مریم نواز: سیاسی یرغمال کا سرپرائز


مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے چارماہ بعد چپ کا روزہ توڑ دیا ہے، انہوں نے ضمانت پر رہائی کے بعد اپنے آپ کو جاتی امرامیں قیدکر لیاتھا، اس دوران انہوں نے اپنے آپ کو عملی سیاست سے الگ تھلگ رکھا، حتیٰ کہ پارٹی کے کسی لیڈر سے ملاقات تک کرنے سے گریز کیا گیا۔ حکومت نے مریم نواز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈال رکھا ہے اور انہیں اپنے والد میاں نواز شریف کی عیادت اور تیمارداری کے لئے برطانیہ جانے کی اجازت ٖ دینے سے انکار کر دیا ہے، جس کے بعد مریم نواز نے برطانیہ جانے کی اجازت حاصل کرنے کے لئے لاہور ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، تاحال لاہور ہائی کورٹ نے ان کی درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے، تاہم سیاسی حلقوں میں مریم نواز کی طویل خاموشی میں طرح طرح کی چہ میگوئیاں کی جا رہی تھیں کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہونے والی ڈیل روک دی گئی ہے اور ایک عرصہ بعدمریم نواز کے بولنے کی وجہ ڈیل کا تکمیل نہ ہونا ہے، کیونکہ ڈیل میں تھا کہ مریم نواز کو بیرون ملک بھیجا جائے گا اور مسلم لیگی رہنماؤں کو ریلیف دیا جائے گا، تاہم ڈیل روک جانے کے باعث مریم نواز بول پڑی ہیں، جبکہ دوسری طرف ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت مریم نواز کو کسی قیمت پر بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دیگی، کیونکہ وہ مریم نواز کو سیاسی یرغمال کے طور پاکستان میں رکھنا چاہتی ہے۔

یہ امرواضح ہے کہ جب مریم نواز نے عوام رابطہ مہم شروع کی تھی تو عوام کی جانب سے انہیں زبردست رسپانس ملا تھا، اس حکومت مخالف مہم جوئی کے دوران انہیں نیب کے ایک کیس میں گرفتار کر لیاگیا، لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہائی کے بعد مریم نواز نے بظاہرمصلحت خاموشی اختیار کر لی تھی، حکمران جماعت نے بھی مریم نواز کی خاموشی کو ان کی کمزوری سمجھ لیا، لیکن انہوں نے اچانک وفاقی دار الحکومت اسلام آباد کا دورہ کرکے سب کوسرپرائز دیا ہے۔

مریم نواز نے اپنی آمد کا پیشگی اعلان نہیں کیاتھا، مگر میڈیا پر ان کے دورہ اسلام آباد کی چیختی چنگاڑتی خبر نے مسلم لیگی کارکنوں کو متحرک کر دیا اور مختصر نوٹس پر سینکڑوں کارکن مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی اور سیکریٹری جنرل احسن اقبال کی رہائش گاہوں پر اکٹھے ہو گئے تھے۔ مریم نواز کی اسلام آباد میں دبنگ انٹری نے مسلم لیگی کارکنوں میں جوش و ولولہ پیدا کر دیاہے، مریم نواز کے حکومت کے خلاف تنقیدی بیان اورباڈی لینگوئج سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا مورال کمزور ہونے کی بجائے خاصا بلند ہوا ہے۔

اس سے قطع نظر کہ مریم نواز طویل عرصہ کیوں خاموش رہیں اور اب کس دباؤ کے تحت بولنے پر مجبور ہوئی ہیں، ان کے انداز تخاطب سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بیرون ملک جانے کی اجازت نہ ملنے پر ملکی سیاست میں سرگرم حصہ لینا چاہتی ہیں، انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر ایک بار پھرکھل کر حکومت پر تنقید کی ہے۔ مریم نواز کی سیاست میں واپسی کی ایک وجہ رہنما مسلم لیگ ( ن) خواجہ آصف اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو کاونٹر کرنا بھی ہے۔

اس تناظر میں کچھ مسلم لیگی رہنماؤں نے مریم نواز کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو تھاما جائے تو بھرپور حمایت کی جائے گی۔ اس کے ساتھ مریم نواز کے حامی مسلم لیگ (ن) کے رہنما مطالبہ کر رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف ملک واپس بلایا جائے، جس میں شاہد خاقان عباسی بھی شامل ہیں۔ شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کو ہارڈ لائنر ہونے کی وجہ سے مریم نواز کی آشیرباد حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ مریم نواز ان کی ضمانت پر رہائی کے بعد حوصلہ افزائی کے لئے ان کی رہائش گاہوں پر گئیں اور ان کے اہل خانہ سے اظہار یک جہتی کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہزاروں افراد نے مریم نواز کے جاتی امرا سے باہر نکلنے کے فیصلے کو سراہا ہے، مریم نواز کے اچانک منظر عام پر آنے سے جہاں مسلم لیگی کارکنوں کا حوصلہ بڑھا ہے، وہاں سیاسی حلقوں میں بھی ہلچل مچ گئی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ مریم نواز مسلم لیگ ( ن) کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، انہوں نے مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کو عزت دو کے بیانئے کی مہم میں خود کو منوایا ہے، اگر میاں شہباز شریف کی وطن واپسی میں تاخیر ہو ئی تومریم نواز پارٹی میں قیادت کا خلا ء پر کرنے کے دوبارہ میدان میں آجائیں گی۔ کیا اس صورت حال میں شہباز شریف اور مریم نواز میں سیاسی ٹکراؤ ہو سکتا ہے؟ ایسا اس لیے ممکن نہیں ہوگا، کیونکہ پارٹی میں سب میاں نواز شریف کے بیانئے پر چلتے ہیں، اس لیے مریم نواز اپنے عہدے پر کام کریں گی، جبکہ شہباز شریف مسلم لیگ ( ن) کو آگے بڑھائیں گے۔

اس کے پیچھے یہ بھی راز پوشیدہ ہے کہ شہباز شریف اپنے لچک دار رویے کی بنا پر اسٹیبلشمنٹ کو قابل قبول ہیں اور بقول شیخ رشید، شریف برادران وکٹ کے دونوں طرف کھلنے کے عادی رہے ہیں، اس لیے آج بھی اسی روش پر گامزن ایک اچھی ڈیل کے منتظر ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو فی الوقت ایک بلند آہنگ سیاسی آواز کی اشد ضرورت ہے، جو نواز شریف کے اُس بیانیہ کو زندہ رکھ سکے، جس کی پاداش میں انہیں سب کچھ دیکھنا پڑاہے۔ یہ بیانیہ مریم نواز شریف جاری رکھ سکتی تھیں، مگر مصلحتیں اُن کے پاؤں کی زنجیر بن گئی ہیں، انہوں نے مصلحت کی زنجیروں کو توڑ نے کی کوشش کرتے ہوئے سرپرئز دیا ہے۔

اس وقت مریم نواز کے جاتی امرا سے باہر نکلنے سے مسلم لیگی کارکنوں میں جوش وخروش دیدنی ہے، ایسا دکھائی دیتا ہے آنے والے دنوں میں میاں شہباز شریف پارلیمنٹ کے اند ر اور مریم نواز پارلیمنٹ کے باہر متحرک سیاست کرتی دکھائی دیں گی، لیکن یہ حکومت اورمقتدر قوتوں کے ایک پیج پر ہوتے مشکل ضرور، مگر نہ ممکن نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments