا کیونکہ ماضی میں نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں کو مدعا بناکر نفرت کی فضا بنائی گئی تھی جسے مقامی انتظامیہ اور پولیس نے بڑھاوا دینے میں اہم کردار بھی ادا کیا تھا۔ ممکنہ طور پر شہید فہیم عباس کے قاتلوں کی منصوبہ بندی یہ تھی کہ اہل تشیع خاندان اس سانحہ کے بعد جب شہید کا جسد خاکی سنبھالنے آئیں گے تو غم و غصے میں بپھرے نوجوان اپنے جذبات کا اظہار کریں گے، جس کو جواز بناکر کالعدم تنظیم کے فسادی کوئی شرارت کریں اور نتیجے میں پورا علاقہ شیعہ سنی فساد (جس کا کمیونٹی کی سطح پہ کوئی وجود نہیں ) کی آگ میں جھلس جائے۔ تاہم شکر الحمد کہ فرقہ ورانہ فساد کی آگ بھڑکانے کی یہ کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی اور اس کی وجہ محض اس سے زیادہ اور کوئی نہیں تھی کہ اس سانحہ عظیم کو تشیع خاندانوں نے زہر کے گھونٹ کی طرح پی کر برداشت کیا اور ضبط کا کمال کر دیکھایا۔

عوام نے تو اپنے پیاروں لاشیں صبر کی مثال بنکر چوراہوں سے اٹھائیں۔ ریاستی نا انصافی اور اداروں کے جانبدرانہ کردار پہ بھی انگلی نہیں اٹھائی اور نہ ہی قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ شہید فہیم عباس کے بینر پہ بالکل درست لکھا آپ نے کہ عوام شہدائے پولیس کے لہو سے کبھی بے وفائی نہیں کریں گے۔ شکر الحمد اللہ، عوام نہیں کریں گے۔ مگر جناب آپ بھی تو بتائیں کہ عوام کے دل و دماغ میں موجود سوالوں کے جواب انہیں کون دے گا۔

کون ان کی تسلی و تشفی کاباعث بنے گا۔ شہید فہیم عباس کے قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دینے کی ذمہ داری عوام کی تو نہیں، یہ ذمہ داری کب اور کون ادا کرے گا۔ عوام تو پولیس اور سکیورٹی اداروں اور نڈر شہریوں کو اسی وقت تمغہ شجاعت سے نواز دیتے ہیں کہ جب وہ اپنی جرات و بہادری ثابت کرتے ہیں۔ جب عنایت اللہ ٹائیگر ایک ایکٹیو بم کو ناکارہ بنانے کے لیے اس میں ہاتھ ڈا التا ہے تو آپ اسے دیں یا نہ دیں عوام اسے تمغہ شجاعت دے دیتے ہیں۔

جب شیرزمان کے جنازے میں کوئی نوجوان خودکش حملہ آور سے لپٹ جاتا ہے تو عوامی رائے میں وہ اسی وقت ہیرو قرار پاتا ہے۔ وہ تمغہ شجاعت سمیت ہر بڑے سے بڑے سویلین اعزاز کا حقدار ٹھہرتاہے۔ جب فہیم عباس کسی خودکش حملہ آور کو گرفتار کرتا ہے تو عوام میں وہ اسی دن سے جری، نڈر اور شجاع قرار پاتا ہے۔ ہاں مگر آپ کو تمغہ شجاعت دینے کیلے اس جوان کی شہادت کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ عوام کو نہیں۔

عوام نے تو پولیس سمیت کسی ادارے کے شہداء کے لہو سے کبھی بے وفائی نہیں کی مگر سوال تو یہ ہے کہ ان شہداء کے لہو سے آپ نے کتنی وفا کی۔ آپ کو تو شہید فہیم عباس کی شجاعت پرکھنے کے لئے اس کی شہادت کا انتظار کرنا پڑا، جس تمغہ شجاعت کا اعلان شہید فہیم عباس کے لئے بعد از شہادت کیا گیا، یہ اعلان اس کی زندگی میں کیا جاتا تو اس کے عوام، معاشرے اور ادارے کے دیگر اہلکاروں پہ کئی گنا زیادہ بہتر اثرات مرتب ہوتے۔

شہید فہیم عباس قتل کیس کی فائل پہ برسوں کی گرد جمی ہو گی، سرکاری دفتر میں جو ہے۔ آج گیارہ سال گزر گئے مگر شہید فہیم عباس کے قاتلوں کا سراغ پولیس نہیں لگا پائی۔ شہید فہیم عباس کے قتل کی ایف آئی آر نمبر 95 زیر دفعہ 302 / 404 / 34 / 7 ATA تھانہ سٹی میں درج ہے۔ قاتل نامعلوم ہیں، وجہ قتل بظاہر خودکش حملہ ناکام بنانا ہے، خودکش حملہ آور نہ پولیس کی تحویل میں ہے اور نہ ہی پولیس کے کاغذات میں ہے۔

شہداء کے لیے ان تحسین و ستائش پہ مبنی بینرز بنانا، پینافلیکسز بنانا، مساجد، امام بارگاہوں اور گھروں میں ان کی یاد کی محافل منعقد کرانا یہ عوام کے کام ہیں اور شکر الحمد کہ ہر پروگرام اور تہوار پہ عوام اپنی یہ ذمہ داری بطریق احسن انجام دیتے ہیں۔ جناب آپ کا کام ان شہداء کے قاتلوں کو گرفتار کرنا، انہیں کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔ کیا آپ نے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے انجام دی اگر ہاں تو سوال وہی ہے کہ شہداء کے قاتل؟

تو ادھر ادھر کی بات نہ کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا؟

مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments