کورونا وائرس: مشہور مسلمان علما کے ارشادات


2018 کا آخری دن تھا اور دنیا 2019 کا سورج نکلنے کی مشتاق تھی۔ مولانا طارق جمیل کنیڈا کے تبلیغی سفر سے پلٹے ہی تھے کہ سینے میں تکلیف محسوس ہوئی۔ احباب فوری طور پر لاہور کے جوہر ٹاؤن میں واقع ایک نجی اسپتال میں لے کر بھاگے۔ ڈاکٹروں نے تشخیص کی کہ دل کو خون فراہم کرنے والے شریان میں رکاوٹ آ گئی ہے۔ یہ صورت جان لیوا ہو سکتی تھی اس لئے اس رکاوٹ کو کھولنے کے لئے ایک اسٹنٹ ڈال دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مولانا بہت جلد رو بہ صحت ہو کر اسپتال سے گھر آ گئے۔

گیارہ مہینہ خیر سے گزر گئے۔ اس دوران مولانا موصوف کے تبلیغی دورے، ناصحانہ بیانات اور دعوت کا سلسلہ جاری رہا۔ نومبر کے پہلے ہفتے میں مولانا کے دل نے پھر شکایت کی۔ ایک بار پھر انہیں اسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ ایک اور شریان نے دل کو خون کی سپلائی روک دی ہے۔ یعنی مولانا صاحب ایک بار پھر جان لیوا صورتحال کے دہانے پر تھے۔ ڈاکٹروں نے پھر وہی طریقہ اپنایا اور اسٹنٹ ڈال کر دل کو پہلی صورت پر بحال کر دیا۔ مولانا پھر صحت مند ہو کر اپنے عقیدت مندوں میں لوٹ آئے اور ماشا اللہ تب سے اب تک تندرست ہیں۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس سے اودھم مچا تو مولانا کو اپنے عقیدت مندوں کو دلاسا دینے کا خیال آیا۔ مولانا نے تقریبا تین منٹ کا ایک ویڈیو کلپ اپنے آفیشیئل یو ٹیوب چینل سے نشر کر دیا۔ اس ویڈیو کو ہفتے بھر میں تقریبا 23 لاکھ لوگ دیکھ چکے ہیں۔ اس ویڈیو میں مولانا جو کچھ فرما رہے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی شخص بیماری سے نہیں مرتا بلکہ جب اس کا وقت آتا ہے تب مرتا ہے۔ مولانا نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے لوگوں کو کوارنٹائن کرنے (دیگر لوگوں سے الگ تھلگ رکھنے ) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام میں کوئی چھوت چھات نہیں ہے، بیماری چھوت چھات سے نہیں لگتی، جب اللہ لگاتا ہے تو لگتی ہے۔

یقین جانئے مولانا صاحب کے ملفوظات سن کر دل کو بڑی ڈھارس ہوئی۔ ہاں دو ایک سوال ہیں جو ذہن میں انڈے بچے دے رہے ہیں۔ فرض کیجے مولانا کو جنوری کے شروع میں یا پھر نومبر میں دل کا عارضہ ہونے پر اسپتال نہ لے جایا جاتا اور شریان میں اسٹنٹ ڈال کر دل کو خون کی سپلائی نہ کھولی جاتی تو کیا مولانا کو کوئی خطرہ نہ ہوتا؟ جہاں تک ہمیں معلوم ہوا ہے ڈاکٹروں نے یہی بتایا تھا کہ اگر انجیوپلاسٹی نہ ہوئی تو حالات جان لیوا بن سکتے ہیں۔

اب ذرا کوارنٹائن کیے جانے والی بات پر آ جائیے۔ مولانا نے چھوت چھات کا عنوان دے دیا لیکن ڈاکٹر اسے احتیاط مانتے ہیں۔ وائرس ہوا کے ذریعہ انسانوں کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے اس لئے ماہرین نے بتایا کہ ایسا شخص جسے انفیکشن ہو جائے یا اندیشہ ہو کہ انفیکشن ہو چکا ہے، اسے دیگر صحت مند افراد سے دور رکھا جائے تاکہ وائرس اوروں کو نہ لپٹ جائے۔ یہ وہی بات ہے جسے مولانا صاحب اپنے کورونا والے بیان میں اس حدیث کی شکل میں بیان کر چکے ہیں کہ جہاں کہیں وبا پھیل جائے وہاں سے کوئی شخص دوسری جگہ نہ جائے اور نہ ہی دوسری جگہ کا شخص اس وبا والی جگہ کا رخ کرے۔

مولانا کا بیان سن کر میری آتش شوق بھڑک اٹھی اور کورونا کے بارے میں دیگر علما کے بیانات دیکھنے لگا۔ مولانا علی رضا رضوی کا آبائی تعلق پاکستان سے ہے لیکن ان کی عمر برطانیہ میں گزری ہے۔ آپ مجلس علما شیعہ یورپ کے صدر ہیں اور برصغیر کے شیعہ حلقوں میں اچھے خاصے مشہور ہیں۔ کورونا وائرس کے بارے میں مولانا علی رضا رضوی نے فرمایا کہ اگر روزانہ زیارت عاشورہ پڑھی جائے تو اس وائرس سے حفاظت رہے گی۔ مولانا صاحب نے اپنی بات کو مزید مضبوطی دینے کے لئے ایک سو دس برس پہلے کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ عراق کے سامرہ میں طاعون پھیل گیا تھا۔ اس وقت کے شیعہ مجتہد کے کہنے پر وہاں کے شیعوں نے زیارت عاشورہ پڑھنی شروع کی اور وہ طاعون سے ہلاک نہیں ہوئے جبکہ دوسرے مکتب فکر کے لوگوں کی اموات ہوئیں۔

مولانا علی رضا رضوی کا بیان سنتے ہوئے میں نے چیک کیا کہ ایران میں اب تک کتنے لوگ کورونا وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں؟ مرنے والوں کی تعداد سیکڑوں میں نظر آئی۔ ایران میں اس وبا سے اموات کا سلسلہ قم شہر سے شروع ہوا تھا جو مقدس ترین شہر مانا جاتا ہے۔ مرنے والوں کی جو تفصیلات سوشل میڈیا پر مل رہی ہیں ان میں بہت سے بزرگ علما بھی شامل ہیں۔ ان میں حجت الاسلام ہادی خسرو شاہی اور محمد میر محمدی جیسے اکابرین شامل ہیں جو ایران کے ولایت فقیہ کے نظام میں کلیدی ذمہ داریاں سنبھال چکے تھے۔ خوب یاد آیا کہ جب قم شہر میں کورونا وائرس پھیلنے لگا تو وہاں واقعہ روضے اور مدرسہ کو عارضی طور پر بند کرنے کی بات آئی۔ با اثر علما نے اس تجویز کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ تو روحانی شفا خانے ہیں اس لئے لوگوں کو یہاں آنے سے روکنے کا کیا مطلب؟

مولانا مکی الحجازی اہل حدیث مکتب فکر کے مشہور عالم ہیں۔ کورونا وائرس کے حوالے سے مولانا نے قرآن کی ایک آیت بتائی اور کہا کہ اگر اسے صبح شام تین تین بار پڑھ لیا جائے تو کورونا کیا کوئی بھی موذی مرض یا وبا نہیں لگے گی۔ اس کے بعد انہوں نے چار مرتبہ درود شریف پڑھنے کی بھی تلقین کی۔ مولانا کا یہ بیان مسجد الحرام میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ مسجد الحرام کو کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لئے چند دن پہلے ہی خالی کرایا گیا تھا اور ہماری یادداشت میں پہلی بار خانہ کعبہ کے چاروں طرف خاموشی تھی۔ کورونا کی وجہہ سے عمرے پر پابندی ابھی بھی لگی ہوئی ہے۔ مسجد الحرام کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہاں ہر وقت قرآن مجید کی تلاوت اور اوراد و وظائف کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

مذکورہ تمام صورتوں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ ان تمام علما نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ کورونا کی وجہہ سے پیدا صحت کے بحران کا مذہب میں حل کھوجا جائے۔ شاید ان کے ذہن میں یہ بات ہو کہ دنیا کو درپیش اتنے بڑے بحران پر اگر مذہب خاموش نظر آیا تو اس سے اس کی آفاقیت یا اکمال پر حرف آ جائے گا۔ مجھ نا سمجھ کی سمجھ کہتی ہے کہ یہ سوچ درست نہیں۔ مذہب کا یہ مطمح نظر نہیں ہے کہ وہ جسم میں پیدا بیماریوں کا حل بیان کرے۔

مذہب کا تعلق اخلاقی تربیت، نفس کی طہارت اور بہتر معاشرے کی تشکیل سے ہے۔ مذہب اس کی ضمانت تو لیتا ہے کہ اگر اس کی تعلیمات پر عمل کیا گیا تو معاشرہ روحانی اور اخلاقی طور پر تندرست رہے گا لیکن جسمانی اعتبار سے لوگوں کو جو مسائل درپیش ہوں گے ان سے نمٹنا مذہب کے مینڈیٹ میں شامل نہیں ہے۔ مذہبی تعلیمات، صحت کی اخلاقیات کی پابندی پر زور دیتی ہیں لیکن کورونا وائرس جیسی بحرانی کیفیت سے نمٹنے کے لئے ہمیں وہیں رجوع کرنا ہوگا جن کا یہ مینڈیٹ ہے یعنی میڈیکل سائنس۔

ایک اور مصیبت اس بات نے کھڑی کر دی ہے کہ ہم مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے کی ضد کے طور پر دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ اسی نفسیات کا نتیجہ ہے کہ علما کورونا کا حل بتانے میں عاجز نظر نہیں آنا چاہتے کہ ان کی دانست اس سے سائنس کی برتری ثابت ہو جائے گی۔ ذرا سی بات ہے مگر جو نہ سمجھنا چاہیں ان کے لئے بہت پیچیدہ امر بن گئی ہے اور وہ یہ کہ سائنس نہ تو کوئی مذہب ہے اور نہ ہی یہ دین کی عملداری کو چیلنج کرتی ہے۔

مذہب روحانی اور اخلاقی تربیت کی بات کرتا ہے اور سائنس اس موضوع کو کبھی نہیں چھیڑتی۔ جس طرح سائنس پر یہ اعتراض نہیں کیا جاتا کہ وہ اخلاقیات کی تعلیم دینے سے قاصر ہے اسی طرح مذہب پر بھی یہ اعتراض نہیں ہونا چاہیے کہ وہ میڈیکل چیلنجز سے نمٹنے کی تدبیریں کیوں نہیں بتا پا رہا ہے؟ جس طرح آخرت، بخشش، نیکی اور ثواب سے سائنس کا سروکار نہیں ہے بالکل اسی طرح کورونا وائرس مذہب کا مسئلہ نہیں ہے۔ ذرا سوچئے کہ اگر سائنس داں روحانیت اور اخلاقیات کے میدان میں کود پڑیں تو کیا ہمارے علما یہ نہیں کہیں گے کہ یہ تمہارا میدان نہیں ہے۔ بس اسی اصول کے مطابق علما کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کورونا وائرس ان کی عملداری میں نہیں آتا

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments