نازمینہ …. ایک درد بھری کہانی


”دیوار کے ساتھ پتھروں کو یکجا کرکے نازمینہ اور اس کی سہلیوں نے اپنا گھر بنایا تھا جس میں آج نازمینہ کی گڑیا کی شادی“ رچائی جارہی تھی نازمینہ اور اس کی سہیلوں نے اس شادی کے لئے خوب تیاری کر رکھی تھی ”وہ سب وہ گیت گا رہے تھی جو عموما شادیوں میں دوشیزائیں اور بڑی عمر کی عورتیں مقامی رقص میں ٹولیوں کی صورت میں گاتی ہیں“۔

نازمینہ نے اپنی گڑیا کے لئے خوبصورت جوڑا اپنی امی سے ضد کرکے سلاوایا تھا وہ اس جوڑے کی باری باری اپنی سہیلوں سے تعریف کرتی رہی اس کی معصوم چہرے پر ایک معصومانہ خوشی رقص کررہی تھی آج وہ خود کو دنیا کی سب

خوش قسمت انسان سمجھ رہی تھی۔

گڑیا کی شادی کی آخری رسومات نازمینہ اور اس کی سہیلیاں ادا کررہی تھیں کہ نازمینہ اور اس کی سہیلوں کی خوبصورت آوازوں سے معطر فضا گولیوں کی گرجدار آوازوں سے آلودہ ہوگئی

یہ اعلان تھا ”نازمینہ کی منگنی“ کا اور اس کی منگنی ایک ”پنتالیس سالہ“ شخص ”مجو“ کے ساتھ اس کے والدین نے طے کی، مجو پہلے سے شادی شدہ تھا لیکن اس کی پہلی بیوی تھوڑی سی کمزور ہوچکی تھی مگر مجو خود کو اب بھی جوان سمجھتا تھا۔ دوسری شادی وہ تو پہلے سے ہی کرنا چاہتا تھا لیکن نازمینہ سے اس کا رشتہ اتفاقیہ طور پر ہوا مجو کی بڑی بیٹی ”درخو“ پر نازمینہ کے بھائی لونگ فدا ہوگیا تھا وہ اسے ہر صورت میں حاصل کرنا چاہتا تھا۔ کئی بار لونگ نے اپنا رشتہ درخو کے گھر بجھوایا لیکن مجو ماننے کو تیا ر نہیں تھا کیونکہ مجو نے اپنی بیٹی درخو کے بدلے شادی کرنا چاہتا تھا۔

اور لونگ چاہتا تھا کہ مجو (ولور ) پیسے لے کر اپنی بیٹی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے۔ لیکن مجو ٹھس سے مس نہیں ہورہا تھا اسے بھی تو شادی کرنی تھی۔ بالا آخر مجو نے لونگ کے سامنے درخو کا رشتہ دینے کی ہامی اس صورت میں بھر لی کی لونگ درخو کے بدلے اپنی نو سالہ بہن نازمینہ شادی مجو سے کروائے گا۔ لونگ کے سر پر ہر حال میں درخو کو حاصل کرنا کا بھوت سوار تھا۔ گھر میں نازمینہ کی بات کو لے کر نوک جھونک ہوگیا

نازمینہ کی والدہ توربی بی اپنی کمسن بیٹی کو کم عمری میں مجو کی نکاح میں دینے کی حامی نہیں تھی، لیکن لونگ کو اپنی بہن کی زندگی سے زیادہ درخو کی محبت عزیز تھی اس کے لئے وہ ”کمسن نازمینہ“ کی ”قربانی“ دینے کے لئے تیار تھا۔ لونگ نے اپنی والدہ کو کہا کہ ”نازمینہ“ کو کبھی نہ کبھی شادی ہی کرنی ہے تو آج کیوں نہیں آخرکار لونگ کے سامنے اس کی والدہ نے ہتھیار ڈال دیے اور نازمینہ کی ”منگنی“ مجو سے کرنے کی ہامی بھر لی۔

گولیوں کی آوازیں سن کر نازمینہ اور اس کی سہیلیاں سہم گئیں اور وہ خوف کے مارے اپنے گھر کی طرف دبے پاوں بھاگ گئیں۔ نازمینہ کی سانسیں پھول رہی تھی جیسے ہی وہ دروازے سے گھر میں داخل ہوئی تو اس کی نظر مجو کے بڑے بھائی آدم خان پر پڑی جس کے سر پر ”موتیوں اور ٹنگے“ ہوئے پیسوں سے مزین چادر دیکھی جس کو مقامی زبان میں ”دسمال یا اورمیال“ کہا جاتا ہے دیکھا اور اسے خواتیں کو گیت گاتی ہوئے سنائی دیں

وہ بے اختیار گیتوں کی آوازوں کی طرف لپکی قریب پہنچتے ہی اس نے محو رقص خواتین کی لمبی قطار دیکھی اور بھی اس قطار میں جا کھڑی ہوگئی اور رقص کرنا شروع کردیا۔ اسے نہیں پتہ تھا کہ اس کی زندگی کے ساتھ ایک بہت بڑا ظلم ہوچکا ہے اور وہ اپنی زندگی کی بربادی کی خوشیاں منانے والی خواتین کی ساتھ رقص کررہی ہیں اس دوران اس کی والدہ دوڑ کر آگئی۔ اور نازمینہ کو اپنی آغوش میں لے کر کمرے کی طرف چل پڑی اور وہ بڑبڑا رہی تھی اب لوگ کیا کہے گئے کہ توربی بی کی بیٹی اپنے منگنی میں رقص کررہی تھی ذرا سا بھی شرم اس میں نہیں ہے

چھوٹی عمر میں وہ اپنی منگنی پر اتنی خوش تھی کہ عورتوں کے ساتھ ایک صف میں کھڑی ہوکر رقص کررہی تھی۔ توربی بی نے کمرے میں داخل ہوتے ہی دروازے کو کنڈی لگا تے ہی نازمینہ پر برس پڑی پاگل ہوگی کیا اپنی منگنی میں ناچ رہی ہوں لوگ کیا کہے گئے۔ نازمینہ ماں کی ڈانٹ سے خوفزدہ ہوکر دھیمی اور لرزتے لبوں سے گویا ہوئی امی آپ صرف مجھ پر کیوں غصہ کررہی ہیں سب تو ناچ رہی ہیں۔

توربی بی: چپ بدتمیز ناک کٹوا دی تیری منگنی ہورہی ہے اور تو ناچ رہی ہے۔

نازمینہ : حیرت سے کہنے لگی منگنی؟

توربی بی: ہاں تیری ”منگنی“ مجو سے اور ”مجو کی بیٹی درخو کی منگنی“ تمھارے بھائی لونگ سے طے ہوگئی ہے۔

نازمینہ منگنی کو سمجھے بغیر :معصومیت سے کہنے لگی امی پھر میری گڑیا کی طرح شادی ہوجائے گئی اور آ پ مجھے بھی اچھی کپڑے لے کر دوگی۔

تور بی بی کی احساسات نازمینہ کی معصومانہ سو ال سن کر ایک دم تبدیل ہوگئے وہ روہانسی سی ہوگئی

اس سے پہلے کہ بے بسی کی آنسو ان کی آنکھوں سے چھلک پڑتے انہوں نے اپنی بیٹی کو گلے لگایا اور ممتا سے بھری آواز میں بیٹی سے مخاطب ہوکر بولی۔ ہاں بیٹی تیرے لیے میں اچھے اچھے بخمل کے کپڑے سائیکل والے سے لے کر دوں گئی اور اپنے ہاتھوں سے سے سی بھی لو ں گی۔

منگنی کی تقریبات ختم ہوتے ہی نازمینہ کا گھر سے نکلنا بھی بند ہوگیا تور بی بی اب اپنی بیٹی کی تربیت بیٹی کی بجائے بہو کی طرح کرنے لگی انہیں آٹا گوندھنے، روٹی پکانا، جھاڑو لگانا، گھر میں کھڑی گائے کے دودھ چوائی کرنا اور کڑائی سلائی سکھانے لگی،

نازمینہ کا بچپن چھن گیا ان کی امی نے اس کے دماغ میں ایک ہی بات بٹھا دی اور وہ بات یہ تھی کی تیری زندگی کا واحد مقصد شادی کرنا ہے اور شادی کے لئے ہر وہ کام تجھے سیکھنا ہوگ اجو ایک بہو سسرال میں کرتی ہے تاکہ سسرالی خوش رہیں۔

شادی کی تربیت کے ”تین سال“ کیسے گزرے پتہ ہی نہیں چلا۔ گھر میں نازمینہ اور لونگ کی شادی کی تیاری شروع کردی گی۔ لونگ پر ہر دن سال کی طرح گزر رہا تھا جبکہ نازمینہ کو خوف لاحق ہوگیا وہ شادی سے ڈرنے لگی۔

اڑتالیس سالہ مجو سے بھی خوف آنے لگا اب وہ شادی کا مفہوم سمجھ چکی تھی۔ مجو کے ساتھ زندگی گزارنے کا سوچ اکیلے میں رونا اس کا معمول بن چکی تھی۔ لیکن وہ اپنا درد کسی سے بیان نہیں کرسکتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی اگر شکایت کی تو گھر والے اسے ڈانٹ دیں گے۔

بالا آخر وہ دن بھی آپہنچا جب نازمینہ دلہن بنی گڑیا کی طرح اسے بھی سجایا گیا خوبصورت کپڑے اس نے زیب تن کیے لیکن اسے ان سے گن آرہی تھی آج وہ خود کو بدقسمت انسان قرار دے رہی تھی آج وہ رو بھی نہیں سکتی تھی۔ کیونکہ ان کی بھائی نے اسے دھمکی دی تھی کہ لوگوں کے سامنے رونا مت کیونکہ لوگ پھر کہیں گے کہ نازمینہ کو مجو پسند نہیں اور لوگوں طرح طرح کی باتیں بنائیں گے جس سے معاشرے میں ان کی بدنامی ہو گی۔

نازمینہ کا وجود تو اپنا تھا لیکن اس وجود کے فیصلے دوسرے اپنی وجود کی جھوٹی انا اور تسکین کے لئے کررہے تھے۔ نازمینہ اپنے ساتھ ہونے والے مظالم پر رونے کی حد کا بھی اختیار نہیں رکھتی تھی وہ ایک پرزہ تھی جو استعمال ہورہی تھی۔

نازمینہ کی شادی کو ایک سال ہی ہوا تھا کہ اس کا شوہر مجو ”گردے فیل“ ہونے کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ مجو کے رخصت ہوتے ہی مجو کے بڑے بھائی صادق اور خاندان کے دیگر مردوں کے درمیان نازمینہ کے ساتھ نکاح کو لے کر رسی کشی شروع ہوگئی صادق نازمینہ پر اپنا حق جتا رہا تھا ان کے مطابق نازمینہ سے وہی نکاح کرے گا کیونکہ نازمینہ اس کی بیوی تھی اور رسم رواج کے مطابق بھائی کی بیوہ پر بھائی کا ہی حق ہوتا ہے۔ لیکن خاندان کے دیگر مرد اس پر اپنا حق جتا رہے تھے اور اس بات پر کئی بار باتھا پائی بھی ہوئی اور اسلحہ اٹھانے تک پہنچ گئی پھر محلے والے بیچ بچاؤ کرکے معاملے کو کچھ دنوں تک رفع دفع کردیتے۔

ایک رات صادق اپنے بیوی بچوں اور نازمینہ کو لے کر علاقے سے چپکے سے نکل گیا کئی مہینے بعد پتہ چلا کہ پچاس سالہ صادق نے نازمینہ سے نکاح کر لیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments